محمد اظہر نذیر
محفلین
اے زندگی دیا ہو، کہیں روشنی رہے
کیوں چاہے تُو اندھیر نگر سے بنی رہے
ادراک کہہ رہا ہے مجھے ہوش میں تُو رہ
اور عشق چاہتا ہے ابھی بے خودی رہے
اُس سے ملن کی شام ہے، کچھ بھی بُرا نہ ہو
پھر زندگی کی شام بُری ہو، بھلی رہے
محفل کا لین دین نہیں دوستی سے کُچھ
یاروں بغیر بھی تو یہ محفل سجی رہے
دل کے مکیں ہو تو یہ بیگانگی ہے کیوں
ممکن نہیں ہے دل میں کوئی اجنبی رہے
اُس کا بھی چاہتا ہوں مجھے ساتھ ہو نصیب
اس سے بھی کیا بُرا ہے اگر دوستی رہے
اظہر نہ اوڑھ خود پہ ملمع، خطا ہے یہ
باطن میں جو بھی کُچھ ہو، وہی ظاہری رہے
کیوں چاہے تُو اندھیر نگر سے بنی رہے
ادراک کہہ رہا ہے مجھے ہوش میں تُو رہ
اور عشق چاہتا ہے ابھی بے خودی رہے
اُس سے ملن کی شام ہے، کچھ بھی بُرا نہ ہو
پھر زندگی کی شام بُری ہو، بھلی رہے
محفل کا لین دین نہیں دوستی سے کُچھ
یاروں بغیر بھی تو یہ محفل سجی رہے
دل کے مکیں ہو تو یہ بیگانگی ہے کیوں
ممکن نہیں ہے دل میں کوئی اجنبی رہے
اُس کا بھی چاہتا ہوں مجھے ساتھ ہو نصیب
اس سے بھی کیا بُرا ہے اگر دوستی رہے
اظہر نہ اوڑھ خود پہ ملمع، خطا ہے یہ
باطن میں جو بھی کُچھ ہو، وہی ظاہری رہے