غم مکن جانِ من! دان شد آنچہ شد
بارہا ایں سبق خوان شد آنچہ شد
غم نہ کرو میری جان، یہ جانو کہ جو ہونا تھا ہو چکا
کئی بار یہ سبق پڑھو کہ جو ہونا تھا ہو چکا
اس شعر میں "بارہا" بے موقع ہے۔ فارسی میں اس طرح استعمال روا نہیں۔ پھر سبق بھی مزہ نہیں دے رہا۔ اس معنی کو پہنچانے کے لیے لفظ درس استعمال ہوتا ہے۔
دردِ جاں در دلم ، دردِ دل جان بُرد
شد دلم آنچہ شد ، جان شد آنچہ شد
جاناں کا درد (غم) میرے دل میں ہے۔ اور جاناں دل کا درد ساتھ لے گئے
میرا دل وہی ہوا جو ہوا، جان وہی ہوئی جو ہوئی
پہلے مصرعے میں میرا خیال نہیں کہ آپ کا مطلب وہی ہے جو میں نے ترجمہ کیا ہے۔ لیکن مجھے اس مفہوم میں دیکھنے میں زیادہ مزہ آیا۔ دوسرا مصرع اور ربط دونوں نہیں سمجھ آئے۔
در گلستان گلہا ہمہ فانیند
چوں شکست از تو گلدان شد آنچہ شد
گلستان میں تمام گل ہی فانی ہیں
اگر تجھ سے گل دان ٹوٹ گیا تو غم نہ کر وہ ہوگیا جو ہو گیا
اچھا شعر ہے۔ لیکن اس بحر میں اپنا مکمل مزہ نہیں دے رہا۔
دردِ مجنون صحرا نہ فہمید ہنوز
غم برو در بیابان شد آنچہ شد
مجنوں کا درد (غم) ابھی تک صحرا نہ سمجھ سکا
غم، جاؤ، بیابان میں جو ہوا سو ہوا
شعر دو لخت لگ رہا ہے۔ یا شاید ربط اس لیے سمجھ نہیں آیا کہ مصرع ثانی سمجھ نہ سکا۔
نامِ درمان ہم ”درد افزون“ ہست
در رہِ عشق آسان شد آنچہ شد
علاج کا نام بھی درد میں اضافہ کر دیتا ہے
عشق کی راہ میں وہ سب آسان ہو گیا جو ہوا (تھا)
بیانیہ واضح نہیں۔ لیکن درست ہی ہے۔ ہست کو است سے بدل دیں۔
گنجِ قارون و ملکِ سلیماں نماند
ہر دو را امرِ ادیان شد آنچہ شد
گنج قارون اور سلیمان کی سلطنت نہیں بچی
دونوں کو دین کھا گیا
دوسرے مصرعے سے مجھ کج فکر کو یہی سمجھ آیا۔ شاید آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ خدا کے حکم سے جو ہوا سو ہوا۔ لیکن سمجھ پھر بھی کچھ نہیں آیا۔ نہ ماند واحد ہے، فارسی میں روا نہیں اردو کی طرح دو چیزیں بیاں کر کے صیغہ ایک کا استعمال کیا جائے۔
بر تو راضی شدن بر قضا لازمست
سرسری! دار ایمان شد آنچہ شد
شعر دو لخت ہی معلوم ہو رہا ہے۔ جبکہ پہلا مصرع واقعی زبردست ہے۔ لیکن تعقید شعری پائی جاتی ہے۔ یوں کر لیں "رضایت تو را بر قضا لازم است"