لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاون کی انکوائری کے لیے بنائے گئے ایک رکنی عدالتی کمیشن کی خبر مجھے 2010ء میں لے گئی جب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف کو قتل کرنے کا ایک منصوبہ سامنے آیا تھا اور سپریم کورٹ نے تین رکنی عدالتی کمیشن بنا کر انکوائری کرائی تھی اور پھر سب اس معاملے کو بھول گئے۔
اپنی تحقیقاتی مطبوعہ کتاب "ایک قتل جو نہ ہو سکا" کے لیے میں نے اس اسکینڈل سے جڑی آٹھ سو سے قریب خفیہ دستاویزات پڑھیں تو احساس ہوا کہ ایجنسیاں ، ایجنٹ ، نااہل پولیس افسران اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ڈی ایم جی اور پولیس افسران اپنے سیاسی ماسٹرز کو متاثر کرنے کے لیے کس حد تک گر سکتے ہیں۔
ساری کہانی اس وقت شروع ہوئی جب اسپیشل برانچ پنجاب کے باس ریٹائرڈ کرنل احسان نے سادہ کاغذ پر ایک رپورٹ وزیر اعلی شہباز شریف کو بھیجی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ جسٹس خواجہ شریف کو پیپلز پارٹی قتل کروانا چاہتی تھی۔ رپورٹ میں ممکنہ قاتلوں کے نام دئیے گئے اور وقت اور جگہ کا بھی بتایا گیا تھا کب قتل کیا جائے گا۔ اس رپورٹ میں یہ تاثر دیا گیا کہ جسٹس خواجہ شریف کو سابق صدر زرداری ، وزیر قانون بابر اعوان اور سلمان تاثیر کرائے کے قاتلوں سے قتل کروانا چاہتے تھے۔
شہباز شریف کے سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ نے رپورٹ پر کاروائی شروع کی۔ درجنوں بے گناہ لوگوں پر تھانوں میں تشدد کیا گیا کہ مان لیں وہ کرائے کے قاتل تھے۔ توقیر شاہ نے اخبارات میں زرداری ، سلمان تاثیر اور بابر اعوان کو قاتل بنا کر پیش کرایا۔
ایک طرف ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ظفر قریشی کو تحقیقات سونپی گئیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ نے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ قاضی عیسی کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا۔ تیسری انکوائری موجودہ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا جو اس وقت پنجاب میں جونیئر عہدے پر تھے ان کے ذمے لگائی تھی۔
کہانی کچھ یوں نکلی:-
اسپیشل برانچ کے سربراہ کرنل احسان ، جنرل مشرف کی بغاوت کے وقت آئی ایس آئی میں تھے اور نواز شریف اور شہباز شریف کو گرفتار کر کے ان کے حوالے کیا گیا کہ وہ پتہ کریں کہ جنرل مشرف کو کیوں برطرف کیا گیا تھا؟
کرنل احسان نے دونوں بھائیوں پر "سرمایہ کاری" کا فیصلہ کیا اور دورانِ قید انہیں رعایتیں دیں۔
برسوں بعد جدہ سے شہباز شریف اقتدار میں لوٹے تو کرنل صاحب ریٹائرڈ ہونے کے بعد نوکری ڈھونڈ رہے تھے۔ احسانات تلے دبے شہباز شریف نے انہیں اسپیشل برانچ کا سربراہ لگا دیا۔ کرنل(ر) احسان نے سوچا وہ شہباز شریف پر اپنی قابلیت ثابت کریں یوں انہوں نے وہ پلاٹ خود لکھا جسے بعد میں "سورس رپورٹ" کا نام دیا گیا کہ صدر زرداری ، بابر اعوان اور سلمان تاثیر ، جسٹس خواجہ شریف کو قتل کرانے والے تھے۔
انکوائری شروع ہوئی تو پتہ چلا اسپیشل برانچ میں کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ یہ سورس رپورٹ کس نے بنا کر بھیجی تھی۔ کرنل(ر) احسان بھی مکر گئے۔ اس پر سوچا گیا کہ اسپیشل برانچ کے اندر سے ہی قربانی کا بکرا ڈھونڈا جائے جو یہ مان لے کہ وہ رپورٹ اپنے سورسز سے لایا تھا۔
سب کی نظر شکیل حسن پر پڑی جو کینسر کا مریض ، تین لڑکیوں کا باپ اور ایک بوڑھی ماں کا وارث تھا۔ شکیل حسن کو پہلے سمجھایا گیا کہ اسے خود یاد نہیں وہ یہ رپورٹ لایا تھا۔ جب اس نے انکار کیا تو جعلی گواہ پیدا کیے گئے ، لالچ دیا گیا۔وہ کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔ مشکل سے دو وقت کا کھانا پکتا ہے۔ وہ کینسر کا مریض ہے۔ اپنے اور ماں کے علاج کے لیے پیسے نہیں۔ اگر وہ مان لے تو نہ صرف نیا گھر مل سکتا تھا بلکہ پولیس فنڈ سے لاکھوں روپے ، کینسر کا علاج اور پروموشن اور پلاٹ بھی۔
ایک دن اسے وزیر اعلی سیکرٹریٹ لے جایا گیا۔ اس کے باس نے اندر جا کر رانا ثنا اللہ سے ملاقات کی اور واپس آ کر شکیل حسن کو بتایا کہ رانا صاحب سے بات ہوگئی ہے ، وہ اگر مان لے کہ وہ سورس رپورٹ اس کی تھی تو اس کو مالا مال کر دیا جائے گا۔
ایک کینسر کے مریض سب انسپکٹر کی زندگی کا امتحان تھا۔ کینسر کا علاج ، غربت بھرا گھرانہ ، تین بچیوں کا مستقبل ، پروموشن ، افسران کا اعتماد ، لاکھوں روپے ، پلاٹ ، نیا گھر۔
ساری رات شکیل نے جاگ کر گزاری اور صبح جا کر انکار کر دیا کہ وہ ضمیر نہیں بیچے گا۔
مشتاق سکھیرا کی سربراہی میں بننے والی انکوائری کمیٹی نے جس میں دو ایس پی بھی شامل تھے ، شکیل حسن سے منوانے کے لیے سکھیرا کے کمرے میں ہی کینسر کے مریض پر تشدد کرایا جس سے اس کا خون بہنا شروع ہوگیا۔
جب امریکہ میں بیٹھ کر رات گئے یہ کالم لکھ رہا ہوں ، میں برسوں گزرنے کے بعد بھی ایک بیمار سب انسپکٹر شکیل حسن کے وہ الفاظ نہیں بھول سکتا جو اس نے اپنے افسران کو کہے تھے " آپ کو لگتا ہے ، چونکہ میں کینسر کا مریض ہوں اور جلد مر جاوں گا اس لیے آپ سب مجھے قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ یاد رکھیں میں واقعی کینسر کا مریض ہوں اور خدا بیمار جانور کی قربانی تک قبول نہیں کرتا"
جب عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ لکھی تو انہوں نے یہ نتیجہ نکالا۔ تین ججوں کا کہنا تھا:
لگتا ہے کرنل(ر) احسان نے شہباز شریف کو متاثر کرنے کے لیے خود ہی خواجہ شریف کو قتل کرنے کا پلان بنایا تھا تا کہ پہلے رپورٹ بھیج کر بعد میں اسے خود ہی قتل کر دیں اور بعد میں اپنے نمبر ٹانک سکیں کہ وزیر اعلی نے کتنے قابل افسر کو اسپیشل برانچ کا سربراہ لگایا تھا۔ تاہم عدالتی کمیشن کا کہنا تھا اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت تو نہیں لیکن حالات یہی بتاتے ہیں کہ اگر خواجہ شریف کو قتل کرنے کا کوئی پلان بنا تھا تو وہ اسپیشل برانچ نے خود ہی بنایا تھا۔
عدالتی کمیشن نے موجودہ آئی جی مشتاق سکھیرا سے بھی پوچھا ، انہوں نے کیسے انکوائری کی تھی اور تینوں ججز سکھیرا نے انکوائری کے انداز اور نالائقی پر حیران رہ گئے تھے کہ اسے اتنا پتہ نہیں تھا کہ تحقیقات کیسے کرنی تھی۔ الٹا مشتاق سکھیرا کے کمرے میں کینسر کے مریض پر تشدد کیا گیا تھا۔ آج وہی مشتاق سکھیرا اس پنجاب پولیس کے سربراہ ہیں جس پر 13 بندے مارنے کا الزام ہے۔
تین رکنی عدالتی کمیشن نے سفارش کی تھی کہ اس اسکینڈل کے تمام مرکزی ملزمان کے خلاف کاروائی کی جائے جن میں کرنل(ر) احسان سے لے کر اسپیشل برانچ کے اہلکاروں سمیت ڈاکٹر توقیر شاہ کا نام بھی شامل تھا۔ اس عدالتی کمیشن نے کہا تھا، توقیر شاہ کو کسی اہم عہدے پر آئندہ تعینات نہ کریں اور محکمانہ کاروائی کریں۔ سب سے اعلی عدالتی کمیشن کی یہ سفارش تھی کہ ان تمام کرداروں میں سے اگر کسی نے اعلٰی کردار کا مظاہرہ کیا تھا تو وہ کینسر کا مریض شکیل حسن تھا اور شہباز شریف سے کہا گیا تھا کہ وہ اس کا سرکاری علاج کرائیں ، اس کو ترقی دیں اور اسے انعام دیں جس نے تشدد ، دھمکیوں اور لالچ کے باوجود بکنے سے انکار کر دیا تھا۔
تین رکنی کمیشن کی رپورٹ کا کیا حشر ہوا؟
خواجہ شریف نے کبھی مڑ کر نہیں پوچھا کہ انہیں کون قتل کرنا چاہتا تھا اور اس جھوٹے اسکینڈل کے ذمہ داروں کو کیا سزا ملی؟ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس رپورٹ کو ٹیک اپ کرنے اور ذمہ داروں کو سزا دینے کے بجائے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکا کیونکہ ایکشن لینے سے ان کے اپنے قریبی لوگوں کی ساکھ خراب ہوتی اور آصف زرداری ، بابر اعوان اور سلمان تاثیر کی عزت بڑھتی۔
۔۔۔
خدا کے ہاں دیر ہے ، اندھیر نہیں۔
چار سالوں کے اندر اندر میں کینسر کے مریض شکیل حسن پر کیے گئے تشدد اور زیادتی کے تمام کرداروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے سزا ملتے دیکھ رہا ہوں ، چاہے رانا ثنا اللہ ہوں ، ڈاکٹر توقیر شاہ ہوں ، مشتاق سکھیرا ہوں یا پھر ان کرداروں کو سزا کے بجائے ترقیاں دینے والے شہباز شریف ہوں۔
تا ہم ایک سوال مجھے چین نہیں لینے دے رہا۔ 2010ء میں خواجہ شریف کیس میں تین رکنی عدالتی کمیشن کے سامنے کینسر کے مریض شکیل حسن نے تمام تر دھمکیوں ، جسمانی تشدد اور لالچ کے باوجود پنجاب حکومت کے جھوٹ کا پول کھول دیا تھا ، تو کیا امید رکھی جائے اب لاہور کے سانحے کی انکوائری کوئی باضمیر شخص شکیل حسن کا کردار ادا کرے گا یا پھر سب پولیس افسران کے ضمیر راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں؟