ایک لڑکا اور لڑکی
محمد خلیل الرحمٰن
(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
سرِ شام ایک لڑکا نغمہ پیرا
کہیں بائیک پہ بیٹھا گا رہا تھا
جھلک برقعے کی دیکھی جب کہیں پر
کیا پیچھا اسے لڑکی سمجھ کر
کہا لڑکی نے ، او مرغِ نوا ریز!
نہ کر لڑکی پہ اپنی یوں نظر تیز
تجھے جِس نے چہک ، گل کو مہک دی
اسی نے حسن کی مجھ کو چمک دی
مگر برقعے میں یوں مستور ہوں میں
کہ لڑکوں کے لیے اِک حور ہوں میں
لہک تیری بہشتِ گوش اگر ہے
مِرا جھانپڑ بھی فردوسِ نظر ہے
مرِے ہاتھوں کو قدرت نے ضیا دی
انھی ہاتھوں سے ہے تجھ کو سزا دی
تُجھے اِک منحنی لڑکا بنایا
تجھے پھر میرے ہاتھوں سے پِٹایا
نہ کر پیچھا مِرا بس جان لے تُو
مجھے برقعے میں بھی پہچان لے تُو
’’ہم آہنگی سے ہے محِفل جہاں کی‘‘
قسم تجھ کو بہن کی اور ماں کی
پِٹا جب یوں تو لڑکا اُس سے بولا
بڑی مشکِل سے اُس نے راز کھولا
نہ تو میری ممیری نہ خلیری
تو ہی ماں ہے، تو ہی بہنا ہے میری