نور وجدان
لائبریرین
اُردو محفل کی شراکت کو دو برس بیت گئے مگر آج تک اُردو کی کِسی کتاب کو پڑھنا نصیب نہیں ہوا ۔ کل جانے کیوں دل میں شہاب نامہ پڑھنے کی ُسوجی ۔ شہاب نامہ کو بچپنے میں پڑھا تھا اس لیے سوچا کہ اِسکو دوبارہ پڑھا جائے ۔ گوگل نے ساتھ ممتاز مفتی کے آپشنز پیش کیے ۔دونوں کی کتابیں کھولیں ۔ممتاز مفتی کی 'تلاش' اور لبیک ۔۔جبکہ قدرت کی شہاب نامہ ۔۔۔۔۔۔۔''تلاش' سے بس ایک ہی بات اخذ کرسکی
'' اگر کائنات کی خوبصورتی ہمارے ذہن کے بند دریچوں پر وا ہونے لگ جائے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہوجائے اور اگر اللہ کا جلوہ ہوجائے تو خوبصورتی عدم ہوجائے ''
اس لیے سُوچا کہ مفتی کی ' لبیک ' پڑھوں ۔ میں نے اس کتاب کے بارے سُن رکھا تھا کہ مفتی نے ''خانہ کعبہ '' کو کوٹھا کہا ہے ۔ ابتدا میں مفتی کے دل میں حج کی خواہش بیدار کی جاتی ہے اور اس خواہش میں تڑپ ، اضطراب ، بے چینی ڈالی جاتی ہے ۔ اس اضطراب سے مایوسی کی جانب بڑھتے مفتی کو جیسے یہ صدا سنائی دیتی ہو
'' لا تقنطو '' اسی صدا کے ساتھ جانب مدینہ و مکہ روانہ ۔۔۔ اپنے دل کے سارے شکوے رکھے ، ذات کا کتھارسز کرتے ، لوگوں کی حالت پر تبصرہ کرتے مفتی حج کب کرتے ہیں۔ اپنے نفس کی غلاظتیں -------- سچ ہے کہ جسے اپنے اندر کا رنگ نظر آجائے وہ کسی اور کی جانب متوجہ نہیں ہوتا مگر مفتی دوسرے زائرین کے رنگوں پر توجہ رکھے ہوئے ہے ساتھ میں خود کی کثافتیں بھی بتانے پر بضد ہے ۔ اللہ سے ضد ہو جیسے ، اللہ سے مقابلہ ہو جیسے ، اللہ کو بُلایا ہو جیسے ہم کسی دوست ، یار کو بڑے کھُلے انداز میں پُکارتے ہیں ۔ 'خانہ کعبہ '' کو بت بنانا ، اس بت کے اوپر بیٹھنے والے کو کوٹھے والے کہنا۔۔۔ ذہن میں سوال کلبلائے کہ چلو مفتی نے کوٹھے والے کہا تو کس لیے کہا ہوگا ؟ کیا صنم خانے کا خریدار ہے اس لیے؟ شاید لوگوں نے دلوں میں صنم بنائے ہوئے ہیں اور اس کو صنم مانتے ، اپنے اپنے صنم کے دکھڑے روتے ہیں ۔۔ شاید وہ ان کو انکو غرض کے مطابق عطاکرتا ہوگا ، اس لیے مگر یہ ایک مفروضہ ٹھہرا ۔ جانے مفتی کے ذہن میں کیا تھا !
حج کے بارے میں ایک بڑی حقیقت مفتی سامنے لاتا ہے کہ حج کے ارکان ادا کرنے سے حج کا فریضہ پورا ہوجاتا ہے مگر حج دراصل سرشاری ہے ، جذبہ ہے ، کیفیت ہے ، سرور ہے ، مستی ہے ، بت ہے ۔ شاید مستی ، جمود ، سکتہ جیسی کیفیتات احساس کو مفلوج کردیتی ہوں گی اور بت کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہوگی ۔۔شاید ! پاکستان کے بارے میں ایڈووکیٹ کے حقائق کو سامنے لاتے صدر ایوب کے متعلق ''اللہ کے بندوں '' کی کانفرنس ہونا باعث حیرت ہے۔
سفر یونہی قدرت اللہ شہاب ، مفتی ، ایوب ، ایڈوکیٹ ، صدر ایوب اور لوگوں کے حال کے متعلق گھومتے حج کے بارے ، مدینے ، مکے کی سڑکوں کے بارے میں بتاتا ہے ۔ راقم بھی کچھ تجسس تھا کہ کوئی ایسی بات جو دل پر لگ جائے ، جس سے کتاب پڑھنے کا حاصل نصیب ہو ، محروم رہی ! خیر یہ کتاب ''علی پور کے ایلی '' سے بہتر لکھی گئی ۔ علی پور کے ایلی سر سے گزر گئی ۔ ممتاز مفتی پیاز کے چھلکے کی طرح اپنے ذہن کے پرت در پرت اتارتے نظر آئے اور جب سب سے نیچے کی پرت میں ''شوق'' رکھا تھا جو کہ بچے کے پاس ہوتا ہے ۔ بچہ شوق میں نئے چیز کھولتا ، سوال کرتا ہے ، مفتی میں مجھے وہی بچہ نظر آیا جس نے اپنے شوق کو دبا کے اتنا نیچے رکھ دیا تھا جب اس کو اس کی یاد آئی تو احساس کمتری در آئی ۔ احساس کمتری کا شوق کے ساتھ کوئی جوڑ بنتا نہیں ہے یا کہ لیں جدید دور میں شوق کو احساسِ کمتری سے ماورا نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے مفتی کی 'لبیک ' بھی قدرت کو مثالی ثابت کرتے ، مفتی کو نیچا دکھاتے سمجھ آئی ۔ ان دونوں ہستیوں کو یکجا کرتے دیکھا جائے تو دونوں ایک دوسرے کا آئنہ تھا مگر باخبر تھے مگر انجان بننے کی اداکاری میں مصروف تھے ۔
قاری کی حیثیت سے مجھے اُردو ادب سے ایک شکوہ کرنا ہے ۔اُردو ادب کے مقابلے فارسی ادب میں جو خیال کی بُلندی ہے ، زبان میں چاشنی گھُلی ہے ، بیان میں جو مٹھاس ہے ، شوق میں جو شرار ہے ، قلم میں جو رفتار ہے وہ اردو ادب میں کہیں کہیں دکھی ملتی ہے جیسے ذہین شاہ کا کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا عنایت شاہ کا، بیدم وارثی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمدہ انداز میں ، بڑی بات چھوٹے سے پیرائے میں کرنے کے عادی ۔۔۔ میں نے ارادہ کیا ہے اب اردو ادب کو پڑھنا شروع کروں اس لیے آپ سے تجاویز درکارہیں کہ کن چیزوں ، کتابوں ، اصحاب کو پڑھوں ، اور ساتھ پڑھنے کا اسباب بھی قلم بند کردیں تو مہربانی ہوگی ۔
'' اگر کائنات کی خوبصورتی ہمارے ذہن کے بند دریچوں پر وا ہونے لگ جائے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہوجائے اور اگر اللہ کا جلوہ ہوجائے تو خوبصورتی عدم ہوجائے ''
اس لیے سُوچا کہ مفتی کی ' لبیک ' پڑھوں ۔ میں نے اس کتاب کے بارے سُن رکھا تھا کہ مفتی نے ''خانہ کعبہ '' کو کوٹھا کہا ہے ۔ ابتدا میں مفتی کے دل میں حج کی خواہش بیدار کی جاتی ہے اور اس خواہش میں تڑپ ، اضطراب ، بے چینی ڈالی جاتی ہے ۔ اس اضطراب سے مایوسی کی جانب بڑھتے مفتی کو جیسے یہ صدا سنائی دیتی ہو
'' لا تقنطو '' اسی صدا کے ساتھ جانب مدینہ و مکہ روانہ ۔۔۔ اپنے دل کے سارے شکوے رکھے ، ذات کا کتھارسز کرتے ، لوگوں کی حالت پر تبصرہ کرتے مفتی حج کب کرتے ہیں۔ اپنے نفس کی غلاظتیں -------- سچ ہے کہ جسے اپنے اندر کا رنگ نظر آجائے وہ کسی اور کی جانب متوجہ نہیں ہوتا مگر مفتی دوسرے زائرین کے رنگوں پر توجہ رکھے ہوئے ہے ساتھ میں خود کی کثافتیں بھی بتانے پر بضد ہے ۔ اللہ سے ضد ہو جیسے ، اللہ سے مقابلہ ہو جیسے ، اللہ کو بُلایا ہو جیسے ہم کسی دوست ، یار کو بڑے کھُلے انداز میں پُکارتے ہیں ۔ 'خانہ کعبہ '' کو بت بنانا ، اس بت کے اوپر بیٹھنے والے کو کوٹھے والے کہنا۔۔۔ ذہن میں سوال کلبلائے کہ چلو مفتی نے کوٹھے والے کہا تو کس لیے کہا ہوگا ؟ کیا صنم خانے کا خریدار ہے اس لیے؟ شاید لوگوں نے دلوں میں صنم بنائے ہوئے ہیں اور اس کو صنم مانتے ، اپنے اپنے صنم کے دکھڑے روتے ہیں ۔۔ شاید وہ ان کو انکو غرض کے مطابق عطاکرتا ہوگا ، اس لیے مگر یہ ایک مفروضہ ٹھہرا ۔ جانے مفتی کے ذہن میں کیا تھا !
حج کے بارے میں ایک بڑی حقیقت مفتی سامنے لاتا ہے کہ حج کے ارکان ادا کرنے سے حج کا فریضہ پورا ہوجاتا ہے مگر حج دراصل سرشاری ہے ، جذبہ ہے ، کیفیت ہے ، سرور ہے ، مستی ہے ، بت ہے ۔ شاید مستی ، جمود ، سکتہ جیسی کیفیتات احساس کو مفلوج کردیتی ہوں گی اور بت کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہوگی ۔۔شاید ! پاکستان کے بارے میں ایڈووکیٹ کے حقائق کو سامنے لاتے صدر ایوب کے متعلق ''اللہ کے بندوں '' کی کانفرنس ہونا باعث حیرت ہے۔
سفر یونہی قدرت اللہ شہاب ، مفتی ، ایوب ، ایڈوکیٹ ، صدر ایوب اور لوگوں کے حال کے متعلق گھومتے حج کے بارے ، مدینے ، مکے کی سڑکوں کے بارے میں بتاتا ہے ۔ راقم بھی کچھ تجسس تھا کہ کوئی ایسی بات جو دل پر لگ جائے ، جس سے کتاب پڑھنے کا حاصل نصیب ہو ، محروم رہی ! خیر یہ کتاب ''علی پور کے ایلی '' سے بہتر لکھی گئی ۔ علی پور کے ایلی سر سے گزر گئی ۔ ممتاز مفتی پیاز کے چھلکے کی طرح اپنے ذہن کے پرت در پرت اتارتے نظر آئے اور جب سب سے نیچے کی پرت میں ''شوق'' رکھا تھا جو کہ بچے کے پاس ہوتا ہے ۔ بچہ شوق میں نئے چیز کھولتا ، سوال کرتا ہے ، مفتی میں مجھے وہی بچہ نظر آیا جس نے اپنے شوق کو دبا کے اتنا نیچے رکھ دیا تھا جب اس کو اس کی یاد آئی تو احساس کمتری در آئی ۔ احساس کمتری کا شوق کے ساتھ کوئی جوڑ بنتا نہیں ہے یا کہ لیں جدید دور میں شوق کو احساسِ کمتری سے ماورا نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے مفتی کی 'لبیک ' بھی قدرت کو مثالی ثابت کرتے ، مفتی کو نیچا دکھاتے سمجھ آئی ۔ ان دونوں ہستیوں کو یکجا کرتے دیکھا جائے تو دونوں ایک دوسرے کا آئنہ تھا مگر باخبر تھے مگر انجان بننے کی اداکاری میں مصروف تھے ۔
قاری کی حیثیت سے مجھے اُردو ادب سے ایک شکوہ کرنا ہے ۔اُردو ادب کے مقابلے فارسی ادب میں جو خیال کی بُلندی ہے ، زبان میں چاشنی گھُلی ہے ، بیان میں جو مٹھاس ہے ، شوق میں جو شرار ہے ، قلم میں جو رفتار ہے وہ اردو ادب میں کہیں کہیں دکھی ملتی ہے جیسے ذہین شاہ کا کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا عنایت شاہ کا، بیدم وارثی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمدہ انداز میں ، بڑی بات چھوٹے سے پیرائے میں کرنے کے عادی ۔۔۔ میں نے ارادہ کیا ہے اب اردو ادب کو پڑھنا شروع کروں اس لیے آپ سے تجاویز درکارہیں کہ کن چیزوں ، کتابوں ، اصحاب کو پڑھوں ، اور ساتھ پڑھنے کا اسباب بھی قلم بند کردیں تو مہربانی ہوگی ۔