Wajih Bukhari
محفلین
19 دسمبر 2019
یوں کبھی لگتا ہے جیسے سانس کا چلنا عبث ہے
کچھ نہیں اب دیکھنے کو، آنکھ کا کُھلنا عبث ہے
زندگانی رائیگاں ہے، بے ثمر سب کاوشیں ہیں
دن نکلنا، شام ہونا، رات کا ڈھلنا عبث ہے
جب مقدر ہے گُلوں کا شاخ سے گر کے بکھرنا
فصلِ گل میں کونپلوں کا پھولنا پھلنا عبث ہے
یا اذیت ہجر سے ہے، یا ملن کے بعد حسرت
اک حماقت ہے محبت، عشق میں جلنا عبث ہے
راستے کی جستجو میں چلتے چلتے تھک گیا ہوں
اب اگر مِل بھی گیا تو راستہ مِلنا عبث ہے
پھر وہی لغزش ہے میری پھر وہی میری ندامت
دامنِ تر کا مرے سو بار بھی دُھلنا عبث ہے
لاکھ کوشش کی مگر اُس کو نہ اپنا کر سکا میں
ایک لا حاصل کے غم میں ہاتھ اب مَلنا عبث ہے
میں الجھ کر وسوسوں میں بھول جاتا ہوں ہمیشہ
چند لمحے زندگی ہے رنج میں گھلنا عبث ہے
-۔-- -۔-- -۔-- -۔--
(عَبَث – بے کار، فضول)
یوں کبھی لگتا ہے جیسے سانس کا چلنا عبث ہے
کچھ نہیں اب دیکھنے کو، آنکھ کا کُھلنا عبث ہے
زندگانی رائیگاں ہے، بے ثمر سب کاوشیں ہیں
دن نکلنا، شام ہونا، رات کا ڈھلنا عبث ہے
جب مقدر ہے گُلوں کا شاخ سے گر کے بکھرنا
فصلِ گل میں کونپلوں کا پھولنا پھلنا عبث ہے
یا اذیت ہجر سے ہے، یا ملن کے بعد حسرت
اک حماقت ہے محبت، عشق میں جلنا عبث ہے
راستے کی جستجو میں چلتے چلتے تھک گیا ہوں
اب اگر مِل بھی گیا تو راستہ مِلنا عبث ہے
پھر وہی لغزش ہے میری پھر وہی میری ندامت
دامنِ تر کا مرے سو بار بھی دُھلنا عبث ہے
لاکھ کوشش کی مگر اُس کو نہ اپنا کر سکا میں
ایک لا حاصل کے غم میں ہاتھ اب مَلنا عبث ہے
میں الجھ کر وسوسوں میں بھول جاتا ہوں ہمیشہ
چند لمحے زندگی ہے رنج میں گھلنا عبث ہے
-۔-- -۔-- -۔-- -۔--
(عَبَث – بے کار، فضول)