شمشاد
لائبریرین
ہم اپنی دھن میں مگن اسلام آباد کی ایک ویران اور نسبتاً اجاڑ سڑک پر ملک میں موجود لنگڑی لولی اور نہ ہونے کے برابر جمہوریت پر باتیں کرتے چلے جا رہے تھے۔ ہم مطلب میں اور میرا بچپن کا دوست۔
ادھر کوٹھیاں بھی کم ہیں اور ٹریفک تو نہ ہونے کے برابر، سڑک کے اطراف میں درختوں اور جھاڑیوں کی بھرمار ہے۔ لگتا ہے سی ڈی اے والوں کا ادھر سے کم ہی گزر ہوتا ہے۔
چلتے چلتے ایک کھٹیا پر نظر پڑی، باہر پانی کے دو مٹکے ان کے اوپر مٹی کے پیالے اور کھٹیا کے بغیر کواڑ کے دروازے کے اوپر ایک بورڈ جس پر " ڈبہ پیر " لکھا ہوا تھا۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر کھٹیا کی طرف دیکھا پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر پیر صاحب کی قدمبوسی کے لیے کھٹیا کی طرف قدم بڑھائے۔
اندر داخل ہوئے تو ایک ٹھنڈک کا احساس ہوا کہ اندر گھاس پھوس بچھا ہوا تھا، اینٹ سیمنٹ کی بجائے مٹی کی دیواریں تھیں، فرش بھی کچا ہی تھا۔ ایک بندے نے جس کی داڑھی اور مونچھیں ملی ہوئی تھیں، نے بڑھکر استقبال کیا اور ہمیں ایک اور کمرے میں لے گیا۔ وہ کمرہ بھی پہلے کمرے جیسا ہی تھا، فرق صرف یہ تھا کہ اس میں ایک تخت پوش بھی پڑا ہوا تھا۔
اس کمرے میں ایک جٹا دھاری بندہ لمبا چوغہ پہنے ہاتھ میں ہزار دانے کی تسبیح لیے آنکھیں موندھے نیم دراز تھا۔
پہلا بندہ تھوڑی دیر کے بعد ہاتھوں میں دو مٹی کے پیالے پانی سے لبالب بھرے لیے ہوئے لوٹا اور ہماری تواضع کی۔ پھر بڑے راز دارانہ لہجے میں کہنے لگا آپ چند منٹ انتظار کریں پیر صاحب کے اٹھنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
اتنے میں پیر صاحب نے انگڑائی لی، تسبیح کو گلے میں ڈال کر دو تین بل دیئے اور اپنے حواری سے پوچھا یہ کون ہیں؟
اس سے پیشتر کہ حواری جواب دیتا، ہم نے فوراً ہی ان کی خدمت میں سلام پیش کیا اور ساتھ ہی ایک عدد درخواست بھی کر دی۔
بابا جی آپ دعا کریں ہمارے ملک میں جمہوریت آ جائے۔
جہوریت کہاں گئی ہے؟ بابا جی نے پوچھا
گئی تو کہیں نہیں، ہے تو ادھر ہی
اس سے پیشتر کہ ہم اپنا فقرہ پورا کرتے، بابا جی نے بیچ میں سے ہی اچک لیا، بولے، اگر گئی نہیں تو آئے گی کیسے؟ آنے کے لیے جانا ضروری ہوتا ہے بیٹا۔
وہ بابا جی بات یہ ہے کہ یہاں بہت سارے فوجی حکمران آتے رہتے ہیں تو جو بھی آتا ہے وہ اس کو بہلا پھسلا کے اپنے گھر کی لونڈی بنا لیتا ہے اور اپنی مرضی کا سلوک کرتا ہے۔ آجکل بھی وہ اسی دور سے گزر رہی ہے۔ آپ دعا کریں کہ وہ اپنی بچی کھچی عزت لے کر واپس آ جائے۔
بابا جی بولے بلکہ ڈانٹ کر بولے، بھاگ جاؤ یہاں سے، بڑے آئے جمہوریت ڈھونڈنے والے، کل تک ایک دوسرے کے دامن پر کیچڑ اچھالتے تھے آج تیس پارٹیاں اکٹھی کرتے پھر رہے ہیں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ جاؤ اور سمجھ لو یہاں جمہوریت جب بھی آئے گی اس کی ایسے ہی عصمت دری ہوتی رہے گی اور اس کے ذمہ دار تم خود ہو۔
اور بابا جی نے ہمیں ڈانٹ کر بھگا دیا۔
باہر نکل کر میرا دوست بولا یار یہ ڈبہ پیر تو نہیں لگتا یہ تو پورا ڈرم پیر ہے۔
ادھر کوٹھیاں بھی کم ہیں اور ٹریفک تو نہ ہونے کے برابر، سڑک کے اطراف میں درختوں اور جھاڑیوں کی بھرمار ہے۔ لگتا ہے سی ڈی اے والوں کا ادھر سے کم ہی گزر ہوتا ہے۔
چلتے چلتے ایک کھٹیا پر نظر پڑی، باہر پانی کے دو مٹکے ان کے اوپر مٹی کے پیالے اور کھٹیا کے بغیر کواڑ کے دروازے کے اوپر ایک بورڈ جس پر " ڈبہ پیر " لکھا ہوا تھا۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر کھٹیا کی طرف دیکھا پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر پیر صاحب کی قدمبوسی کے لیے کھٹیا کی طرف قدم بڑھائے۔
اندر داخل ہوئے تو ایک ٹھنڈک کا احساس ہوا کہ اندر گھاس پھوس بچھا ہوا تھا، اینٹ سیمنٹ کی بجائے مٹی کی دیواریں تھیں، فرش بھی کچا ہی تھا۔ ایک بندے نے جس کی داڑھی اور مونچھیں ملی ہوئی تھیں، نے بڑھکر استقبال کیا اور ہمیں ایک اور کمرے میں لے گیا۔ وہ کمرہ بھی پہلے کمرے جیسا ہی تھا، فرق صرف یہ تھا کہ اس میں ایک تخت پوش بھی پڑا ہوا تھا۔
اس کمرے میں ایک جٹا دھاری بندہ لمبا چوغہ پہنے ہاتھ میں ہزار دانے کی تسبیح لیے آنکھیں موندھے نیم دراز تھا۔
پہلا بندہ تھوڑی دیر کے بعد ہاتھوں میں دو مٹی کے پیالے پانی سے لبالب بھرے لیے ہوئے لوٹا اور ہماری تواضع کی۔ پھر بڑے راز دارانہ لہجے میں کہنے لگا آپ چند منٹ انتظار کریں پیر صاحب کے اٹھنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
اتنے میں پیر صاحب نے انگڑائی لی، تسبیح کو گلے میں ڈال کر دو تین بل دیئے اور اپنے حواری سے پوچھا یہ کون ہیں؟
اس سے پیشتر کہ حواری جواب دیتا، ہم نے فوراً ہی ان کی خدمت میں سلام پیش کیا اور ساتھ ہی ایک عدد درخواست بھی کر دی۔
بابا جی آپ دعا کریں ہمارے ملک میں جمہوریت آ جائے۔
جہوریت کہاں گئی ہے؟ بابا جی نے پوچھا
گئی تو کہیں نہیں، ہے تو ادھر ہی
اس سے پیشتر کہ ہم اپنا فقرہ پورا کرتے، بابا جی نے بیچ میں سے ہی اچک لیا، بولے، اگر گئی نہیں تو آئے گی کیسے؟ آنے کے لیے جانا ضروری ہوتا ہے بیٹا۔
وہ بابا جی بات یہ ہے کہ یہاں بہت سارے فوجی حکمران آتے رہتے ہیں تو جو بھی آتا ہے وہ اس کو بہلا پھسلا کے اپنے گھر کی لونڈی بنا لیتا ہے اور اپنی مرضی کا سلوک کرتا ہے۔ آجکل بھی وہ اسی دور سے گزر رہی ہے۔ آپ دعا کریں کہ وہ اپنی بچی کھچی عزت لے کر واپس آ جائے۔
بابا جی بولے بلکہ ڈانٹ کر بولے، بھاگ جاؤ یہاں سے، بڑے آئے جمہوریت ڈھونڈنے والے، کل تک ایک دوسرے کے دامن پر کیچڑ اچھالتے تھے آج تیس پارٹیاں اکٹھی کرتے پھر رہے ہیں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ جاؤ اور سمجھ لو یہاں جمہوریت جب بھی آئے گی اس کی ایسے ہی عصمت دری ہوتی رہے گی اور اس کے ذمہ دار تم خود ہو۔
اور بابا جی نے ہمیں ڈانٹ کر بھگا دیا۔
باہر نکل کر میرا دوست بولا یار یہ ڈبہ پیر تو نہیں لگتا یہ تو پورا ڈرم پیر ہے۔