حسان خان
لائبریرین
موت نے وہ جامِ مدہوشی تجھے بھر کر دیا
خونِ جاری کو رگوں میں جس نے پتھر کر دیا
کھا گئی کس کی نظر عہدِ جوانی میں تجھے
لے گئی موت اُس سمندر کی روانی میں تجھے
جس کی تہ سے ڈوب کر کوئی بشر ابھرا نہیں
کوئی کتنا ہی شناور ہو مگر ابھرا نہیں
حُسنِ رنگیں کار کا اعجاز مردہ ہو چکا
پھول ڈالی پر کھلا، کھل کر فسردہ ہو چکا
کر دیا تقدیر نے باطل فسانہ شوق کا
درہم و برہم ہوا سب کارخانہ شوق کا
بھرتے بھرتے عمر کا پیمانہ آخر بھر گیا
رہ گیا افسوس باقی، مرنے والا مر گیا
ہاؤ ہو کا شور ہے میخانۂ ایام میں
ہے شرابِ زندگی تھوڑی بہت ہر جام میں
پی رہے ہیں رند لیکن محتسب کا ڈر بھی ہے
پاک دامانی کا بھی دعویٰ ہے دامن تر بھی ہے
ناچتی پھرتی ہیں شکلیں اس تماشا گاہ میں
ہو رہا ہے جشنِ شادی زندگی کی راہ میں
ہنس رہی ہے موت لیکن یہ تماشا دیکھ کر
زندگی اور زندگی کا شور و غوغا دیکھ کر
جانتا ہوں میں زمانے کا یہی دستور ہے
آدمی مجبور ہے تو موت بھی مجبور ہے
برق ہے موجود ہر اک آشیانے کے لیے
اٹھتی ہیں دریا میں لہریں بیٹھ جانے کے لیے
کر رہی ہے ہر سحر پیشین گوئی رات کی
موت کے اجزا سے ہے ترکیب موجودات کی
خشک ہو جاتا ہے دریاؤں میں پانی خود بخود
بند ہو جاتی ہے چشموں کی روانی خود بخود
باغِ ہستی میں عنادل کا ترنم کچھ نہیں
جیبِ غنچہ میں یہاں بیش از تبسم کچھ نہیں
رنگ انساں کیا بدلتا ہے زمانے کی طرح
ایک دن پس جائے گا چکی کے دانے کی طرح
موت کی طغیانیوں میں زندگی رہتی نہیں
آسماں پر جب ہوں بادل چاندنی رہتی نہیں
چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے
ہے اگر قائم ہمیشہ تو اُسی کی ذات ہے
موت کا آنا اٹل ہے عمر کی بنیاد سست
مانتا ہوں میں کہ یہ بھی ٹھیک ہے وہ بھی درست
لیکن اِس سے دل کی کچھ تسکین تو ہوتی نہیں
خاک میں بھی مل گیا موتی تو کیا موتی نہیں
چل دیا تو دل میں تیری یاد باقی رہ گئی
اِس شکستہ ساز میں فریاد باقی رہ گئی
خونِ جاری کو رگوں میں جس نے پتھر کر دیا
کھا گئی کس کی نظر عہدِ جوانی میں تجھے
لے گئی موت اُس سمندر کی روانی میں تجھے
جس کی تہ سے ڈوب کر کوئی بشر ابھرا نہیں
کوئی کتنا ہی شناور ہو مگر ابھرا نہیں
حُسنِ رنگیں کار کا اعجاز مردہ ہو چکا
پھول ڈالی پر کھلا، کھل کر فسردہ ہو چکا
کر دیا تقدیر نے باطل فسانہ شوق کا
درہم و برہم ہوا سب کارخانہ شوق کا
بھرتے بھرتے عمر کا پیمانہ آخر بھر گیا
رہ گیا افسوس باقی، مرنے والا مر گیا
ہاؤ ہو کا شور ہے میخانۂ ایام میں
ہے شرابِ زندگی تھوڑی بہت ہر جام میں
پی رہے ہیں رند لیکن محتسب کا ڈر بھی ہے
پاک دامانی کا بھی دعویٰ ہے دامن تر بھی ہے
ناچتی پھرتی ہیں شکلیں اس تماشا گاہ میں
ہو رہا ہے جشنِ شادی زندگی کی راہ میں
ہنس رہی ہے موت لیکن یہ تماشا دیکھ کر
زندگی اور زندگی کا شور و غوغا دیکھ کر
جانتا ہوں میں زمانے کا یہی دستور ہے
آدمی مجبور ہے تو موت بھی مجبور ہے
برق ہے موجود ہر اک آشیانے کے لیے
اٹھتی ہیں دریا میں لہریں بیٹھ جانے کے لیے
کر رہی ہے ہر سحر پیشین گوئی رات کی
موت کے اجزا سے ہے ترکیب موجودات کی
خشک ہو جاتا ہے دریاؤں میں پانی خود بخود
بند ہو جاتی ہے چشموں کی روانی خود بخود
باغِ ہستی میں عنادل کا ترنم کچھ نہیں
جیبِ غنچہ میں یہاں بیش از تبسم کچھ نہیں
رنگ انساں کیا بدلتا ہے زمانے کی طرح
ایک دن پس جائے گا چکی کے دانے کی طرح
موت کی طغیانیوں میں زندگی رہتی نہیں
آسماں پر جب ہوں بادل چاندنی رہتی نہیں
چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے
ہے اگر قائم ہمیشہ تو اُسی کی ذات ہے
موت کا آنا اٹل ہے عمر کی بنیاد سست
مانتا ہوں میں کہ یہ بھی ٹھیک ہے وہ بھی درست
لیکن اِس سے دل کی کچھ تسکین تو ہوتی نہیں
خاک میں بھی مل گیا موتی تو کیا موتی نہیں
چل دیا تو دل میں تیری یاد باقی رہ گئی
اِس شکستہ ساز میں فریاد باقی رہ گئی
(فاخر ہریانوی)