خورشید صاحب - جس دن آپ کا موڈ کچھ سیکھنے کا ہو اس دن کسی سے پوچھ لیجیے گا-
صاحب میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں میرے پاس آپ کو اس سے زیادہ بتانے کو کچھ نہیں -
میری ایک بات یاد رکھیئے گا، سیکھتا وہی ہے جو سیکھنا چاہتا ہے - آپ کا رویہ اس کے منافی ہے سو میں آپ سے معذرت چاہوں گا -
سر! انسان اپنا ذہن کھلا رکھے تو ساری عمر سیکھتا رہتا ہے۔ اور ہر موڑ پر سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ میرا ارادہ سیکھنے کا ہی ہوتا ہے۔بعض اوقات سوال پوچھنے کا انداز کلاسیکل نہیں ہوتا یا شاید (بولڈ) ہو جاتا ہے اس لیے آپ کو ایسا محسوس ہوا ہے۔ ایک جگہ آپ نے ہی فرمایا تھا کہ اب استادی شاگردی کا پرانا دور نہیں رہا۔ سوال سادہ سا تھا کہ
یادوں کی جو مے شام صُراحی سے اُنڈیلی
ہے اپنے لیے بس وہی اک ساغر و بادہ
اگر
شام کی صراحی سے ہوتا تو بات ہر بندے کی سمجھ میں آجاتی لیکن
شام صراحی والی بات تب سمجھ میں آئے گی جب یہ کوئی اصطلاح ہوگی۔ ورنہ اختراع کہلائے گی۔ اور اگر کہنے والا بہت بڑی شخصیت ہے کہ اس کی ہر بات عوام میں مقبول ہو جاتی ہےتو وہ ایک اصطلاح بن جائے گی آئندہ کے لیے (جیسے پاکستان کے ایک سیاستدان کے منہ سے غلطی سے ٹانگیں کانپ رہی ہیں کی جگہ کانپیں ٹانگ رہی ہیں نکل گیا تو میڈیا میں اور عوام میں بار بار دہرایا جانے لگا اور شاید اسے قبولیت مل گئی)۔ اگر عوامی مقبولیت کی بات ہے تو پھر ایسی باتوں کو غرابت نہ سمجھا جائے اور عوام پر چھوڑ دیا جائے۔لیکن اگر عیب ہے تو پھر چاہے عوام میں پذیرائی ہوبھی جائے تب بھی عیب ہی گنا جائے۔