ایک مختصر مگر خوبصورت انگریزی نظم مع ترجمہ

ن

نامعلوم اول

مہمان
میرا اس باب "یعنی انگریزی ادب "میں قطعی مطالعہ نہیں ، سو آپکی زاتی رائے بادی النظر میں تو درست ہی معلوم ہوتی ہے اور قرین قیاس بھی یہی ہے کہ مشرقی ناہموار معاشروں کے مقابلہ میں مغرب کہ ترقی یافتہ معاشروں کو انسان فہمی کے یقینا زیادہ مواقع میسر آتے ہونگے سو یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے ادب میں انکے خیالات کی پختگی اور انسان فہمی کی پختگی کی۔ جبکہ اگر عمومی سطح پر انگریز معاشروں کا معاشرتی طرز عمل دیکھا جائے تو میرے خیال میں تو یہ لوگ بڑے بے ادب واقع ہوئے ہیں للوز خیر مذاق برطرف ٹیکنیکلی اعتبار سے جو بات آپ کہہ رہے ہیں وہی درست معلوم ہوتی ہے یا پھر کوئی صاحب علم اس پر کسی اچھی سی ٹارچ سے ہی روشنی ڈال سکتا ہے والسلام

ایک چھوٹی سی بحث اس باب میں نے یہاں بھی کی ہے۔ اس سے میرے نقطہءِ نظر کو سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔ میرے خیال میں ادیبوں کی اپنی فنی پختگی کا عوام کے معاشرتی طرزِ عمل سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ معاشرہ ایک مہمیز یا عمل انگیز کا کام ضرور سر انجام دیتا ہے اور اس لحاظ سے ادب پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بہترین ادب کا بڑا حصہ بدترین معاشرتی حالات ہی میں لکھا گیا ہے۔ مگر کافی ساری باتوں کا انحصار تو ادیب کی اپنی محنت، ریاض اور صلاحیت پر ہوتا ہے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کاشف عمران
بھائی جان !
سچ پوچھئے تو اصل سے زیادہ اچھا مجھے ترجمہ ہی لگا ۔میں نے یہ نظم غالبا جامعہ کے فرسٹ ایرجنرل انگلش میں پڑھی تھی یا پھر ٹرانسلیشن والے کورس میں ٹیچر نے پڑھایا تھا ۔اس وقت واقعی میں اس نظم کے درد کو نہیں سمجھ سکا تھا ۔واقعی آپ نے غضب کا ترجمہ کیا ہے کیا بتاوں آپ کے اس قدر خوبصورت ترجمہ کے لئے میں اپنے احساسات قلم بند نہیں کر سکتا ۔
بس دعاگو ہوں خداوند کریم آپ کے قلم میں اور جان دے الہم زد فزد۔

ارے واہ۔ پہلے مجھے غالب کے برابر کہا۔ اب شیلی سے بھی آگے پہنچا دیا۔ شا گرد ہو تو ایسا!

پسند کرنے کا شکریہ!
 
Top