ایک نظم اصلاح کے لیے پیش ہے

مغزل

محفلین
عنوان
سمندر پار جب تھامیں
(سمندر پار تھا جب میں ۔۔۔)
----------------------

مجھے اب پھر اجازت دو ۔۔۔
کہ میں نے پیٹ کی خاطرسمندر پار جانا ہے
سمندر پار جب تھا میں تو سارے دوست تھے میرے
(مصرع یوں رواں ہوسکتا ہے ’’ سمندر پارتھا جب میں ، تو سارے دوست میرے تھے )
وہ رشتے خون کے تھے جو
(وہ رشتے خون کے رشتے ۔۔۔)
مرے اک اک اشارے پر۔۔
مری ہر بات پر لبیک (کہتے تھے۔۔۔ (یہ ٹکڑا شامل کرلو) )
مرے ہر کام پر راضی، مری مشکل میں شامل تھے
مجھے ہمت وہ دیتے تھے
(مری ہمّت بندھاتے تھے)
بہت ہی خوش رہا تھا میں
سمندر پار جب تھا میں
(سمندر پار تھا جب میں )

میری ہر بات سنتے تھے
مرا ہر کام کرتے تھے
مجھے خرم ،مجھے بھیّا، مجھے جانی بُلاتے تھے
مجھے کس چیز کا ڈر تھا۔۔۔
بہت بے خوف رہا تھا میں
(بہت بے خوف رہتا تھا)
سمندر پار جب تھا میں
(سمندر پار تھا جب میں )

مجھے وہ فون کرکر کے
(کرکر سے مزا کرکرا ہوگیا۔۔۔ یوں ہوں سکتا ہے۔۔ ’’ وہ مجھ کو یاد رکھتے تھے ‘‘)
وطن آنے کا کہتے تھے
’’ بہت دن ہوگے خرم، تجھے دیکھا نہیں ہم نے‘‘
بَلا اتنی بھی دوری کیا، چلو اب لوٹ آؤ تم۔۔۔
(بھلا اتنی بھی کیا دُوری۔۔۔چلو اب لوٹ آؤ تم۔۔۔)
خوشی سے جی رہا تھا میں
سمندر پار جب تھا میں
(سمندر پار تھا جب میں )

وطن کو لوٹ آیا ہوں
(میں واپس لوٹ آیا ہوں )
ابھی کچھ دن ہی گزرے ہیں
کہ سب بے زار لگتے ہیں
غموں سے چار لگتے ہیں
(اگر موضوع یہی رکھنا ہے تو یوں کرلو: غموں سے چُور لگتے ہیں )
مرے وہ یار رشتے دار، مری الفت کے مارے تھے
(وہ میرے یار، رشتے دار، سب الفت کے مارے تھے)
وہی اب مجھ سےکہتے ہیں۔۔ارے واپس نہیں جانا ؟
یہیں پر کام کرنا ہے ؟۔۔۔وہاں سے چھوڑ آئے ہو ؟ (اسے حذف کردو بھرتی کا ہورہا ہے۔ )
اے واپس نہیں جانا ؟۔۔۔یہاں کیا کام کرنا ہے ؟
یہاں کچھ بھی نہیں باقی۔۔۔
مری مانو ، مرے پیارے۔۔۔
سمندر پار پھر جاؤ
(سمندر پار جاؤ تم !!!)

مجھے اب پھر اجازت دو
(مجھے پھر سے اجازت ود !!)
کہ میں نے ’’پیٹ ‘‘ کی خاطرسمندر پار جانا ہے۔۔۔

-------------
شہزادے میں اصلاح کرنے سےزیادہ صلاح و مشورے کا قائل ہوں ۔
سو یہ مقدور بھر سی کوشش پیش ہے ۔ یہ نظم (اوزان کی بات ایک طرف) اپنے برتاؤ میں داخلی واردات اور خارجی عوامل پر بحث کرتی ہے۔
یہی وہ زینہ ہے جہاں نوواردان اپنے لیے راستے کا تعین کرتے ہیں ۔ اللہ اس آگ کو محفوظ رکھے یہی آگ یہی اپنا آپ اپنا دکھ لکھنا شاعری کی ایک بہترین سطح ہے۔ شاباش
(کبھی موضوع رہا تو نظم کے ’’ٹریٹمنٹ ‘‘ یعنی برتاؤ پر بات کریں گے انشا اللہ ۔۔)
سلامت رہو بہت شاد رہو۔۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جزاک اللہ م م مغل بھائی آپ کی بتائی ہوئی ترتیب اور اصلاح کے مطابق نظم کو کر دیا ہے اب بتا دیں کہ اس طرح ٹھیک ہے اگر ٹھیک ہے تو پھر اس کو میں شائع کر دوں بہت شکریہ جزاک اللہ


عنوان

سمندر پار تھا جب میں ۔۔۔
----------------------

مجھے اب پھر اجازت دو ۔۔۔
کہ میں نے پیٹ کی خاطرسمندر پار جانا ہے
سمندر پارتھا جب میں ، تو سارے دوست میرے تھے
وہ رشتے خون کے رشتے ۔۔۔
مرے اک اک اشارے پر۔۔
مری ہر بات پر لبیک کہتے تھے۔۔۔
مرے ہر کام پر راضی، مری مشکل میں شامل تھے
مری ہمّت بندھاتے تھے
بہت ہی خوش رہا تھا میں
سمندر پار تھا جب میں

میری ہر بات سنتے تھے
مرا ہر کام کرتے تھے
مجھے خرم ،مجھے بھیّا، مجھے جانی بُلاتے تھے
مجھے کس چیز کا ڈر تھا۔۔۔
بہت بے خوف رہتا تھا
سمندر پار تھا جب میں

وہ مجھ کو یاد رکھتے تھے
وطن آنے کا کہتے تھے
’’ بہت دن ہوگے خرم، تجھے دیکھا نہیں ہم نے‘‘
بھلا اتنی بھی کیا دُوری۔۔۔
چلو اب لوٹ آؤ تم۔۔۔
خوشی سے جی رہا تھا میں
سمندر پار تھا جب میں

میں واپس لوٹ آیا ہوں
ابھی کچھ دن ہی گزرے ہیں
کہ سب بے زار لگتے ہیں
غموں سے چُور لگتے ہیں
وہ میرے یار، رشتے دار، سب الفت کے مارے تھے
وہی اب مجھ سےکہتے ہیں۔۔ارے واپس نہیں جانا ؟
یہیں پر کام کرنا ہے ؟۔۔۔
ارے واپس نہیں جانا ؟۔۔۔ یہاں کیا کام کرنا ہے ؟
یہاں کچھ بھی نہیں باقی۔۔۔
مری مانو ، مرے پیارے۔۔۔
سمندر پار جاؤ تم !!!

مجھے پھر سے اجازت ود !!
کہ میں نے ’’پیٹ ‘‘ کی خاطرسمندر پار جانا ہے۔۔
 

ایم اے راجا

محفلین
نظم بہت اچھی ہو گئی ہے
یہاں ٹائپو ہے شاید، مری ہو نا چاہئیے، مری ہر بات۔۔۔۔۔
(میری ہر بات سنتے تھے)
مرا ہر کام کرتے تھے

اور یہ مصرعہ بھی تبدیلی چاہتا ہے اچھا نہیں لگ رہا ۔
ابھی کچھ دن ہی گزرے ہیں
کہ سب بے زار لگتے ہیں
(غموں سے چُور لگتے ہیں)
مضمون سے الگ سا محسوس ہو رہا ہے شاید
 

الف عین

لائبریرین
دوسرے اساتذہ تو یہاں آتے ہی نہیں، مجبوراً مجھ مبتدی کو یہ کارِ خیر انجام دینا پڑتا ہے۔ کاش محمود مغل ہی اس کو دیکھ لیتے۔ وارث کے ساتھ اب تو یہاں فاروق درویش اور عارف عزیز بھی ہیں، بہر حال کاپی کر لی ہے۔ اب کل فرصت ملی تو کل سے دیکھنا شروع کر سکتا ہوں اصلاح سخن کی ساری باقی ماندہ تخلیقات، اور ایک ایک کر کے پوسٹ کرتا رہوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی دیکھا کہ اس کا دوسرا صفحہ بھی موجود ہے، جو اصلاح شدہ ہے، شکریہ محمود۔ ایک آدھ لفظ جو مجھے کھٹک رہا ہے، اسی کی نشان دہی کر دوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم ہے، لیکن اس کو مکمل آزاد کر دو تو اور بہتر ہو سکتی ہے، جہاں بات مکمل نہیں ہو سکی ہے، وہ کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ میرا مشورہ ہے کہ اس کو بندوں میں تقسیم نہ کیا جائے۔ مسلسل نظم سے تاثر بہتر بن سکتا ہے۔
اصلاح شدہ شکل

سمندر پار جب تھامیں

مجھے اب پھر اجازت دو
کہ مجھ کو پیٹ کی خاطر
سمندر پار جانا ہے


سمندر پار جب تھا میں
تو کتنا خوش رہا تھا میں
یہ سارے دوست تھے میرے
جو رشتے خون کے تھے وہ بھی میرے ہر اشارے پر
مری ہر بات پر لبیک کہتے تھے
مرے ہر کام پر راضی، مری مشکل میں شامل تھے
مری ہر بات سنتے تھے، مرا ہر کام کرتے تھے
مجھے خرم ،مجھے بھیا
مجھے جانی بُلاتے تھے
مجھے کس چیز کا ڈر تھا
بہت بے خوف سا تھا میں

سمندر پار جب تھا میں
مجھے وہ فون کر کر کے
وطن آنے کا کہتے تھے
بہت دن ہو گئے خرم، تجھے دیکھا نہیں ہم نے
بَھلا اتنی بھی دوری کیا
چلو اب لوٹ آؤ تم

مگر اب جب وطن میں لوٹ آیا ہوں
ابھی کچھ دن ہی گزرے ہیں
کہ سب بے زار لگتے ہیں
وہ سارے یار، رشتے دار
جو مجھ سے پیار کرتے تھے
مری الفت کا دم بھرتے تھے،
مجھے خوش دیکھ کر خوش، اور اداسی پر بڑے غمگین رہتے تھے
وہی اب مجھ سے کہتے ہیں
ارے واپس نہیں جانا ؟
یہیں پر کام کرنا ہے ؟
وہاں سب چھوڑ آئے ہو ؟
یہاں کیا کام کرنا ہے ؟
یہاں کچھ بھی نہیں باقی
مری مانو مرے پیارے سمندر پار پھر جاؤ

مجھے اب پھر اجازت دو
کہ مجھ کو پیٹ کی خاطر
سمندر پار جانا ہے
 
Top