Wajih Bukhari
محفلین
مجھے اس بات سے اختلاف کرنے کی اجازت دیجئے۔ دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔ اس میں ہُوا اور دَوا کے بارے میں آپ کی کیا رائے۔ اسی طرح سے اقبال کی "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں" میں ہندوستاں میں 'س' ساکن آرہا ہے جب کہ گلستاں میں 'س' کے نیچے زیر ہے۔فعل میں اصل لفظ اُس کا صیغہ٫ امر ہی ہوتا ہے ۔ اس کے آگے "نا" تو مصدر کی علامت کے طور پر اضافہ کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ فعل کو قافیہ بناتے وقت اُس کے صیغہ٫ امر ہی کو دیکھا جائے گا اور حرف روی کا تعین ُاسی اصل لفظ سے کیا جائے گا۔ صیغہ٫ امر کے آگے کے زائد الفاظ عملی طور پر ردیف کا حصہ تصور کئے جائیں گے۔ یہ اصول فعل کے تمام صیغوں اور صورتوں پر لاگو ہوگا ۔ یعنی آئو اور چلو ہم قافیہ نہیں ہیں کہ ان میں اصل الفاظ "آ" اور "چل" ہیں جبکہ "و" زائد ہے ۔
جہاں تک ماقبل حرکت کے تغیر پر سرورعالم راز سرور صاحب کےبیان کا تعلق ہے تو یہ درست نہیں ۔ نجانے انہوں نے یہ کہاں سے اور کیسے لکھ دیا ۔ اس کے باعث بہت سارے لوگ الجھن میں مبتلا رہے ہیں ۔ اور یہ سوال متعدد بار ماضی میں ان کی ویب گاہ پر بھی اٹھ چکا ہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ ماقبل کی حرکت بھی حرفِ روی کی طرح بلاتغیر جوں کی توں قافیے میں آئے گی ورنہ قافیہ درست نہیں ۔ قدما٫ میں دوچار مثالیں اس طرح کی ملتی ہیں لیکن انہیں اصول نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ استثنائی صورت کا درجہ دیا جائے گا ۔ عام طور پر ان مثالوں میں وائو اور یائے لین کو مجہول یا معروف صورت سے بدلا گیا ہے۔ جیسے قید کا قافیہ اُمید وغیرہ ۔
میری رائے، جو کہ آپ کے مقابلے میں کم علمی پر مبنی ہے، قافیہ وہی ہے جسے قاری پڑھ کر یا سن کر ہم آواز اور ہم وزن سمجھے۔