ایک غزل

Wajih Bukhari

محفلین
19 دسمبر 2019

یوں کبھی لگتا ہے جیسے سانس کا چلنا عبث ہے

کچھ نہیں اب دیکھنے کو، آنکھ کا کُھلنا عبث ہے


زندگانی رائیگاں ہے، بے ثمر سب کاوشیں ہیں

دن نکلنا، شام ہونا، رات کا ڈھلنا عبث ہے


جب مقدر ہے گُلوں کا شاخ سے گر کے بکھرنا

فصلِ گل میں کونپلوں کا پھولنا پھلنا عبث ہے


یا اذیت ہجر سے ہے، یا ملن کے بعد حسرت

اک حماقت ہے محبت، عشق میں جلنا عبث ہے


راستے کی جستجو میں چلتے چلتے تھک گیا ہوں

اب اگر مِل بھی گیا تو راستہ مِلنا عبث ہے


پھر وہی لغزش ہے میری پھر وہی میری ندامت

دامنِ تر کا مرے سو بار بھی دُھلنا عبث ہے


لاکھ کوشش کی مگر اُس کو نہ اپنا کر سکا میں

ایک لا حاصل کے غم میں ہاتھ اب مَلنا عبث ہے


میں الجھ کر وسوسوں میں بھول جاتا ہوں ہمیشہ

چند لمحے زندگی ہے رنج میں گھلنا عبث ہے

-۔-- -۔-- -۔-- -۔--


(عَبَث – بے کار، فضول)
 

Wajih Bukhari

محفلین
ایک کے مطابق چلنا اور کھلنا کا 'نا' نکال دیں تو چل اور کھل قافیے نہیں رہتے لہذا ایطاِ جلی ہے۔ ایک نے کہا کہ 'ل' حرفِ روی ہے اور اس پر جزم (سکون) ہے لہذا یہ قافیے ہونگے۔ قافیے کے لئے بنیادی شرط ہم آواز اور ہم وزن ہونا ہے جو کہ یہاں آخری تین حرفوں 'ل، ن، ا' سے پوری ہو رہی ہے۔
 
جناب واجد صاحب، آداب!
اچھی غزل ہے (اگر ایطاء سے ذرا دیر کو صرفِ نظر کرلیں :) )
میری ناقص رائے میں راجح قول کے مطابق ایطاء موجود ہے۔ یادش بخیر، قبلہ سرورؔ صاحب نے بھی ایک بار یہی ارشاد فرمایا تھا کہ اگر قافیہ مصدر یا حاصلِ مصدر سے قائم کیا جارہا ہو، تو مشترک حروف حذف کرنے کے بعد جو الفاظ رہ جائیں ان کا ہم آواز ہونا ضروری ہے۔

جب مقدر ہے گُلوں کا شاخ سے گر کے بکھرنا

فصلِ گل میں کونپلوں کا پھولنا پھلنا عبث ہے
پہلے مصرعے میں آپ نے ’’شاخ سے گر کر بکھرنا‘‘ کیوں نہیں باندھا؟

یا اذیت ہجر سے ہے، یا ملن کے بعد حسرت

اک حماقت ہے محبت، عشق میں جلنا عبث ہے

پہلے مصرعے میں ’’یا‘‘ کا دوبار استعمال اچھا نہیں لگ رہا، میرے خیال میں مصرعے کی بنت مزید بہتر ہوسکتی ہے۔

باقی، قوافی کے مسئلے سے ہٹ کر، غزل پسند آئی۔ ماشاءاللہ۔

دعاگو،
راحلؔ
 

Wajih Bukhari

محفلین
شکریہ راحل صاحب۔ 'گر کر' مجھے بولنے میں رواں نہیں لگتا تھا۔ آپ کی رائے سن کر اب اپنی یہ رائے قائم کی ہے کہ اس قافیے کے ساتھ بغیر ایطا کے شاید تین چار اشعار ہی ہو سکتے تھے۔ :)
 
شکریہ راحل صاحب۔ 'گر کر' مجھے بولنے میں رواں نہیں لگتا تھا۔ آپ کی رائے سن کر اب اپنی یہ رائے قائم کی ہے کہ اس قافیے کے ساتھ بغیر ایطا کے شاید تین چار اشعار ہی ہو سکتے تھے۔ :)
مطلعے میں ایک قافیہ بدل دیں، اور دیگر اشعار میں بھی کچھ مقامات پر متنوع قوافی استعمال کرلیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اشعار اچھے ہیں سو ان کو یکسر ضائع کرنا زیادتی ہوگی :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! اچھے اشعار کہے ہیں وجیہہ بخاری صاحب !
ان اشعارمیں اچھے خیالات اور مضامین ہیں لیکن قوافی درست نہیں ۔ محفل میں مبادیاتِ قافیہ پر اچھا خاصا مواد استفادے کے لئے موجود ہے ۔

بزمِ سخن میں خوش آمدید بخاری صاحب ! امید ہے کہ آپ آئندہ بھی کلام سے نوازتے رہیں گے ۔
 

Wajih Bukhari

محفلین
واہ! اچھے اشعار کہے ہیں وجیہہ بخاری صاحب !
ان اشعارمیں اچھے خیالات اور مضامین ہیں لیکن قوافی درست نہیں ۔ محفل میں مبادیاتِ قافیہ پر اچھا خاصا مواد استفادے کے لئے موجود ہے ۔

بزمِ سخن میں خوش آمدید بخاری صاحب ! امید ہے کہ آپ آئندہ بھی کلام سے نوازتے رہیں گے ۔
بہت مہربانی جناب کی۔ آپ کی رائے درست ہے اور زیادہ لوگوں نے یہی بتایا ہے۔ کچھ شعرا جو اب کچھ مشہور بھی ہیں (فخر عباس، اظہار الحق)، ان کا کہنا ہے کہ قافیہ کے پرانے قوانین اب لاگو نہیں رہے۔ شاعری کا مطلب آہنگ ہے۔ اگر موسیقیت اور آہنگ ہے تو قافیہ بھی ہے اور شعر بھی۔
 
بہت مہربانی جناب کی۔ آپ کی رائے درست ہے اور زیادہ لوگوں نے یہی بتایا ہے۔ کچھ شعرا جو اب کچھ مشہور بھی ہیں (فخر عباس، اظہار الحق)، ان کا کہنا ہے کہ قافیہ کے پرانے قوانین اب لاگو نہیں رہے۔ شاعری کا مطلب آہنگ ہے۔ اگر موسیقیت اور آہنگ ہے تو قافیہ بھی ہے اور شعر بھی۔

یہ تو بہت خطرناک رجحان ہوا صاحب، جو اگر رواج پا گیا تو بالآخر خود عروض ہی کی منسوخی پر منتنج ہوگا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچھ شعرا جو اب کچھ مشہور بھی ہیں (فخر عباس، اظہار الحق)، ان کا کہنا ہے کہ قافیہ کے پرانے قوانین اب لاگو نہیں رہے۔ شاعری کا مطلب آہنگ ہے۔ اگر موسیقیت اور آہنگ ہے تو قافیہ بھی ہے اور شعر بھی۔
یہ بات تو سر سے گزر گئی ۔ بالکل بھی سمجھ میں نہیں آئی ۔ شاعری کا مطلب آہنگ اور موسیقیت ہے یہ تو کسی حد تک سمجھ میں آگیا لیکن اس بات کا قافیہ کے اصول توڑنے سے کیا تعلق ہے ؟! قافیے کے اصول تو شعر کی موسیقیت اور غنائیت میں اضافہ کے لئے ہی بنائے گئے ہیں۔
 

Wajih Bukhari

محفلین
یہ بات تو سر سے گزر گئی ۔ بالکل بھی سمجھ میں نہیں آئی ۔ شاعری کا مطلب آہنگ اور موسیقیت ہے یہ تو کسی حد تک سمجھ میں آگیا لیکن اس بات کا قافیہ کے اصول توڑنے سے کیا تعلق ہے ؟! قافیے کے اصول تو شعر کی موسیقیت اور غنائیت میں اضافہ کے لئے ہی بنائے گئے ہیں۔
بہت مہربانی جناب نے رائے دی۔ مثلا رستہ اور سپنا اب قافیے مانے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ قافیے تصور نہیں ہوتے تھے۔ جیسےمریض اور تمیز۔ کچھ لوگ شروع اور عدو کو بھی قافیہ کہہ دیتے ہیں۔ 'ع' کو حلق سے نکالنے والے اب اردو آبادیوں میں کم ہی بچے ہیں۔ اب اگر میں اپنی جانب آؤں تو میں یہ کہوں گا کہ جب میں نے چلنا اور کُھلنا کو قافیہ باندھا تو مجھے ان کی اصوات ملتی جلتی لگیں۔ کچھ اسی طرح چند پڑھنے والوں کو بھی لگا۔ جن کو لگا کہ یہ قافیے نہیں ہیں وہ مجھ نا چیز کی سطروں کو معریٰ اشعار سمجھ کر پڑھ لیں۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت مہربانی جناب نے رائے دی۔ مثلا رستہ اور سپنا اب قافیے مانے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ قافیے تصور نہیں ہوتے تھے۔ جیسےمریض اور تمیز۔ کچھ لوگ شروع اور عدو کو بھی قافیہ کہہ دیتے ہیں۔ 'ع' کو حلق سے نکالنے والے اب اردو آبادیوں میں کم ہی بچے ہیں۔ اب اگر میں اپنی جانب آؤں تو میں یہ کہوں گا کہ جب میں نے چلنا اور کُھلنا کو قافیہ باندھا تو مجھے ان کی اصوات ملتی جلتی لگیں۔ کچھ اسی طرح چند پڑھنے والوں کو بھی لگا۔ جن کو لگا کہ یہ قافیے نہیں ہیں وہ مجھ نا چیز کی سطروں کو معریٰ اشعار سمجھ کر پڑھ لیں۔ :)
بخاری صاحب آپ نے ایک ہی مراسلے میں کئی سوالات اور موضوعات چھیڑ دیئے ہیں ۔ آپ نے اس بات کو یوں سمجھئے:
قافیہ کی سادہ ترین اور مختصر ترین صورت یہ ہوتی ہے: ایک حرف اور ماقبل کی حرکت
ان دونوں کا بعینہ بغیرکسی تغیر و تبدیلی کے ہر شعر میں آنا ضروری ہے ۔ ورنہ قافیہ نہیں بنے گا ۔ بدن ، چمن ، جلن ، چلن یہ تمام الفاظ اس لئے ہم قافیہ ہیں کہ ان میں آخری حرف "ن" مشترک ہے اور اِس نون سے پہلے والے حرف پر زبر کی حرکت بھی مشترک ہے ۔ بدن ، گمان ، یقین ، جنون اس لئے ہم قافیہ نہیں ہیں کہ ان میں آخری حرف نون تو مشترک ہے لیکن نون سے پہلے والے حرف کی حرکت مشترک نہیں ۔ چنانچہ قافیہ قائم کرنے کے لئے آخری حرف اور ماقبل کی حرکت کا مشترک ہونا لازمی ہے ۔ رستا اور سپنا اسی لئے ہم قافیہ ہیں کہ ان میں یہ دونوں شرائط موجود ہیں ۔
آپکی مذکورہ غزل کے قوافی اس لئے درست نہیں ہیں کہ ان میں حرف روی لام تو مشترک ہے لیکن اس سے ماقبل حرف کی حرکت مشترک نہیں ۔ چنانچہ چَلنا ، جَلنا ، ڈھَلنا، گَلنا وغیرہ تو ہم قافیہ ہیں لیکن کُھلنا اور مِلنا درست قوافی نہیں ۔
- مریض اور تمیز صوتی قافیے کی مثال ہیں ۔ ان قوافی میں بھی یہ دونوں شرائط موجود ہیں فرق اتنا ہے کہ ض اور ز کو ہم صوت ہونے کی وجہ سے آپس میں بدل دیا گیا ہے ۔

امید ہے کہ کچھ وضاحت ہوئی ہوگی ۔ اگر اب بھی کچھ ابہام ہو تو بے جھجک پوچھ لیجئے گا۔
 
مکرمی جناب ظہیراحمدظہیر صاحب۔
آپ کا آخری مراسلہ دیکھ کر ایک مخمصے میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ بہت سال پہلے ایک فورم پر میں نے ایک غزل پیش کی جس کے مطلع کے قوافی تھے "بہتی" اور "ڈھلتی"۔ قبلہ و استاذی جناب سرور عالم راز صاحب نے متنبہ کیا کہ یہاں ایطائے جلی ہے اور قوافی غلط ہیں، چونکہ دونوں کے مصادر بہنا اور ڈھلنا کے افعال امر بہہ اور ڈھل ہم صوت نہیں ہیں۔ یہاں سے میں نے یہ اصول اخذ کیا کہ اگر قوافی مصدر سے بنائیں جائیں تو ان سے بننے والے افعال امر کا ہم صوت یا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ یوں بخاری صاحب کی غزل کے مطلعے کے قوافی سے افعال امر چَل اور کھل بنیں گے۔ اب اگر ان کو اوپر بیان کئے گئے کلیے اور آپ کے گزشتہ مراسلے کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہاں بظاہر ایطائے جلی موجود ہے۔
کہانی میں ٹوئسٹ یوں آیا کہ کچھ روز قبل میں نے استاد محترم کے مضامین سے دوبارہ رجوع کیا تو دیکھا کہ علم قافیہ کے بیان میں انہوں نے مندرجہ ذیل قاعدہ بتایا ہے۔

20200102-232145.jpg


گویا، اصول یہ ہوا کہ حرف روی سے ماقبل کا حرف متحرک ہو۔ تینوں میں سے کون سی حرکت ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر استاد محترم کی اس بات کو لیا جائے تو پھر چَل اور کُھل تو درست قافیے ہوئے اور ایطاء باقی نہ رہا!

برائے مہربانی اس الجھن کو رفع کرنے کے لئے مسئلے پر کچھ روشنی ڈالیں۔ جزاک اللہ

دعاگو،
راحل
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مکرمی جناب ظہیراحمدظہیر صاحب۔
آپ کا آخری مراسلہ دیکھ کر ایک مخمصے میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ بہت سال پہلے ایک فورم پر میں نے ایک غزل پیش کی جس کے مطلع کے قوافی تھے "بہتی" اور "ڈھلتی"۔ قبلہ و استاذی جناب سرور عالم راز صاحب نے متنبہ کیا کہ یہاں ایطائے جلی ہے اور قوافی غلط ہیں، چونکہ دونوں کے مصادر بہنا اور ڈھلنا کے افعال امر بہہ اور ڈھل ہم صوت نہیں ہیں۔ یہاں سے میں نے یہ اصول اخذ کیا کہ اگر قوافی مصدر سے بنائیں جائیں تو ان سے بننے والے افعال امر کا ہم صوت یا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ یوں بخاری صاحب کی غزل کے مطلعے کے قوافی سے افعال امر چَل اور کھل بنیں گے۔ اب اگر ان کو اوپر بیان کئے گئے کلیے اور آپ کے گزشتہ مراسلے کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہاں بظاہر ایطائے جلی موجود ہے۔
کہانی میں ٹوئسٹ یوں آیا کہ کچھ روز قبل میں نے استاد محترم کے مضامین سے دوبارہ رجوع کیا تو دیکھا کہ علم قافیہ کے بیان میں انہوں نے مندرجہ ذیل قاعدہ بتایا ہے۔

20200102-232145.jpg


گویا، اصول یہ ہوا کہ حرف روی سے ماقبل کا حرف متحرک ہو۔ تینوں میں سے کون سی حرکت ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر استاد محترم کی اس بات کو لیا جائے تو پھر چَل اور کُھل تو درست قافیے ہوئے اور ایطاء باقی نہ رہا!

برائے مہربانی اس الجھن کو رفع کرنے کے لئے مسئلے پر کچھ روشنی ڈالیں۔ جزاک اللہ

دعاگو،
راحل
فعل میں اصل لفظ اُس کا صیغہ٫ امر ہی ہوتا ہے ۔ اس کے آگے "نا" تو مصدر کی علامت کے طور پر اضافہ کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ فعل کو قافیہ بناتے وقت اُس کے صیغہ٫ امر ہی کو دیکھا جائے گا اور حرف روی کا تعین ُاسی اصل لفظ سے کیا جائے گا۔ صیغہ٫ امر کے آگے کے زائد الفاظ عملی طور پر ردیف کا حصہ تصور کئے جائیں گے۔ یہ اصول فعل کے تمام صیغوں اور صورتوں پر لاگو ہوگا ۔ یعنی آئو اور چلو ہم قافیہ نہیں ہیں کہ ان میں اصل الفاظ "آ" اور "چل" ہیں جبکہ "و" زائد ہے ۔
جہاں تک ماقبل حرکت کے تغیر پر سرورعالم راز سرور صاحب کےبیان کا تعلق ہے تو یہ درست نہیں ۔ نجانے انہوں نے یہ کہاں سے اور کیسے لکھ دیا ۔ اس کے باعث بہت سارے لوگ الجھن میں مبتلا رہے ہیں ۔ اور یہ سوال متعدد بار ماضی میں ان کی ویب گاہ پر بھی اٹھ چکا ہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ ماقبل کی حرکت بھی حرفِ روی کی طرح بلاتغیر جوں کی توں قافیے میں آئے گی ورنہ قافیہ درست نہیں ۔ قدما٫ میں دوچار مثالیں اس طرح کی ملتی ہیں لیکن انہیں اصول نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ استثنائی صورت کا درجہ دیا جائے گا ۔ عام طور پر ان مثالوں میں وائو اور یائے لین کو مجہول یا معروف صورت سے بدلا گیا ہے۔ جیسے قید کا قافیہ اُمید وغیرہ ۔
 

Wajih Bukhari

محفلین
بخاری صاحب آپ نے ایک ہی مراسلے میں کئی سوالات اور موضوعات چھیڑ دیئے ہیں ۔ آپ نے اس بات کو یوں سمجھئے:
قافیہ کی سادہ ترین اور مختصر ترین صورت یہ ہوتی ہے: ایک حرف اور ماقبل کی حرکت
ان دونوں کا بعینہ بغیرکسی تغیر و تبدیلی کے ہر شعر میں آنا ضروری ہے ۔ ورنہ قافیہ نہیں بنے گا ۔ بدن ، چمن ، جلن ، چلن یہ تمام الفاظ اس لئے ہم قافیہ ہیں کہ ان میں آخری حرف "ن" مشترک ہے اور اِس نون سے پہلے والے حرف پر زبر کی حرکت بھی مشترک ہے ۔ بدن ، گمان ، یقین ، جنون اس لئے ہم قافیہ نہیں ہیں کہ ان میں آخری حرف نون تو مشترک ہے لیکن نون سے پہلے والے حرف کی حرکت مشترک نہیں ۔ چنانچہ قافیہ قائم کرنے کے لئے آخری حرف اور ماقبل کی حرکت کا مشترک ہونا لازمی ہے ۔ رستا اور سپنا اسی لئے ہم قافیہ ہیں کہ ان میں یہ دونوں شرائط موجود ہیں ۔
آپکی مذکورہ غزل کے قوافی اس لئے درست نہیں ہیں کہ ان میں حرف روی لام تو مشترک ہے لیکن اس سے ماقبل حرف کی حرکت مشترک نہیں ۔ چنانچہ چَلنا ، جَلنا ، ڈھَلنا، گَلنا وغیرہ تو ہم قافیہ ہیں لیکن کُھلنا اور مِلنا درست قوافی نہیں ۔
- مریض اور تمیز صوتی قافیے کی مثال ہیں ۔ ان قوافی میں بھی یہ دونوں شرائط موجود ہیں فرق اتنا ہے کہ ض اور ز کو ہم صوت ہونے کی وجہ سے آپس میں بدل دیا گیا ہے ۔

امید ہے کہ کچھ وضاحت ہوئی ہوگی ۔ اگر اب بھی کچھ ابہام ہو تو بے جھجک پوچھ لیجئے گا۔
آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے اتنا قیمتی وقت میرے مراسلے پر صرف کیا۔
آپ کی رائے، جو کہ قافیے کے کلاسیکی اصول کے مطابق ہے، میں مصادر والے قوافی میں سے 'نا' ہٹا کر قافیہ قائم کرنے کی شرط ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ قافیہ 'نا' ہٹائے بغیر قائم کیا جا سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ چلنا اور کھلنا قافیے نہیں کیونکہ 'نا' ہٹا کر قافیہ دیکھا جائے گا۔ مگر کیوں؟ 'نا' لگا کر کیوں نہ قافیہ بنایا جائے۔ جب شعر پڑھا جاتا ہے تو قاری 'نا' سمیت شعر پڑھتا ہے یا کہ شعوری کوشش کر کے پہلے 'نا' حذف کرتا ہے اور پھر قافیے کو پرکھتا ہے۔
اس سے ملتی جلتی ایک مثال یہ ہے کہ ایک کلاسیکی قائدے کے مطابق سنسکرت یا ہندی کے الفاظ کے ساتھ اضافت کسرہ (زیر والی اضافت) نہیں لگائی جا سکتی۔ مگر لوگ لگاتے ہیں جیسے ساحلِ سمندر۔ ان اصولوں کی معیاد اب پوری ہو چکی ہے۔
بعض پرانے اصول بدل دینے میں کوئی حرج نہیں، خصوصا جب پابند شاعری صرف غزل تک ہی محدود رہ گئی ہے اور آزاد شاعری اتنی آزاد ہو چکی ہے کہ اب نثری شاعری بنتی جا رہی ہے!
 
Top