ایک نظم،'' تماشہ'' تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کیلئے


تماشہ


تماشہ کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے
کہ اے باد صبا، جھونکا نہیں ہے

ہماری زندگی سے کچھ نہ لینا
ہماری موت پر کیا اس نے دینا
اسے کچھ بھی ہو پر دُکھتا نہیں ہے
تماشہ کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے

نہیں یہ فرد کا محتاج ہوتا
جگے کوئی، رہے یا گھر میں سوتا
کبھی بیٹھے نہ یہ، اُٹھتا نہیں ہے
تماشہ کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے

تمہیں کو سر نگوں کرنا پڑے گا
کہے تاوان جو بھرنا پڑے گا
تماشہ تو کبھی جھُکتا نہیں ہے
تماشہ کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے

چلو ہم سب ہیں چلتے ساتھ اسکے
تو آؤ تھام لو پھر ہاتھ اسکے
بُرا کچھ بھی کہو سودا نہیں ہے
تماشہ کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے

نہیں اظہر سے کوئی اس کی یاری
کھلائے اُس کو بھی جب آئے باری
تری خاطر بھی یہ برپا نہیں ہے
تماشہ کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے
 
Top