سید اسد محمود
محفلین
ایک ملک دو مذاہب اور تین بولتی تصویریں: نمازیوں سے بھری مسجد سے چندگز دوری پر دو خالی گرجا گھر
اس سے قطع نظر کے ملکہ برطانیہ قانوناً عیسائیت کی محافظ ہیں، برطانیہ کے بشپ ہاوئس آف لارڈ میں بیٹھتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر2011ء کی مردم شماری کے جسکے مطابق برطانیہ کی تینتیس عشاریہ دو ملین آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے، اگر آپ یہ حقیقت جاننا چاہیں گے کہ برطانیہ کتنا عیسائیت کا گڑھ ہے تو آپ صرف مندرجہ ذیل تصاویر کو دیکھیں۔ جو حقیقت یہ تصاویر پیش کرتی ہیں شائد کوئی سروے یا جائزہ سامنے نا لاسکے!
سینٹ میری چرچ کیبل اسٹریٹ (جسمیں بیشتر Pews خالی ہیں کل حاضرین 20 افراد)
سینٹ جارج چرچ میں اتوار کی صبح کی عبادت (جسمیں کل 12 افراد موجود ہیں)
سینٹ میری کے چرچ کے قریب ہی نمازِ جمعہ کا اجتماع جہاں نمازیوں کی صفیں مشرقی لندن کی اسپیٹفیلڈز مسجد سے کہیں باہر تک موجود ہیں:
سینٹ جارج کا گرجا 18ویں صدی کے اوائل میں بنا تھا ، جسمیں 1230 افراد کی گنجائش رکھی گئی تھی۔
اسی طرح سینٹ میری گرجا اکتوبر 1849ء میں عبادت کے لئے کھولا گیا تھا اور اسمیں 1000 افراد کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ دونوں گرجوں میں اتوار کی ہفتہ وارانہ عبادتی سروس دوران زیادہ سے زیادہ 20 افراد کا اجتماع نوٹ کیا گیا ہے۔
ان دونوں گرجوں کے مقابلے میں مسجد کی بنیاد کمیونیٹی سینٹر کے ایک چھوٹے سے کرائے کے کمرے میں رکھی گئی تھی جسمیں صرف 100 نمازیوں کی گنجائش موجود تھی۔ جبکہ ہر جمعہ کی نماز میں نمازیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ سینٹ میری گرجے کے سامنے تک صفیں بچھ جاتی ہیں۔
یہ تصاویر شائد یہ کہتی ہیں کہ عیسائیت اب برطانیہ کا ماضی کا مذہب بن چکا ہے جبکہ اسلام برطانیہ کے مستقبل کا مذہب ہے۔
پچھلے 10 سالوں میں برطانیہ میں خود کو عیسائی کہلانے والی آبادی 71.7فیصد سے گھٹ کر 59.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے!
اس عرصے میں مسلمانوں کی آبادی 3 فیصد سے 4.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی آدھی تعداد 25 سال کی عمر کے اندر ہے، جبکہ ایک تہائی عیسائی اپنی عمر کی 80 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق آنے والے 20 سالوں میں برطانیہ میں زیادہ متحرک یا جوان لوگ زیادہ تر مسلمان ہوں گے اور آئندہ پچاس سال کے اندازے اور اعدادو شمار شائد عیسائیوں کے لئے بلکل ناقابل قبول و برداشت ہوں۔
برطانیہ میں بہت سے لوگ بوجھل دل کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ برطانیہ میں عیسائیت زوال پزیر ہے، اور یہ خالی گرجا گھر صرف اس دور کی یادگار بن کر رہ گئے ہیں جب عیسائیت کی تعلیمات دستاویزات کے زریعے لوگوں کے بڑے اجتماعات میں دی جاتیں تھیں۔
اتور یکم اکتوبر 1978ء کے دن سینٹ جارج کا گرجا گھر لوگوں سے لبالب بھرا ہوا تھا جب Great Eangelist Jhon Wesley نے مذہبی تعلیمات دی تھیں۔ آج یہ چرج کسی ایسے ہی مبلغ کا منتظر ہے۔
دونوں گرجا گھروں کے منتظمین اس بات پر متفق تھے کہ یہ صرف حاضرین کی تعداد کا مسلئہ نہیں ہے یہ مسلہء اس ملک اور شہر میں عیسائیت کی بقا کا ہے۔
ان دونوں بےرونق گرجا گھروں سے بلکل مختلف برن اسٹریٹ کی مسجد کا پرجوش ماحول ہے۔
جہاں چاہے تیز بارش ہو یا کڑی دھوپ بنگلہ دیشی نزاد مسلمان جمعے کی نماز ہر قیمت پر ادا کرتے ہیں۔
مضمون نگار کے بقول یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سینٹ جارج کا گرجا گھر دوبارہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرجائے لیکن وہ لوگ شائد عیسائی نا ہوں۔
لنک
اس سے قطع نظر کے ملکہ برطانیہ قانوناً عیسائیت کی محافظ ہیں، برطانیہ کے بشپ ہاوئس آف لارڈ میں بیٹھتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر2011ء کی مردم شماری کے جسکے مطابق برطانیہ کی تینتیس عشاریہ دو ملین آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے، اگر آپ یہ حقیقت جاننا چاہیں گے کہ برطانیہ کتنا عیسائیت کا گڑھ ہے تو آپ صرف مندرجہ ذیل تصاویر کو دیکھیں۔ جو حقیقت یہ تصاویر پیش کرتی ہیں شائد کوئی سروے یا جائزہ سامنے نا لاسکے!
سینٹ میری چرچ کیبل اسٹریٹ (جسمیں بیشتر Pews خالی ہیں کل حاضرین 20 افراد)
سینٹ جارج چرچ میں اتوار کی صبح کی عبادت (جسمیں کل 12 افراد موجود ہیں)
سینٹ میری کے چرچ کے قریب ہی نمازِ جمعہ کا اجتماع جہاں نمازیوں کی صفیں مشرقی لندن کی اسپیٹفیلڈز مسجد سے کہیں باہر تک موجود ہیں:
سینٹ جارج کا گرجا 18ویں صدی کے اوائل میں بنا تھا ، جسمیں 1230 افراد کی گنجائش رکھی گئی تھی۔
اسی طرح سینٹ میری گرجا اکتوبر 1849ء میں عبادت کے لئے کھولا گیا تھا اور اسمیں 1000 افراد کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ دونوں گرجوں میں اتوار کی ہفتہ وارانہ عبادتی سروس دوران زیادہ سے زیادہ 20 افراد کا اجتماع نوٹ کیا گیا ہے۔
ان دونوں گرجوں کے مقابلے میں مسجد کی بنیاد کمیونیٹی سینٹر کے ایک چھوٹے سے کرائے کے کمرے میں رکھی گئی تھی جسمیں صرف 100 نمازیوں کی گنجائش موجود تھی۔ جبکہ ہر جمعہ کی نماز میں نمازیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ سینٹ میری گرجے کے سامنے تک صفیں بچھ جاتی ہیں۔
یہ تصاویر شائد یہ کہتی ہیں کہ عیسائیت اب برطانیہ کا ماضی کا مذہب بن چکا ہے جبکہ اسلام برطانیہ کے مستقبل کا مذہب ہے۔
پچھلے 10 سالوں میں برطانیہ میں خود کو عیسائی کہلانے والی آبادی 71.7فیصد سے گھٹ کر 59.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے!
اس عرصے میں مسلمانوں کی آبادی 3 فیصد سے 4.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی آدھی تعداد 25 سال کی عمر کے اندر ہے، جبکہ ایک تہائی عیسائی اپنی عمر کی 80 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق آنے والے 20 سالوں میں برطانیہ میں زیادہ متحرک یا جوان لوگ زیادہ تر مسلمان ہوں گے اور آئندہ پچاس سال کے اندازے اور اعدادو شمار شائد عیسائیوں کے لئے بلکل ناقابل قبول و برداشت ہوں۔
برطانیہ میں بہت سے لوگ بوجھل دل کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ برطانیہ میں عیسائیت زوال پزیر ہے، اور یہ خالی گرجا گھر صرف اس دور کی یادگار بن کر رہ گئے ہیں جب عیسائیت کی تعلیمات دستاویزات کے زریعے لوگوں کے بڑے اجتماعات میں دی جاتیں تھیں۔
اتور یکم اکتوبر 1978ء کے دن سینٹ جارج کا گرجا گھر لوگوں سے لبالب بھرا ہوا تھا جب Great Eangelist Jhon Wesley نے مذہبی تعلیمات دی تھیں۔ آج یہ چرج کسی ایسے ہی مبلغ کا منتظر ہے۔
دونوں گرجا گھروں کے منتظمین اس بات پر متفق تھے کہ یہ صرف حاضرین کی تعداد کا مسلئہ نہیں ہے یہ مسلہء اس ملک اور شہر میں عیسائیت کی بقا کا ہے۔
ان دونوں بےرونق گرجا گھروں سے بلکل مختلف برن اسٹریٹ کی مسجد کا پرجوش ماحول ہے۔
جہاں چاہے تیز بارش ہو یا کڑی دھوپ بنگلہ دیشی نزاد مسلمان جمعے کی نماز ہر قیمت پر ادا کرتے ہیں۔
مضمون نگار کے بقول یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سینٹ جارج کا گرجا گھر دوبارہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرجائے لیکن وہ لوگ شائد عیسائی نا ہوں۔
لنک