ایک غزل ۔ بیادِ خواجہ میر درد ۔ کوئی بتلائے کیا یہ غم کم ہے

ایک غزل پیش ہے طوالت کے لیے معذرت کے ساتھ

غزل
۔۔۔


کوئی بتلائے کیا یہ غم کم ہے
وہ بھی کہتے ہیں تجھ کو کیا غم ہے

مجھ کو ہر شے سے وہ مقدّم ہے
آرزو دل میں جو مجسّم ہے

دل کا آئینہ ہو اگر صیقل
ہاتھ میں تیرے ساغر جم ہے

کچھ منازل ہیں زیست کی جن میں

نہ کوئی بدرقہ نہ ہمدم ہے

عہد طفلی گیا، شباب گیا
زندگی ہے کہ اب بھی مبہم ہے

روح کے زخم آج بول اٹھے
جھوٹ ہے یہ کہ وقت مرہم ہے

زندگی نے اتارے اتنے نقاب
اب خوشی ہے خوشی نہ غم غم ہے

آج جو جشن تاج پوشی ہے
کل یہی باز گشت ماتم ہے

مصلحت ہے جو مسکراتا ہوں
ورنہ مجھ پر یہ جبر پیہم ہے

آج فرصت ملی تو دیکھا یہ
کتنا بے رنگ آج موسم ہے

کوئی بلبل کا گریہ بھی دیکھے
یوں تو ہر پھول پہ ہی شبنم ہے

ایک تم ہی مری نہیں سنتے
مانتا ورنہ ایک عالم ہے

جانے دستک یہ دل پہ کس کی ہے
اک صدائے طلب دما دم ہے

یہ ثواب و عذاب کا قصہ

ٰسب طفیل گناہ آدم ہےٰ

پھر سے کہہ دوں ، کہیں نہ بھولو تم
وہ ارادہ مرا مصمم ہے

سن کے عاطف کا نام وہ بولے
اپنے فن میں تو وہ مسلّم ہے

۔۔۔
سید عاطف علی
مارچ 2023

بہت خوب ، عاطف بھائی ! اچھے اشعار ہیں . داد قبول فرمائیے . چونکہ ہمیشہ کی طرح آپ كے اشعار بے حد صاف ستھرے ہیں ، ایک دو معمولی کمیاں کھٹک رہی ہیں . سوچا ذکر کر دوں ، شاید آپ غور فرمائیں . دسویں شعر میں ’آج‘ کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی . اور گیارہویں شعر كے دوسرے مصرعے میں ’پہ‘ مناسب نہیں لگ رہا . بہتر ہوتا کہ آپ یا تو اسے ’ پر‘ کر دیتے یا ’ہی‘ کو ’پہ‘ سے پہلے لے آتے .
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب ، عاطف بھائی ! اچھے اشعار ہیں . داد قبول فرمائیے . چونکہ ہمیشہ کی طرح آپ كے اشعار بے حد صاف ستھرے ہیں ، ایک دو معمولی کمیاں کھٹک رہی ہیں . سوچا ذکر کر دوں ، شاید آپ غور فرمائیں . دسویں شعر میں ’آج‘ کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی . اور گیارہویں شعر كے دوسرے مصرعے میں ’پہ‘ مناسب نہیں لگ رہا . بہتر ہوتا کہ آپ یا تو اسے ’ پر‘ کر دیتے یا ’ہی‘ کو ’پہ‘ سے پہلے لے آتے .
بالکل درست فرمایا علوی صاحب آپ کی رائے میرے لیے ازحد قیمتی ہے اور ہوتی ہے ۔ آپ کا تبصرہ ہو مجھے ہمیشہ ہی بہت بھاتا ہے ۔ دل کھول کر اظہار خیال کیا کیجیے ۔
لفظی طور پر تو آج کی تکرار ہے لیکن میں نے معنوی طور پر ذرا ازالہ کیا تھا کہ آج فرصت ملنے پر دیکھا کہ آج کا موسم کیسا بے رنگ ہے یعنی مسلسل بیرنگ (اکتاہٹ) کا موسم فرصت کی وجہ سے نہ دیکھا جاسکا فرصت ملتے ہیں سامنے آگیا ۔ آپ کی کھٹک بالکل بجا ہے ۔ بہت طوالت کی وجہ سے میں نے زیادہ تامل نہ کیا ۔ آپ کی دوسری تجویز بسرو چشم قبول ۔
 

جاسمن

لائبریرین
خوبصورت اور اداس غزل۔ پھر سے نظر دوڑائی تو درد کا نام نظر آیا ۔
اچھا!!!! تو یہ بات ہے۔۔
تقریباً تمام اشعار رنج و الم میں بھیگے ہیں۔
عمدہ اشعار۔ خوبصورت انداز بیان۔
ڈھیروں داد قبول فرمائیں ۔
:):):)
 

جاسمن

لائبریرین
جاسمن صاحبہ، ’بے درد غزل‘ سے کیا مراد ہے؟
ایک تو جب تک ہنسی والا شتونگڑا نہ لگائیں، پتہ نہیں چلتا کہ بات سنجیدہ ہے یا مذاق۔ :)
بہرحال دونوں باتیں ہیں۔ مذاق بھی اور سنجیدگی بھی۔
کیا درد ہی کے انداز میں کوئی ایسی غزل کہی جا سکتی ہے کہ جس میں درد و الم کی بجائے حوصلہ، امید، خواب اور رنگ ہوں؟
 

جاسمن

لائبریرین
کوئی بتلائے کیا یہ غم کم ہے
وہ بھی کہتے ہیں تجھ کو کیا غم ہے
آج میں وہی پرانی بات سوچ رہی تھی کہ ہنستوں کا ساتھ تو سب دیتے ہیں، روتوں کا ساتھ کوئی نہیں دیتا۔ پہلے تو پھر بھی لوگ اک دوجے کے دکھ درد میں شریک ہو جاتے تھے۔ اب تو روتا دیکھ کے کنی کترا جاتے ہیں کہ کہیں تسلی نہ دینی پڑے جائے۔
اور بہت اپنے بھی یقین نہیں کرنا "چاہتے" کہ ان کے کسی اپنے کو غم ہے۔
حق ہا!!!
بہت خوبصورت شعر۔
کچھ منازل ہیں زیست کی جن میں
نہ کوئی بدرقہ نہ ہمدم ہے
واقعی۔۔۔ زیست کے کتنے ہی مقامات پہ ہم تنہا ہوتے ہیں۔ عمدہ ادائیگی۔
عہد طفلی گیا، شباب گیا
زندگی ہے کہ اب بھی مبہم ہے
یہ حقیقت بھی بہت خوبصورت انداز میں بتائی گئی ہے۔
روح کے زخم آج بول اٹھے
جھوٹ ہے یہ کہ وقت مرہم ہے
آہ! کچھ زخم واقعی ہرے رہتے ہیں۔ جب بھی یاد آئیں ، ویسا ہی درد ہوتا ہے۔ آپ نے تو گویا سب حقائق سفاکی کے بیان کر دیے ہیں۔
زندگی نے اتارے اتنے نقاب
اب خوشی ہے خوشی نہ غم غم ہے
ایسا بھی ہوتا ہے۔ بہت بڑی بات دو چھوٹے مصرعوں میں ۔۔۔ واہ بھئی واہ!
آج جو جشن تاج پوشی ہے
کل یہی باز گشت ماتم ہے
کیا بات ہے!! ایسا بھی ہوتا ہے۔
سن کے عاطف کا نام وہ بولے
اپنے فن میں تو وہ مسلّم ہے
لیں جی۔۔۔ ایں چہ شک است!!
بالکل۔ بالکل۔ ہم جانتے اور مانتے ہیں۔:):):)
 
آخری تدوین:
ایک تو جب تک ہنسی والا شتونگڑا نہ لگائیں، پتہ نہیں چلتا کہ بات سنجیدہ ہے یا مذاق۔ :)
بہرحال دونوں باتیں ہیں۔ مذاق بھی اور سنجیدگی بھی۔
کیا درد ہی کے انداز میں کوئی ایسی غزل کہی جا سکتی ہے کہ جس میں درد و الم کی بجائے حوصلہ، امید، خواب اور رنگ ہوں؟
جاسمن صاحبہ ، وضاحت کا شکریہ ! چونکہ ’بے درد‘ كے معنی ’بےرحم‘ یا ’سنگ دل‘ ہیں، میں تصدیق کرنا چاہ رہا تھا کہ آپ ایسی غزل کی بات تو نہیں کر رہی ہیں جسے پڑھ کر قاری بے حد تکلیف محسوس کرے اور درد سے کراہنے لگے . :) اگر آپ کی مراد ایسے اشعار ہیں جن میں الفاظ غمناک اور مایوس کن ہوں ، لیکن پیغام پر مسرت اور ہمت افزا ، تو میرے ناچیز مشاہدے كے مطابق ایسی مثالیں ترقّی پسند شعرا كے یہاں ملینگی . چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
دِل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے ( فیض )
کیا خاک وہ جینا ہے جو اپنے ہی لیے ہو
خود مٹ كے کسی اور کو مٹنے سے بچا لے ( ساحر لدھیانوی )
دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پِھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ ( مجروح سلتانپوری )
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک تو جب تک ہنسی والا شتونگڑا نہ لگائیں، پتہ نہیں چلتا کہ بات سنجیدہ ہے یا مذاق۔ :)
بہرحال دونوں باتیں ہیں۔ مذاق بھی اور سنجیدگی بھی۔
کیا درد ہی کے انداز میں کوئی ایسی غزل کہی جا سکتی ہے کہ جس میں درد و الم کی بجائے حوصلہ، امید، خواب اور رنگ ہوں؟
خواہرم ، سوال آپ کا ذرا مبہم سا ہے ۔ میر دردؔ کا بنیادی رنگ تصوف کا ہے ، زندگی کے بے ثباتی اور عالم کی ناپائیداری ان کے خاص موضوعات ہیں ۔چونکہ اردو شاعری میں ان کی پہچان متصوفانہ کلام سےہے اس لیے اگر دردؔ کے انداز کی بات کی جائے گی تو اس سے مراد ان کا یہی رنگ ہوگا۔
 
Top