شفیق الرحمان ایک مفید رسم جس رشوت کہتے ہیں۔

فرخ

محفلین
جہلم کے قریب ایک قلعہ دار نے ہم پر دھاوا بول دیا۔ لیکن فوراً ہی پھرتی سے قلعے میں محصور ہو گیا۔ ارادہ ہوا کہ اس کو اسی طرح محصور چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں، لیکن اُلّو شناس ، ملتمس ہوا کہ نیا ملک ہے، یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئیے۔ ہم نے فرمایا، کہ اس طرح قدم رکھے تو دلی پہنچنے میں دیر لگے گی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ عقب سے آکر تنگ نہ کریں۔ اس روز ہمیں نزلہ سا تھا اور قصد لڑائی بھڑائی کا ہرگز نہ تھا۔ اُلّو شناس کے اصرار پر دودن تک قیام کیا لیکن کچھ نہ ہوا۔ تنگ آکر ہم نے پوچھا کہ کوئی ایسی تجویز نہیں ہوسکتی کہ یہ معاملہ یونہی رفع دفع ہو جائے۔ اُلّو شناس گیا اور جب شام کو لوٹا تو اسکے ساتھ ایک ہندی سپاہی تھا۔ اُلّو شناس کے کہنے پر ہم نے سپاہی کو پانچ سو طلائی مہریں دیں۔ ابھی گھنٹہ نہ گزرا ہوگا کہ قلعے کے دروازے کھل گئے۔ ہم بڑے حیران ہوئے۔
ہند میں یہ ایک نہایت مفید رسم ہے۔ جب کٹھن وقت آن پڑے، یا مُشکل آسان نہ ہو تو متعلقہ لوگوں کو ایک رقم یا نعم البدل پیش کیا جاتا ہے۔ تحفے کی مقدار اور پیش کرنے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہے۔ اسے یہاں "رشوت" کہتے ہیں۔ کس قدر زود اثر اور کار آمد نسخہ ہے۔ اگر لاکھوں کے اٹکے ہوئے کام، ہزار پانچ سو سے سنور جائیں، تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ رشوت دینے دلانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس عمل سے کرنسی حرکت میں رہتی ہے۔ ہم واپس ایران پہنچ کر اس رسم کو ضرور رائج کریں گے۔
ہمیں بتایا گیا کہ کچھ مہریں سپاہی نے اپنے استعمال کے لئے خود رکھ لی تھیں ۔ باقی کوتوال کو دیں، جس نے اپنا حصہ لے کر بقیہ قلعہ دار کے حوالے کی۔ قلعہ دار نے سنتریوں کو خوش کر کے دروازے کھلوا دیئے۔۔
واقعی عجوبہ روزگار ہے۔
 
جہلم کے قریب ایک قلعہ دار نے ہم پر دھاوا بول دیا۔ لیکن فوراً ہی پھرتی سے قلعے میں محصور ہو گیا۔ ارادہ ہوا کہ اس کو اسی طرح محصور چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں، لیکن اُلّو شناس ، ملتمس ہوا کہ نیا ملک ہے، یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئیے۔ ہم نے فرمایا، کہ اس طرح قدم رکھے تو دلی پہنچنے میں دیر لگے گی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ عقب سے آکر تنگ نہ کریں۔ اس روز ہمیں نزلہ سا تھا اور قصد لڑائی بھڑائی کا ہرگز نہ تھا۔ اُلّو شناس کے اصرار پر دودن تک قیام کیا لیکن کچھ نہ ہوا۔ تنگ آکر ہم نے پوچھا کہ کوئی ایسی تجویز نہیں ہوسکتی کہ یہ معاملہ یونہی رفع دفع ہو جائے۔ اُلّو شناس گیا اور جب شام کو لوٹا تو اسکے ساتھ ایک ہندی سپاہی تھا۔ اُلّو شناس کے کہنے پر ہم نے سپاہی کو پانچ سو طلائی مہریں دیں۔ ابھی گھنٹہ نہ گزرا ہوگا کہ قلعے کے دروازے کھل گئے۔ ہم بڑے حیران ہوئے۔
ہند میں یہ ایک نہایت مفید رسم ہے۔ جب کٹھن وقت آن پڑے، یا مُشکل آسان نہ ہو تو متعلقہ لوگوں کو ایک رقم یا نعم البدل پیش کیا جاتا ہے۔ تحفے کی مقدار اور پیش کرنے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہے۔ اسے یہاں "رشوت" کہتے ہیں۔ کس قدر زود اثر اور کار آمد نسخہ ہے۔ اگر لاکھوں کے اٹکے ہوئے کام، ہزار پانچ سو سے سنور جائیں، تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ رشوت دینے دلانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس عمل سے کرنسی حرکت میں رہتی ہے۔ ہم واپس ایران پہنچ کر اس رسم کو ضرور رائج کریں گے۔
ہمیں بتایا گیا کہ کچھ مہریں سپاہی نے اپنے استعمال کے لئے خود رکھ لی تھیں ۔ باقی کوتوال کو دیں، جس نے اپنا حصہ لے کر بقیہ قلعہ دار کے حوالے کی۔ قلعہ دار نے سنتریوں کو خوش کر کے دروازے کھلوا دیئے۔۔
واقعی عجوبہ روزگار ہے۔
بہت اچھے
 

فرخ

محفلین
اس زمانے میں اسے آجکل "خدمت" کرنا بھی کہنے لگ گئے ہیں، اور کچھ پہلے زمانے میں نذرانے کے نام سے مشہور ہوئی تھی۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
کہیں اس کو خرچا پانی کہتے ہیں، کہیں پان سگریٹ اور کہیں اس کو بچوں کے لیے مٹھائی بھی کہتے ہیں۔
 
Top