ایک غزل: خراماں خراماں چلا جا رہا ہوں

الف عین

لائبریرین
تذکیر و تانیث کا تو اردو الفاظ میں بھی اختلاف ہے، انگریزی کا ہی کیا کہا جائے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دکن میں قرآن اور پلنگ بھی مؤنث ہیں!! بخار اور چکر بھی۔
 

سید ذیشان

محفلین
تذکیر و تانیث کا تو اردو الفاظ میں بھی اختلاف ہے، انگریزی کا ہی کیا کہا جائے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دکن میں قرآن اور پلنگ بھی مؤنث ہیں!! بخار اور چکر بھی۔
مجھے کچھ اندازہ تھا لیکن ان الفاظ کا معلوم نہیں تھا۔ کافی مزاحیہ لگ رہا ہے :LOL:
 

محمداحمد

لائبریرین
مجھے کچھ اندازہ تھا لیکن ان الفاظ کا معلوم نہیں تھا۔ کافی مزاحیہ لگ رہا ہے :LOL:

یہ سارا رائج ہونے کا چکر ہی ہے۔ جیسے ہمیں فیکس کا صیغہ تانیث میں آنا سن کر ہنسی آتی ہے کیونکہ یہاں یہ رائج نہیں ہے۔ :) ایسے ہی ہماری بات سن کر وارث بھائی کو ہنسی آتی ہے۔

چلئے، ہنسنے ہنسانے کا کوئی بہانہ تو ملا۔
 

مزمل حسین

محفلین
خراماں خراماں چلا جا رہا ہوں
کہ الفت کی راہوں سے نا آشنا ہوں
واہ ذیش بھائی بہت خوب، مطلع بہت خوبصورت ہے.
باقی اشعار بھی اچھے ہیں. اساتذہ کرام کی آرا کا انتظار کرتے ہیں
 

سید ذیشان

محفلین
خِراماں خِراماں چلا جا رہا ہوں​
کہ الفت کی راہوں سے ناآشنا ہوں​
مِری خاک بننے کو یہ مر مٹے ہیں
فلک کے کواکب کی میں ارتقا ہوں
یہ صحرا کا بستر، وہ چھت آسماں کی​
فلک کی نوازش کا پیکر بنا ہوں​
میں نکلا تھا سورج کی منزل کو پانے​
پہ اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں​
عصا، آبلے اور پوشاکِ خستہ​
یہ ساماں ہے باقی، پہ میں چل رہا ہوں​
تِرے دل کے تاروں کو پھر میں نے چھیڑا​
میں یادِ گزشتہ کی بھٹکی صدا ہوں​
میں تب تھا میں اب ہوں، یہاں بھی وہاں بھی
خرد کے قفس سے تو میں ماورا ہوں
سرخ رنگ سے تبدیلیوں کی نشاندہی کر دی ہے۔ کیا باقی غزل بحر میں ہے یا پھر مزید تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
خِراماں خِراماں چلا جا رہا ہوں
کہ الفت کی راہوں سے ناآشنا ہوں
//درست

مِری خاک بننے کو یہ مر مٹے ہیں
ستاروں، سیاروں کی میں ارتقا ہوں÷ فلک کے کواکب کی
//سیاروں کا تلفظ درست نہیں، ’فلک کے کواکب‘ میں کاف گڑبڑ کرتا ہے۔
فلک کے ستاروں کی۔۔۔ کر دو

یہ صحرا کا بستر، وہ چھت آسماں کی
فلک کی نوازش کا پیکر بنا ہوں
//آسماں کی چھت ہے، پھر آسماں کا کیا قہر ہے جسے طنزاً نوازش کہا گیا ہے، بہر حال شعر اچھا ہے۔

میں نکلا تھا سورج کی منزل کو پانے
پہ اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں
// میں سورج کی منزل کو پانے چلا تھا
پر اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں
بہتر ہو گا

عصا، آبلے اور پوشاکِ خستہ
یہ ساماں ہے باقی، پہ میں چل رہا ہوں
//یہ سرمایہ باقی ہے، پر چل رہا ہوں
یا
یہی میری پونجی ہے، جو چل رہا ہوں

تِرے دل کے تاروں کو پھر میں نے چھیڑا
میں یادِ گزشتہ کی بھٹکی صدا ہوں
// تِرے دل کے تاروں کو چھیڑا ہے میں نے
بہتر ہوگا

میں تب تھا میں اب ہوں، یہاں بھی وہاں بھی
خرد کے قفس سے تو میں ماورا ہوں
//شعر کا مفہوم بھی سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کچھ اصلاح نہیں کر رہا ہوں۔
 

سید ذیشان

محفلین
بہت شکریہ استاد محترم اصلاح دینے کا۔


مِری خاک بننے کو یہ مر مٹے ہیں
ستاروں، سیاروں کی میں ارتقا ہوں÷ فلک کے کواکب کی
//سیاروں کا تلفظ درست نہیں، ’فلک کے کواکب‘ میں کاف گڑبڑ کرتا ہے۔
فلک کے ستاروں کی۔۔۔ کر دو

جی ایسا ہی کر دیا۔



یہ صحرا کا بستر، وہ چھت آسماں کی
فلک کی نوازش کا پیکر بنا ہوں
//آسماں کی چھت ہے، پھر آسماں کا کیا قہر ہے جسے طنزاً نوازش کہا گیا ہے، بہر حال شعر اچھا ہے۔


مراد یہ ہے کہ ایسی حالت زار ہے کہ نہ بچھونہ ہے اور نہ ہی چھت جو سایہ کر سکے۔ اور چھت بھی وہی ہے جس کی نوازش سے اس حال پر پہنچا ہوں۔

میں نکلا تھا سورج کی منزل کو پانے
پہ اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں
// میں سورج کی منزل کو پانے چلا تھا
پر اس کی چمک میں مگن ہو گیا ہوں
بہتر ہو گا
جی کر دیا۔ شروع میں میں نے "پر اس" ہی باندھا تھا لیکن پھر وزن کا مسئلہ لگا مجھے اور تبدیل کر دیا۔ لیکن الف کے اتصال کا ضیال نہیں رہا۔ اب کافی بہتر لگ رہا ہے۔ :)


عصا، آبلے اور پوشاکِ خستہ
یہ ساماں ہے باقی، پہ میں چل رہا ہوں
//یہ سرمایہ باقی ہے، پر چل رہا ہوں
یا
یہی میری پونجی ہے، جو چل رہا ہوں

اگر اس طرح کر دیں تو کوئی مسئلہ تو نہیں؟:
یہ ساماں ہے باقی، مگر چل رہا ہوں


تِرے دل کے تاروں کو پھر میں نے چھیڑا
میں یادِ گزشتہ کی بھٹکی صدا ہوں
// تِرے دل کے تاروں کو چھیڑا ہے میں نے
بہتر ہوگا

جی یہ بھی تبدیل کر دیا۔

میں تب تھا میں اب ہوں، یہاں بھی وہاں بھی
خرد کے قفس سے تو میں ماورا ہوں
//شعر کا مفہوم بھی سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کچھ اصلاح نہیں کر رہا ہوں۔
یعنی انسان کی سوچ مادہ کے اور وقت کے پنجرے میں محدود ہے اور وہ سوچ خود ہی ایک پنجرہ بن گئی ہے۔ اور اللہ کی ذات کو سمجھنے سے قاصر ہے جو کہ وقت اور جگہ میں محدود نہیں ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ ساماں ہے باقی، مگر چل رہا ہوں
درست ہے
لیکن خرد کے قفس والے شعر میں ابلاغ و ترسیل کا مسئلہ ہے ہی۔
 
Top