خرم شہزاد خرم
لائبریرین
عنوان
سمندر پار جب تھامیں
مجھے اب پھر اجازت دو
کہ میں نے پیٹ کی خاطر
سمندر پار جانا ہے
سمندر پار جب تھا میں
تو سارے دوست تھے میرے
وہ رشتے خون کے تھے جو
مرے اک اک اشارے پر
مری ہر بات پر لبیک
مرے ہر کام پر راضی
مری مشکل میں شامل تھے
مجھے ہمت وہ دیتے تھے
بہت ہی خوش رہا تھا میں
سمندر پار جب تھا میں
میری ہر بات سنتے تھے
مرا ہر کام کرتے تھے
مجھے خرم ،مجھے بھیا
مجھے جانی بُلاتے تھے
مجھے کس چیز کا ڈر تھا
بہت بے خوف رہا تھا میں
سمندر پار جب تھا میں
مجھے وہ فون کرکر کے
وطن آنے کا کہتے تھے
بہت دن ہوگے خرم
تجھے دیکھا نہیں ہم نے
بَلا اتنی بھی دوری کیا
چلو اب لوٹ آؤ تم
خوشی سے جی رہا تھا میں
سمندر پار جب تھا میں
وطن کو لوٹ آیا ہوں
ابھی کچھ دن ہی گزرے ہیں
کہ سب بے زار لگتے ہیں
غموں سے چار لگتے ہیں
مرے وہ یار رشتے دار
مری الفت کے مارے تھے
وہی اب مجھ سےکہتے ہیں
ارے واپس نہیں جانا ؟
یہیں پر کام کرنا ہے ؟
وہاں سے چھوڑ آئے ہو ؟
اے واپس نہیں جانا ؟
یہاں کیا کام کرنا ہے ؟
یہاں کچھ بھی نہیں باقی
مری مانو مرے پیارے
سمندر پار پھر جاؤ
مجھے اب پھر اجازت دو
کہ میں نے پیٹ کی خاطر
سمندر پار جانا ہے
خرم شہزاد
سمندر پار جب تھامیں
مجھے اب پھر اجازت دو
کہ میں نے پیٹ کی خاطر
سمندر پار جانا ہے
سمندر پار جب تھا میں
تو سارے دوست تھے میرے
وہ رشتے خون کے تھے جو
مرے اک اک اشارے پر
مری ہر بات پر لبیک
مرے ہر کام پر راضی
مری مشکل میں شامل تھے
مجھے ہمت وہ دیتے تھے
بہت ہی خوش رہا تھا میں
سمندر پار جب تھا میں
میری ہر بات سنتے تھے
مرا ہر کام کرتے تھے
مجھے خرم ،مجھے بھیا
مجھے جانی بُلاتے تھے
مجھے کس چیز کا ڈر تھا
بہت بے خوف رہا تھا میں
سمندر پار جب تھا میں
مجھے وہ فون کرکر کے
وطن آنے کا کہتے تھے
بہت دن ہوگے خرم
تجھے دیکھا نہیں ہم نے
بَلا اتنی بھی دوری کیا
چلو اب لوٹ آؤ تم
خوشی سے جی رہا تھا میں
سمندر پار جب تھا میں
وطن کو لوٹ آیا ہوں
ابھی کچھ دن ہی گزرے ہیں
کہ سب بے زار لگتے ہیں
غموں سے چار لگتے ہیں
مرے وہ یار رشتے دار
مری الفت کے مارے تھے
وہی اب مجھ سےکہتے ہیں
ارے واپس نہیں جانا ؟
یہیں پر کام کرنا ہے ؟
وہاں سے چھوڑ آئے ہو ؟
اے واپس نہیں جانا ؟
یہاں کیا کام کرنا ہے ؟
یہاں کچھ بھی نہیں باقی
مری مانو مرے پیارے
سمندر پار پھر جاؤ
مجھے اب پھر اجازت دو
کہ میں نے پیٹ کی خاطر
سمندر پار جانا ہے
خرم شہزاد