بہت شکریہ استاد محترم اصلاح دینے کا۔
مِری خاک بننے کو یہ مر مٹے ہیں
ستاروں، سیاروں کی میں ارتقا ہوں÷ فلک کے کواکب کی
//سیاروں کا تلفظ درست نہیں، ’فلک کے کواکب‘ میں کاف گڑبڑ کرتا ہے۔
فلک کے ستاروں کی۔۔۔ کر دو
جی ایسا ہی کر دیا۔
یہ صحرا کا بستر، وہ چھت آسماں کی
فلک کی نوازش کا پیکر بنا ہوں
//آسماں کی چھت ہے، پھر آسماں کا کیا قہر ہے جسے طنزاً نوازش کہا گیا ہے، بہر حال شعر اچھا ہے۔
مراد یہ ہے کہ ایسی حالت زار ہے کہ نہ بچھونہ ہے اور نہ ہی چھت جو سایہ کر سکے۔ اور چھت بھی وہی ہے جس کی نوازش سے اس حال پر پہنچا ہوں۔
میں نکلا تھا سورج کی منزل کو پانے
پہ اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں
// میں سورج کی منزل کو پانے چلا تھا
پر اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں
بہتر ہو گا
جی کر دیا۔ شروع میں میں نے "پر اس" ہی باندھا تھا لیکن پھر وزن کا مسئلہ لگا مجھے اور تبدیل کر دیا۔ لیکن الف کے اتصال کا ضیال نہیں رہا۔ اب کافی بہتر لگ رہا ہے۔
عصا، آبلے اور پوشاکِ خستہ
یہ ساماں ہے باقی، پہ میں چل رہا ہوں
//یہ سرمایہ باقی ہے، پر چل رہا ہوں
یا
یہی میری پونجی ہے، جو چل رہا ہوں
اگر اس طرح کر دیں تو کوئی مسئلہ تو نہیں؟:
یہ ساماں ہے باقی، مگر چل رہا ہوں
تِرے دل کے تاروں کو پھر میں نے چھیڑا
میں یادِ گزشتہ کی بھٹکی صدا ہوں
// تِرے دل کے تاروں کو چھیڑا ہے میں نے
بہتر ہوگا
جی یہ بھی تبدیل کر دیا۔
میں تب تھا میں اب ہوں، یہاں بھی وہاں بھی
خرد کے قفس سے تو میں ماورا ہوں
//شعر کا مفہوم بھی سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کچھ اصلاح نہیں کر رہا ہوں۔
یعنی انسان کی سوچ مادہ کے اور وقت کے پنجرے میں محدود ہے اور وہ سوچ خود ہی ایک پنجرہ بن گئی ہے۔ اور اللہ کی ذات کو سمجھنے سے قاصر ہے جو کہ وقت اور جگہ میں محدود نہیں ہے۔