ایک لمحے کا اشتعال

یوسف-2

محفلین
اس تاریخی حقیقت سے روگردانی ممکن نہیں کہ ہم میں اعتدال کی کمی ہے۔۔۔ ہم شدت پسند ہیں، کوئے یار سے نکلتے ہیں تو راہ میں کہیں نہیں ٹھہرتے سیدھے سوئے دار جاتے ہیں۔۔۔ میں نے اپنے ناول ’’راکھ‘‘ میں ’’لمحے کا اشتعال‘‘ کی ترکیب اسی ذہنیت کو واضح کرنے کے لیے بیان کی ہے۔۔۔ کبھی شہید گنج کے مسئلے پر ہم مسلمان سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، جانیں نثار کر دیتے ہیں اور جب پاکستان وجود میں آتا ہے تو وہی شہید گنج ایک گرودوارہ ہی رہتا ہے۔۔۔ اسے مکمل طور پر مسجد میں نہیں بدلا جاتا کہ لمحے کا اشتعال ٹھنڈا ہو چکا ہے۔۔۔ کبھی ہم ایوب خان کو پاکستان کا بادشاہ بنانا چاہتے ہیں اور پھر کسٹم کاعملہ لنڈی کوتل سے لوٹتے چند طالب علموں کی خریداری کو ضبط کر لیتا ہے تو ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے شرو ع ہو جاتے ہیں۔۔۔ کبھی ہم بھٹو کو فخرایشیا قرار دیتے ہیں اور کبھی ہم نظام مصطفیؐ کے نعرے لگاتے ہوئے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہم نے نظام مصطفیؐ کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔۔۔ اس بھٹو کو جسے فخر ایشیا قرار دیتے تھے اور جو بلاشبہ قائداعظمؒ کے بعد سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے والا کرشماتی لیڈر تھا۔۔۔ جب پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے تو مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ ویسے مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کے کیسے نصیب تھے کہ وہ اسی بھٹو کی پیپلزپارٹی کی حکومت میں نہ صرف اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے بلکہ بھٹو صاحب کے دفاع کے لیے بھی وہی منتخب ہوئے۔۔۔ بہر طور کہنا میں یہ چاہتا تھا کہ ہم ’’لمحے کے اشتعال‘‘ کا شکار ایک قوم ہیں اور یہ کیفیت اور ذہنیت صرف سیاسی تحریکوں پر ہی نہیں بلکہ ادب پر بھی منطبق ہوتی ہے۔۔۔ یعنی یکدم ہر کسی کو سعادت حسن منٹو کا بخار ہو جاتا ہے۔۔۔ منٹو صاحب کا فیشن ہو جاتا ہے۔۔۔ مجھے ہر دو تین ہفتوں کے بعد کہیں نہ کہیں سے دعوت آ جاتی ہے کہ آپ نے تو منٹو صاحب کو بچپن میں دیکھا تھا، وہ لکشمی مینشن میں آپ کے ہمسائے تھے اور آپ نے اپنے ناول ’’راکھ‘‘ میں ان کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے تو ۔۔۔ ان کی یاد میں ایک سیمینار ہے، ایک خصوصی ادبی نشست ہے، ایک جشن ہے تو پلیز تشریف لایئے، ان کے افسانوں کی ڈرامائی تشکیل بھی پیش کی جا رہی ہے صرف اس لیے کہ منٹو صاحب ’’لمحے کے اشتعال‘‘ کی زد میں آ گئے ہیں اور ہم دیگر مہان نثرنگاروں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر، کرشن چندر، بلونت سنگھ، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، رفیق حسین، فکر تونسوی، عزیز احمد، اشفاق احمد، پطرس بخاری اور راجندر سنگھ بیدی وغیرہ سب کے سب بھلا دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ قرۃ العین حیدر نے ’’آگ کا دریا‘‘ پاکستان میں لکھا اور اگر پاکستانی ہونا شرط ہے تو مندرجہ بالا تمام بڑے تخلیق کاروں کی جنم بھومی یہی سرزمین تھی۔ اسی طور فیض صاحب کے ڈنکے بجنے لگتے ہیں، فیض صاحب فیشن ہو جاتے ہیں اور بقیہ سب شاعر۔۔۔ گمنامی اور غفلت کے دھندلکوں میں دھکیل دیئے جاتے ہیں اور ان میں سے کس کس کا تذکرہ کیا جائے۔۔۔ تلوک چند محروم، خوشی محمد ناظر، اختر شیرانی، ساحر لدھیانوی، عبدالحمید عدم، میرا جی، سیف الدین سیف، ظہیر کاشمیری، احمد ندیم قاسمی، جوش، فراق، جگر، مجید امجد یا ن۔م۔ راشد۔۔۔ کس کس کا تذکرہ کیا جائے۔۔۔ اور ان فراموش شدہ بڑے شاعروں میں ایک ابن انشاء بھی ہوا کرتے تھے۔۔۔ اگر امانت علی خان ’انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو‘ نہ گاتے تو وہ کب کے گمنامی کے اندھیروں کی جانب کُوچ کر گئے ہوتے۔ ابن انشاء کی بہت سی یادیں اور ملاقاتیں ہیں جن کے تفصیلی تذکرے کی یہاں گنجائش نہیں۔۔۔ انہوں نے میری پہلی تصنیف ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ اور پھر پنجابی ناول ’’پکھیرو‘‘ لکھنے پر میری پُشت پر ’’شاباش‘‘ کی تھپکی دی۔ نہ صرف مجھے تفصیلی خط لکھے بلکہ اپنے کالموں میں بھی میرا ذکر کیا۔۔۔ اور میں نے اپنی ادیبانہ زندگی کا پہلا آٹو گراف ابن انشاء کی سفارش پر دیا۔۔۔ لاہور جمخانہ کلب میں۔۔۔ جہاں ان دنوں قائداعظم لائبریری ہے وہاں کتابوں کی ایک نمائش تھی۔۔۔ نیشنل بُک کونسل کی مقامی شاخ کے سربراہ ذوالفقار احمد تابشؔ نے اپنے سربراہ ابن انشاء سے میرا تعارف کروایا۔۔۔ اس دوران اُن کی تحریروں کے کچھ شیدائی آئے اور انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔۔۔ اُن سے آٹوگراف کی فرمائش کی تو ابن انشاء نے میری جانب اشارہ کر کے کہا ’’مجھے چھوڑو اس نوجوان سے آٹوگراف لو کہ اس نے ’’نکلے تری تلاش‘‘ ایسا سفرنامہ لکھا ہے‘‘۔ اُن کے مداحین میں سے کچھ نے بادلِ نخواستہ مجھ سے آٹوگراف لیے۔۔۔ ازاں بعد جب بھی آتے میں اُن کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔
میرے کچھ ہم عصر ادیبوں کو جب میں کسی بھی انٹرویو میں عرض کرتا ہوں کہ اخبار کے کالم ہنگامی اور وقتی ہوتے ہیں اور یہ بہرطور ادب کا حصہ نہیں بن سکتے، میرا یہ بیان بے حد ناگوار گزرتا ہے۔۔۔ اس ردعمل پر میری صرف اتنی گزارش ہوتی ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی احمد ندیم قاسمی، چراغ حسن حسرت، ابراہیم جلیس یا ابن انشاء کے کالموں کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا۔۔۔ اور آج اُن کے اخباری کالم گردآلود اور روپوش ہو چکے ہیں۔۔۔ قاسمی صاحب اپنے افسانے اور شاعری کے کمال سے زندہ ہیں۔۔۔ حسرت بھی اپنی شاعری۔۔۔ باغوں میں پڑے جھولے۔۔۔ تم بھول گئے ہم کو ہم تم کو نہیں بھولے۔۔۔ کی وجہ سے نہیں بھلائے جا سکتے اور ابن انشاء بھی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ اپنے سفرناموں اور بے مثل شاعری کے زور پر دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ’’خمارگندم‘‘ اپنی جگہ لیکن لازوال مزاح کے باوجود یہ کالم وقتی اور ہنگامی ہیں۔۔۔ اور ہاں میں یہ بھی عرض کر دوں کہ مجھے بھی مختلف اخباروں میں کالم لکھتے تقریباً چالیس برس ہو چکے ہیں اور ان کالموں کے متعدد مجموعے شائع ہو کر میری آمدنی میں اضافہ کا باعث بن چکے ہیں لیکن کم از کم میں انہیں ادب کا ایک حصہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا۔۔۔ اس کے باوجود کہ جس ہفت روزہ میں ابن انشاء کے کالم برسوں سے شائع ہو رہے تھے، اُس کی انتظامیہ نے اُن کے انتقال کے بعد مجھے اُن کی جگہ کالم تحریر کرنے کی درخواست کی۔
ابن انشاء کی ادبی جہات کا شمار نہیں ہو سکتا۔۔۔ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ وہ الف لیلےٰ کے مترجم رچرڈ برٹن پر ایک اتھارٹی تھے۔ آپ شاید جانتے ہوں کہ برٹن کی موت پر اس کی اہلیہ نے اس کی تحقیق اور ترجمے کے تمام مسودے جلا دیئے کہ وہ ساری عمر ’’کفار‘‘ یا مسلمانوں کی تہذیب اور ادب کا شیدائی رہا۔۔۔ اس کی وصیت کے مطابق اس کی قبر ایک عرب خیمے کی صورت کی تعمیر کی گئی۔۔۔ اس نے نہ صرف سندھ کی تاریخ پر تحقیق کی بلکہ یہاں کے خواجہ سراؤں کے بارے میں بھی نہایت دلچسپ انکشاف کئے۔
یہ سب انکشاف ابن انشاء نے کئے۔۔۔ وہ برٹن کے بے حد مداح تھے۔۔۔ ایک ٹھیٹھ پنجابی۔۔۔ لہجے میں بھی پنجابی کی لٹک اور جب شعر لکھتا تھا تو میر ترقی میرؔ کی زبان کی شیرینی میں گُھلا ہوتا تھا۔ (جاری ہے)​
(روزنامہ نئی دنیا 19 دسمبر 2012ء ۔ مستنصر حسین تارڑ کا کالم)
 

سید زبیر

محفلین
یوسف-2 ، مستنصر حسین تارڑ کا انداز بیاں بہت ہی خوبصورت ہے ان ہی ایک کالم شئیر کررہا ہوں جو انہوں نے سانحہ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے بعد لکھا تھا
وہ تینوں عجیب رنگ میں دلہنیں بنیں …. مہندی تو صرف ہاتھوں پر لگائی جاتی ہے…. اور دلہن کی سہیلیاں ہنستی کھلکھلاتی چہکتی یہ مہندی اس کے ہاتھوں پر لگاتی ہیں …. لیکن یہ عجیب گاڑھے سے سرخ رنگ کی مہندی تھی جو ان تینوں دلہنوں کے گھائل شدہ بدنوں میں سے فواروں کی مانند چھوٹتی ان کے پورے سراپے کو رنگین کر گئی تھی…. ان کے پیراہن ان گل رنگ مہندی سے نچڑ رہے تھے…. اور عجیب مہندی تھی کہ بدن میں سے ابلتی ہوئی باہر آتی تھیٗ اتنی گرم اور نوخیز کہ ہاتھ لگانا مشکل ہو اور پھر ہولے ہولے ٹھنڈی ہونے لگتی تھی
اس کی روانی تھم جاتی تھی اور وہ جو اُن تینوں دلہنوں کی سکھیاں تھیںٗ اس کی ہم عمر چنچل اور شوخ سہیلیاں تھیںٗ وہ نہ ہنستی تھیں اور نہ چہکتی تھیں بلکہ دھاڑیں مار مار کر روتی تھیںٗ ان کے چہرے زرد تھے اور وہ تو یوں بین کر رہی تھیں جیسے ان کے ماں باپ مر گئے ہوںٗ کوئی سگا بھائی اس جہان سے اٹھ گیا ہوٗ کیسی بیوقوف سہیلیاں تھیں کہ دلہنوں کے قریب کھڑے ہو کر یوں آہ و زاری کر رہی تھیں ….. نہیں جانتی تھیں کہ وہ بابل کا گھر چھوڑ کر پی کے نگر جا رہی ہیں…. ان کو تسلی دینی چاہیئے …. ان کو گلے لگا کر ڈھارس بندھانی چاہیئے کہ ایک نہ ایک دن ایسا آتا ہے جب ایک لڑکی کو بابل کا صحن چھوڑ کر اپنے پیا کے گھر جانا پڑتا ہے…. کیسی بے وقوف سکھیاں ہیں جو اپنی تین سہیلیوں کویوں ماتم کرتی غش کھاتی رخصت کر رہی تھیں۔
وہ تینوں عجیب دلہنیں تھیں….انہوں نے اپنے ماں باپ پر بوجھ بننا پسند نہ کیا…. بھلا اتنی مہنگائی میں وہ ان کے برائڈل جوڑے کیسے افورڈ کر سکتے تھے…. انہوں نے خود ہی وہ جن لباسوں میں تھیں انہیں خون سے رنگ کر سرخ جوڑوں میں بدل لیاٗ بھلا وہ دلہن کیسی جو اپنی ہمیشہ کی رخصتی پر سرخ جوڑا نہ پہنےٗ البتہ ایک اور بات سمجھ میں نہ آتی تھی کہ انہوں نے ایک ہی روز ایک ہی وقت جب کہ وہ اپنی اسلامی یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں شریعت کے سبق حاصل کر کے کچھ دیر سستانے اور اپنی ہم جولیوں سے دل کی باتیں کرنے کی خاطر بیٹھی تھیں…. ان تینوں نے یکدم ایک ہی روزٗ ایک ہی وقت میں دلہنیں بن کر ہمیشہ کیلئے رخصت ہو جانے کا فیصلہ کیوں کرلیا…. باری باری چند دنوں کے وقفے سے جاتیں تو سکھیوں کو اتنا صدمہ تو نہ ہوتا… انہیں کم از کم اپنی اسلامی تعلیم تو مکمل کرلینی چاہیئے تھی تا کہ وہ اپنے وطن میں اسلام کا وہ ابدی پیغام پہنچا سکتیں جس میں سلامتی اور امن کے سدابہار سندیسے ہیں…. آخر اتنی جلدی بھی کیا تھی۔
وہ تینوں عجیب دلہنیں تھیںٗ سرخ جوڑوں میں ملبوسٗ نہ صرف ہاتھوں پر بلکہ چہرے پر بھی مہندی کی سرخی …. انہیں مہندی بھی کسی ہنرمند ہاتھ نے نہیں لگائی تھی …. نہ کوئی پھول بوٹا نہ کوئی نقش و نگار … بس ان کے نوخیز چہروں اور پورے بدن کو سرخی سے پوت دیا گیا تھا۔ عجیب دلہنیں تھیں کہ ان کی چہرے اتنے زرد تھے کہ گمان ہوتا تھا کہ وہ مر گئی ہیں اور ان کے آنکھیں کھلی تھیںٗ وہ کونسے منظر دیکھ رہی تھیں کہ آنکھیں بند نہ کرتی تھیںٗ ایک اور بات بھی ایسی تھی جو فہم میں نہ آتی تھی کہ وہاں تین ڈولیوں کی بجائے تین چارپائیاں رکھی تھیں
دلہنوں کو تو ہمیشہ ڈولیوں میں بٹھا کر رخصت کیا جاتا ہےٗ چارپائیوں پر ڈال کر تو نہیں بھیجا جاتا … کیا یہ ایک نیا رواج تھا یا یہ شہر ایسا تھا جہاں ڈولیاں میسر نہ تھیں۔ یہ دلہنیں بقیہ دلہنوں سے یوں جدا تھیں کہ رخصت ہوتے ہوئے کسی کے گلے نہ ملیںٗ سر پر پیار نہ لیا….. ماں باپ بہن بھائی باہیں پھیلائے کھڑے رہےٗ ان سے منہ موڑ کر چلی گئیں…. نہ ہی انہوں نے بابل کے صحن سے رخصت ہوتے ہوئے آنسو بہائے اور نہ ہی شدت غم سے بے ہوش ہوئیں…. کیسی صابر اور شاکر دلہنیں تھیںٗ اپنے خون آلود نصیب کو قبول کیا اور چپ چاپ رخصت ہو گئیں کھلی کھلی آنکھوں کے ساتھ….. نہ ہی میراثنوں نے وداع کے گیت گائے۔
اگر ڈولیاں نہ تھیں تو کمہار بھی نہ تھے جو کندھا دیتےٗ چارپائیوں پر پڑی ہوئی تینوں دلہنیں خاموشی سے خاموشی کے شہر میں چلی گئیں… ان کی چارپائیوں میں سے سرخ بوندیں ابھی تک گرتی تھیں ، خاک میں گرتی تھیں اور رزق خاک ہوتی تھیں۔وہ تینوں عجیب دلہنیں تھیںٗ نہ انہوں نے گہنے زیور پہنے اور نہ ہی جہیز کا کوئی سامان اپنے ساتھ لے کر گئیں البتہ ان کے ہاتھوں میں کورس کی چند کتابیں تھیںٗ قلم تھےٗ وہ اپنے ساتھ لے گئیں …. اور ہاں! ان میں سے ایک کے ہاتھ میں جب وہ چھلنی ہو کر گری تو ایک موبائل فون تھا….. اب سکھیاں بار بار اس کا نمبر ملاتی ہیں لیکن دوسری جانب سے وہ اٹینڈ ہی نہیں کرتیٗ کیسی بے وفا ہو گئی ہے۔
اب آپ سے کیا پردہ یہ تینوں میری بیٹیاں تھیں…. ایسی بیٹیاں جو نہ کبھی میرے آنگن میں کھیلیں اور نہ کبھی میں نے ان کی شکل دیکھی اور اس کے باوجود وہ میری سگی بیٹیاں تھیںٗ ان سے مجھے شکایت ہے کہ میں باہیں پھیلائے کھڑا رہا اور وہ مجھ سے ملے بغیرٗ میرا پیار لئے بغیر چلی گئیں۔
اگر میں زمانہ جاہلیت کا کوئی عرب شاعر ہوتا تو میں ان کی جدائی میں ایک نوحہ لکھتا…. شائد اس میں کچھ ایسے جذبات ہوتے…. ” خیمے جل چکے ہیںٗ چشمے خشک ہو چکے ہیں کہ زہریلے سانپ ان کے پانی پی گئے ہیں … کھجور کے درخت سے سیاہ کھجوریں آنسوؤں کی مانند ٹپ ٹپ کرتی ہیں…. ریت کے ذرے بھی کسی نے جلا دیئے ہیں… میں ایک ٹیلے پر کھڑا ان دنوں کو یاد کرتا ہوں جب تم تینوں ہرنیوں کی مانند بادنسیم کے جھونکوں کے ساتھ چلی آتی تھیں …تمہارے نوخیز اور کنوارے بدن جب غروب آفتاب کی کرنوں کی زد میں آتے تو وہ سنہرے ہو جاتے… تم اس صحرا میں قلانچیں بھرتی اپنی خوبصورتی سے ہر دل کو مسخر کرتی تھیں
صحرا میں چپکے سے بہار آتی تو نمودار ہونے والے رنگ رنگ کے پھول تم تینوں پرنثار ہو جاتے… پھر ایک ایسی باد سموم چلی کہ تم نے اس میں ایک ایک سانس لیا اور تم تینوں مر گئیں…. تمہارے کٹے پھٹے بدن صحرا کی ریت پر بے جان پڑے تھے…. یہ زہر پھونکنے والے… تمہیں ہلاک کرنے والے غیر نہ تھے… اپنے تھے … اپنے قبیلے کے تھے تو شکایت کس سے کریں۔میں ایک ٹیلے پر کھڑا ان مردہ ہرنیوں کوٗ اپنی تین بیٹیوں کو یاد کرتا ہوں اورمیرے آنسو رخساروں سے بہہ کر جب ریت پر گرتے ہیں تو…. وہ خون کے رنگ کے ہو جاتے ہیں۔
 
Top