ایک غزل دو شاعر

ایک غزل دو شاعر


محمد خلیل الرحمٰن
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اُٹھاکے ہاتھ
دیکھا اِنہیں تو چھوڑ دیئے اد بدا کے ہاتھ

محفل میں دیکھ کر مجھے تنہا، نہ رہ سکے
اب دور جاکے بیٹھے ہیں ، مجھ سے ملا کے ہاتھ

امجد علی راجا
مجھ کو خبر نہیں تھی کہ وہ "باکسر" بھی ہے
پچھتا رہا ہوں ہائے میں اس پر اٹھا کے ہاتھ

محمد خلیل الرحمٰن
کھانے کے اور ہیں وہ دِکھانے کے اور ہیں
کھا کر پتا چلا ہے اُسی بے وفا کے ہاتھ

امجد علی راجا
لے جاتی ہے وہ کہہ کے "یہ تحفہ ہے پیار کا"
لگتی ہے جو بھی چیز مری، دلربا کے ہاتھ​
 
آخری تدوین:
اگر اس شعر کو یوں کردیں تو مقطع بن سکتا ہے ، دونوں شاعروں کے تخلص کے ساتھ
امجدؔ کو یوں نہ اپنے برابر کھڑا کریں
بھائی خلیلؔ جوڑتا ہوں گِڑ گِڑا کے ہاتھ
 
ایک غزل دو شاعر


محمد خلیل الرحمٰن
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اُٹھاکے ہاتھ
دیکھا اِنہیں تو چھوڑ دیئے اد بدا کے ہاتھ

محفل میں دیکھ کر مجھے تنہا، نہ رہ سکے
اب دور جاکے بیٹھے ہیں ، مجھ سے ملا کے ہاتھ

امجد علی راجا
مجھ کو خبر نہیں تھی کہ وہ "باکسر" بھی ہے
پچھتا رہا ہوں ہائے میں اس پر اٹھا کے ہاتھ

محمد خلیل الرحمٰن
کھانے کے اور ہیں وہ دِکھانے کے اور ہیں
کھا کر پتا چلا ہے اُسی بے وفا کے ہاتھ

امجد علی راجا
لے جاتی ہے وہ کہہ کے "یہ تحفہ ہے پیار کا"
لگتی ہے جو بھی چیز مری، دلربا کے ہاتھ​
بہت ہی خوبصورت- شاعرانہ جگل بندی۔۔۔
 
Top