ایک نظم :اندیشے:

یاران ِ محفل؛ تسلیمات!
محفل میں احباب کی آمد ورفت بہت کم ہے اور ایسے با اثر لوگوں کی توجہ جن کی مدد اور رہنمائی سے یہاں کا وقار اور معیار نسبتا جلد اور آسانی سے بلند ہو سکتا ہے اور بھی کم ہے۔ میری مراد اُن دوستوں سے ہے جو ایک مدت سے اس محفل میں سرگرم ہیں اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں محنت کر رہے ہیں۔ ان میں چند وہ ہستیاں بھی ہیں جو اصلاح سخن کی مشکل اور صبر آزما منازل سے آشنا ہیں ۔ اہل محفل ان سب کی تہِ دل سے ممنون و متشکر ہے ۔ منھ کا مزا بدلنے کی خاطر اِدھر میں نے یہاں نظمیں چسپاں کرنے کا سلسلہ شروع کیاہے ۔ غزل تو کافی عام ہے لیکن نظم کی جانب لوگوں کی توجہ کم ہے۔ نظم کا اپنا لطف ومزہ ہے۔ درجِ ذیل نظم : اندیشے: ایک تاثراتی تخلیق ہے یعنی اس کی بنیاد ایک احساس یا جذبہ پر ہے جس سے ہم سب آشنا ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے اظہار پریکساں طورپر قادر بھی ہوں۔ اس لحاظ سے یہ نظم بہت سی پابند نظموں سے مختلف محسوس ہو سکتی ہے۔ اس احساس کو اپنے شعری شعور میں کس طرح جذب کیا جائے اس کا فیصلہ قاری ہی کر سکتا ہے۔ یہ نظم ایک مقامی شاپنگ مال کی سیر کے ایک دلکش تجربہ کا نتیجہ ہےجب میں نے مال میں ایک دوشیزہ کو دنیا کی نگاہوں سے بےنیاز ایک طرف بیٹحے اپنی ذلفیں کنگھی سے سنوارتےدیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔اس کے بعد کا قصہ نظم خودسنا رہی ہے ! غزل کی تفہیم میں بھی ایسا مرحلہ آسکتا ہے کہ قاری اور شاعر الگ الگ راہ پر چل پڑیں ۔ سو کوئی ہرج نہیں۔ شاعری اور ریاضی میں فرق ہونا ہی چاہئے! آپ سب سے گذارش ہے (خصوصا اصلاح کار دوستوں سے پر زور درخواست ہے ) کہ نظم پر اپنے تاثرات اور خیالات لکھنے میں تکلف نہ کریں بلکہ بے تکلف اور بے لاگ لکھیں ۔ ہر شخص کی رائے اہم ہے اور وزن رکھتی ہے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونےتک !
----------------
اندیشے
رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
خود تما شا ہے ، خود تماشائی
تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
تو ُاُدھر محوِ بزم آرائی
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
----------
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
================
سرور عالم راز
 

علی وقار

محفلین
تبصرہ تو وہی کریں گے جو اس قابل ہوں۔ میں تو بس واجبی سی رائے دے سکتا ہوں۔ اس نظم کی بُنت کاری کمال کی ہے۔ ایک طرف جذبہ بے تاب اور آوارہ خیالی ہے، ایک طرف حُسن بے پروا ہے اور یک گونہ بے نیازی ہے۔ اس نظم میں اس کیفیت کو خوبصورتی سے رقم کیا گیا ہے اور یہ نظم اپنا تاثر جمانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ کوئی بھی لفظ اضافی معلوم نہیں ہوتا۔ نظم کی شراکت کے لیے شکریہ۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
اندیشے
رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
خود تما شا ہے ، خود تماشائی
تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
تو ُاُدھر محوِ بزم آرائی
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
----------
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
واہ محترمی ۔دلکش و دلکشا ،دلچسپ و دلنشیں نظم ۔ماشاء اللہ۔
کہیں کوئی کمزور مقام نظر نہیں آیا۔انگلی رکھنے کی جا نہیں ۔میں نےاپنی خاتون خانہ کا تصورباندھ کر پڑھی کہ وہ کنگھی کر رہی ہیں۔😊
 
یاران ِ محفل؛ تسلیمات!
محفل میں احباب کی آمد ورفت بہت کم ہے اور ایسے با اثر لوگوں کی توجہ جن کی مدد اور رہنمائی سے یہاں کا وقار اور معیار نسبتا جلد اور آسانی سے بلند ہو سکتا ہے اور بھی کم ہے۔ میری مراد اُن دوستوں سے ہے جو ایک مدت سے اس محفل میں سرگرم ہیں اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں محنت کر رہے ہیں۔ ان میں چند وہ ہستیاں بھی ہیں جو اصلاح سخن کی مشکل اور صبر آزما منازل سے آشنا ہیں ۔ اہل محفل ان سب کی تہِ دل سے ممنون و متشکر ہے ۔ منھ کا مزا بدلنے کی خاطر اِدھر میں نے یہاں نظمیں چسپاں کرنے کا سلسلہ شروع کیاہے ۔ غزل تو کافی عام ہے لیکن نظم کی جانب لوگوں کی توجہ کم ہے۔ نظم کا اپنا لطف ومزہ ہے۔ درجِ ذیل نظم : اندیشے: ایک تاثراتی تخلیق ہے یعنی اس کی بنیاد ایک احساس یا جذبہ پر ہے جس سے ہم سب آشنا ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے اظہار پریکساں طورپر قادر بھی ہوں۔ اس لحاظ سے یہ نظم بہت سی پابند نظموں سے مختلف محسوس ہو سکتی ہے۔ اس احساس کو اپنے شعری شعور میں کس طرح جذب کیا جائے اس کا فیصلہ قاری ہی کر سکتا ہے۔ یہ نظم ایک مقامی شاپنگ مال کی سیر کے ایک دلکش تجربہ کا نتیجہ ہےجب میں نے مال میں ایک دوشیزہ کو دنیا کی نگاہوں سے بےنیاز ایک طرف بیٹحے اپنی ذلفیں کنگھی سے سنوارتےدیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔اس کے بعد کا قصہ نظم خودسنا رہی ہے ! غزل کی تفہیم میں بھی ایسا مرحلہ آسکتا ہے کہ قاری اور شاعر الگ الگ راہ پر چل پڑیں ۔ سو کوئی ہرج نہیں۔ شاعری اور ریاضی میں فرق ہونا ہی چاہئے! آپ سب سے گذارش ہے (خصوصا اصلاح کار دوستوں سے پر زور درخواست ہے ) کہ نظم پر اپنے تاثرات اور خیالات لکھنے میں تکلف نہ کریں بلکہ بے تکلف اور بے لاگ لکھیں ۔ ہر شخص کی رائے اہم ہے اور وزن رکھتی ہے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونےتک !
----------------
اندیشے
رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
خود تما شا ہے ، خود تماشائی
تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
تو ُاُدھر محوِ بزم آرائی
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
----------
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
================
سرور عالم راز
محترم سرور صاحب ، آپ کی نظم نظر نواز ہوئی اور پسند آئی . ایک حَسِین و بے پروا دوشیزہ کی اداؤں سے دِل میں جو جذبات پیدا ہوتے ہیں ، اُنہیں آپ نے بَڑی نفاست سے بیان کیا ہے . میری ناچیز رائے میں نظم کا آخری بند اہم ہے ، کیونکہ یہ نظم کو محض بیانیہ سے آگے لے کر جاتا ہے . اِس بند میں نظم كے عنوان کی وجہ بھی پوشیدہ ہے ، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ آپ کن اندیشوں کا ذکر کر رہے ہیں . آپ ذرا وضاحت فرمائیں تو شاید میں نظم کا پُورا لطف اٹھا سکوں .
 
محترم سرور صاحب ، آپ کی نظم نظر نواز ہوئی اور پسند آئی . ایک حَسِین و بے پروا دوشیزہ کی اداؤں سے دِل میں جو جذبات پیدا ہوتے ہیں ، اُنہیں آپ نے بَڑی نفاست سے بیان کیا ہے . میری ناچیز رائے میں نظم کا آخری بند اہم ہے ، کیونکہ یہ نظم کو محض بیانیہ سے آگے لے کر جاتا ہے . اِس بند میں نظم كے عنوان کی وجہ بھی پوشیدہ ہے ، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ آپ کن اندیشوں کا ذکر کر رہے ہیں . آپ ذرا وضاحت فرمائیں تو شاید میں نظم کا پُورا لطف اٹھا سکوں .
[/QUOTE
محترمی عرفان صاحب: جواب نظم کا شکریہ۔ آپ کایہاں آنا بہت خوش آئندہے اور یہ سلسلہ باقاعدہ ہونا ضروری ہے۔ نظم پسند آنا میرے لئے باعث مسرت ہے۔ رہ گیا یہ سوال کہ :کون سے اندیشے؟: تو حیرت ہے کہ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ یہ وہی اندیشے ہیں جن کی جانب مرزا غالب نے اپنی غزل :نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہء ساز: میں اشارہ کیا ہے۔ وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ٹیپ کے اشعار غالب سے مستعار ہیں اور ان سے سب کچھ ظاہر ہے۔ امید ہے مستقبل میں نیاز حاصل ہوتا رہے گا۔ اب نظم پر تبصرہ کا انتظار رہے گا۔ انشا اللہ۔
سرور عالم راز
 
تبصرہ تو وہی کریں گے جو اس قابل ہوں۔ میں تو بس واجبی سی رائے دے سکتا ہوں۔ اس نظم کی بُنت کاری کمال کی ہے۔ ایک طرف جذبہ بے تاب اور آوارہ خیالی ہے، ایک طرف حُسن بے پروا ہے اور یک گونہ بے نیازی ہے۔ اس نظم میں اس کیفیت کو خوبصورتی سے رقم کیا گیا ہے اور یہ نظم اپنا تاثر جمانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ کوئی بھی لفظ اضافی معلوم نہیں ہوتا۔ نظم کی شراکت کے لیے شکریہ۔
محترمی وقار صاحب: آپ کا خط دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ :واجبی سی رائے: کی بھی بہت اہمیت ہے۔ آپ یہ نہ سوچیں کہ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔محفل آپ کے ہی دم سے قایم ہے۔ آئیے اور بے لاگ دل کھول کر تبصرہ کیجئے۔یقین کیجئے کہ آپ کے خیالات سے بہت دل خوش ہوا۔ فکر کا یہی انداز رکھیں اور لکھتے رہیں۔ تنقید کے بغیر زندگی میں ترقی کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ آپ کا شکریہ۔
 
واہ محترمی ۔دلکش و دلکشا ،دلچسپ و دلنشیں نظم ۔ماشاء اللہ۔
کہیں کوئی کمزور مقام نظر نہیں آیا۔انگلی رکھنے کی جا نہیں ۔میں نےاپنی خاتون خانہ کا تصورباندھ کر پڑھی کہ وہ کنگھی کر رہی ہیں۔😊
مکرمی یاسر صاحب: یہ کیا تبصرہ ہے کہ :خاتون خانہ : کا تصور کیا اور آنکھ بند کر کے لکھ دیا؟ نہ صاحب! آپ سے میں مکمل اور مفصل تبصرہ کا امید وار ہوں۔ پھر لکھئے اور کچھ نہ سوجھے تو :خاتون خانہ: کی واپسی کا انتظار کر لیں اور ان کے مشورہ، بلکہ حکم ،سے تبصرہ لکھیں۔ راحل صاحب، الف عین صاحب، راشد صاھب، وارث صاحب اور دیگر احباب سے بھی گزارش ہے کہ اپنے خیالات سے نوازیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
سرور عالم راز
 

یاسر شاہ

محفلین
مکرمی یاسر صاحب: یہ کیا تبصرہ ہے کہ :خاتون خانہ : کا تصور کیا اور آنکھ بند کر کے لکھ دیا؟ نہ صاحب! آپ سے میں مکمل اور مفصل تبصرہ کا امید وار ہوں۔ پھر لکھئے اور کچھ نہ سوجھے تو :خاتون خانہ: کی واپسی کا انتظار کر لیں اور ان کے مشورہ، بلکہ حکم ،سے تبصرہ لکھیں
محترمی تاخیر پہ معذرت ،ہماری عید کی چھٹیاں آج سے شروع ہوئی ہیں ۔آپ کو عید الاضحیٰ کے موقع پر میری طرف سےدلی مبارکباد۔
میں حکم کی تعمیل میں بے لاگ تبصرہ پیش کردوں گا مگر مثل مشہور ہے:اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا : لہذا کچھ اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہوں ،کچھ اور لوگ بھی یہ کام کر رہے ہوں تو ایک دوسرے سے تقویت ملے ،مگر جب ایسا نہیں ہے تو خود اپنی باتیں گستاخی لگنے لگتی ہیں ۔آپ بھی کہ جوکبھی زور و شور سے یہ کام کرتے تھے اب نہ اصلاح سخن میں ہی تشریف لاتے ہیں نہ ادھر ہی کسی کہنہ مشق کی کاوشوں کا تجزیہ کرتے ہیں ،یوں کام کیسے آگے بڑھے گا،مجھے تو آپ سے ابھی بے لاگ لکھنے کی شائستگی بھی سیکھنی ہے۔
آپ نے کچھ لوگوں کو یاد کیا ہے انھیں ٹیگ کر دیتا ہوں ۔دیکھیں وہ کیا فرماتے ہیں ،پھر خود بھی حاضر ہو جاؤں گا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
راحل صاحب، الف عین صاحب، راشد صاھب، وارث صاحب اور دیگر احباب سے بھی گزارش ہے کہ اپنے خیالات سے نوازیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
الف عین
محمد وارث
محمد احسن سمیع راحلؔ
ارشد رشید

اصلاح سخن سے بھی احباب کو خاص دعوت دی جاتی ہے کہ آئیں اور بے لاگ لکھیں کہ شاعر کو : میسنا فنکار: نہ ہونا چاہیے۔
محمد عبدالرؤوف
اشرف علی
مقبول
شاہد شاہنواز
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نظم کیا ہے، صرف ایک احساس، ایک خیال اور وارداتِ قلبی کا اظہار ہے۔ اس میں کسی مکالمے کا ذکر یا محبوب کی جانب سے کسی مہم جوئی کا ذکر بھی نہیں ملتا، اور آخر کے اشعار، اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں:
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
۔۔۔۔ اندیشہ ہائے دور دراز اور آرائشِ جمال کے تصورات موجودہ دور کی شاعری سے تو دور ہوتے چلے جارہے ہیں، ایک طویل قطار ایسے شعراء کی دیکھنے کو ملتی ہے جو یکطرفہ محبت میں وہ خوبصورتی تلاش نہیں کرسکتے، جو اس مختصر سی نظم میں دیکھنے کو مل گئی۔۔۔ آپ کا اندازِ بیان اور اظہار کا سلیقہ دونوں قابلِ تعریف ہیں لیکن کس حد تک؟ وہ حد میرے خیالات کی وسعت سے کہیں دور ہے۔۔۔ سو گفتگو کا سلسلہ یہیں تمام کرتے ہیں!
 
محترمی تاخیر پہ معذرت ،ہماری عید کی چھٹیاں آج سے شروع ہوئی ہیں ۔آپ کو عید الاضحیٰ کے موقع پر میری طرف سےدلی مبارکباد۔
میں حکم کی تعمیل میں بے لاگ تبصرہ پیش کردوں گا مگر مثل مشہور ہے:اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا : لہذا کچھ اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہوں ،کچھ اور لوگ بھی یہ کام کر رہے ہوں تو ایک دوسرے سے تقویت ملے ،مگر جب ایسا نہیں ہے تو خود اپنی باتیں گستاخی لگنے لگتی ہیں ۔آپ بھی کہ جوکبھی زور و شور سے یہ کام کرتے تھے اب نہ اصلاح سخن میں ہی تشریف لاتے ہیں نہ ادھر ہی کسی کہنہ مشق کی کاوشوں کا تجزیہ کرتے ہیں ،یوں کام کیسے آگے بڑھے گا،مجھے تو آپ سے ابھی بے لاگ لکھنے کی شائستگی بھی سیکھنی ہے۔
آپ نے کچھ لوگوں کو یاد کیا ہے انھیں ٹیگ کر دیتا ہوں ۔دیکھیں وہ کیا فرماتے ہیں ،پھر خود بھی حاضر ہو جاؤں گا۔
عزیز مکرم یاسر صاحب: والسلام علیکم اور عید مبارک!
آپ کی ساری شکایات بجا ہیں اور کیا کہا جائے۔ میں یہاں نووارد ہوں اوریہاں کے ماحول سے اب تک مانوس نہیں ہو سکاہوں۔ ہر جگہ کی طرح یہاں بھی ادب و شعر کا چرچا :بقدر بادام: ہی ہے ۔ اصلاح تو بڑی چیز ہے یہاں تو اظہار خیال کے مواقع بھی خال خال ہیں۔ آپ میری اصلاح کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈرتا ہوں کہ :چھوٹا منھ اور بڑی بات: نہ ہو جائے ۔ یہاں کے :شعرا ئے کرام : کو فی الوقت میری اصلاح کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے لئے انھیں کافی وقت چاہئے۔رہ گئے کہنہ مشق شاعر تو وہ :پردہء خفا :میں ہیں ۔ آپ اگر ان کی نشاندہی کردیں تو ممنون کرم ہوں گا۔ کام آگے بڑھے گا اس وقت جب وہ شروع ہو گا ۔ آپ خود دیکھیں کہ تخلیق کو ڈیڑھ سو افراد دیکھتے ہیں اور اس پر نہایت مختصر اظہار خیال (عام طور پر ایک لفظ یا ایک جملے میں)ایک یا دو مہربان کرتے ہیں۔ ایسے کہیں کام ہوا کرتاہے؟ اظہار خیال تو ہر ایک کر سکتا ہے اور اس کو کرنا بھی چاہئے۔ تحصیل علم کا یہ بھی اک طریقہ ہے۔ اور کیا کہوں ۔ بہر حال کچھ اور انتظار کرتے ہیں۔ پھر دیکھیں گے۔
 
ماشاء اللہ
ماشاء اللہ
کیا کہنے ڈھیروں داد و تحسین🌟🌟🌟🌟🌟
عزیزہ سیما: سلام اوردعا
داد کا شکریہ ۔ اگر ذرا سی زحمت اور اٹھا کر چند جملوں میں اپنے خیالات اور تاثرات کا بے تکلف اظہار بھی کر دیا ہوتا تو اور کچھ ہوتا یا نہ ہوتا کم از کم میری ہمت افزائی ضرور ہو جاتی۔ معلوم نہیں کہ ہمارے یہاں لکھنے سے لوگ کیوں گھبراتے ہیں۔ لکھئے اور بے لاگ لکھئے۔ یہ بھی علم بڑھانے کا ذریعہ ہے اور ہر شخص کی رائے بیش قیمت ہے۔ آپ نے یہ مصرع ضرور سنا ہوگا : جو ذرہ جس جگہ ہے ، وہیں آفتا ب ہے: اور یہ بالکل صحیح ہے۔ سو لکھیں اور کسی چیز کی پروا نہ کریں۔ لکھتے لکھتے بہتری بھی آتی جائے گی انشا اللہ اورہچکچا ہٹ کم ہوتی جائے گی۔ شکریہ
 
نظم کیا ہے، صرف ایک احساس، ایک خیال اور وارداتِ قلبی کا اظہار ہے۔ اس میں کسی مکالمے کا ذکر یا محبوب کی جانب سے کسی مہم جوئی کا ذکر بھی نہیں ملتا، اور آخر کے اشعار، اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں:
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
۔۔۔۔ اندیشہ ہائے دور دراز اور آرائشِ جمال کے تصورات موجودہ دور کی شاعری سے تو دور ہوتے چلے جارہے ہیں، ایک طویل قطار ایسے شعراء کی دیکھنے کو ملتی ہے جو یکطرفہ محبت میں وہ خوبصورتی تلاش نہیں کرسکتے، جو اس مختصر سی نظم میں دیکھنے کو مل گئی۔۔۔ آپ کا اندازِ بیان اور اظہار کا سلیقہ دونوں قابلِ تعریف ہیں لیکن کس حد تک؟ وہ حد میرے خیالات کی وسعت سے کہیں دور ہے۔۔۔ سو گفتگو کا سلسلہ یہیں تمام کرتے ہیں!
مکرمی شاہد صاحب: والسلام
خط کے لئے ممنون ہوں ۔ آپ کی تحریر بھول بھلیاں کی ایک مختصر شکل ہے یعنی بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی ۔ صاف صاف لکھنے میں کیا ہرج ہے؟ بہر کیف یہی کیا کم ہے کہ آپ نے اتنا لکھنے کی بھی زحمت گوارا کی۔ میں اس خیال کا ہوں کہ لکھنا اور اظہار رائے نہایت ضروری ہے او ر ہر ایک کے خیال کی اہمیت ہے ۔ کوئی بات غیر اہم نہیں ہوتی صرف اس کے پیچھے سنجیدہ اور تعمیری فکر ضروری ہے۔ امید ہے آپ لکھتے رہیں گے۔ ہر شعبہ میں فلاح اور ترقی نقد و نظر سے ہی ہوتی ہے۔ آپ نے :موجودہ دور کی شاعری: کا ذکر کیا ہے سو یہ شاعری کہاں ہورہی ہے؟ جو صورت حال ہے وہ مایوس کن ہے۔ لوگ زبان وبیان پر وہ مشق ستم کر رہے ہیں اور اسے ادب وشعر کا نام دے رہے ہیں کہ حیرت نہیں افسوس ہوتا ہے۔ تفصیل سے لکھوں گا تو لوگ خفا ہو جائیں گے۔ آپ کی نوازش کا دلی شکریہ۔
 

سیما علی

لائبریرین
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
حسن بھی راز اور عشق بھی راز ۔۔۔ پر پھر بھی یہ عقدہ کھل ہی جاتا ہے ۔۔
کیو ں نہ کھلے عشق کا رنگ اتنا ہی چوکھا ہے کہ چڑھ کر ہی رہتا ہے ۔۔
بہت خوبصورت انداز ِ بیان ہے ۔۔ہم بھلا آپکی طر ح اسقدر دل آویز انداز کہاں سے لائیں !!کوشش کریں گے ۔آپکے معیار پر ہورے اُتریں ۔۔
اس سے ہمیں یہ یاد آگیا
۔۔۔۔۔۔۔
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز

مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز

اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رندِ شاہد باز

 
حسن بھی راز اور عشق بھی راز ۔۔۔ پر پھر بھی یہ عقدہ کھل ہی جاتا ہے ۔۔
کیو ں نہ کھلے عشق کا رنگ اتنا ہی چوکھا ہے کہ چڑھ کر ہی رہتا ہے ۔۔
بہت خوبصورت انداز ِ بیان ہے ۔۔ہم بھلا آپکی طر ح اسقدر دل آویز انداز کہاں سے لائیں !!کوشش کریں گے ۔آپکے معیار پر ہورے اُتریں ۔۔
اس سے ہمیں یہ یاد آگیا
۔۔۔۔۔۔۔
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز

مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز

اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رندِ شاہد باز

عزیزہ سیما : والسلام
آپ نے بہت اچھا کیا کہ پھر لکھا۔ اسی طرح لکھتی رہئے۔ پڑھئے، سوچئے اور اپنے خیالات کو تنقید یا کم از کم بے تکلف اظہار رائے کا ذریعہ بنائیے۔ وقت کے ساتھ مطالعہ کا معیار بلند کرنے کی کوشش جاری رکھئے۔ اچھی کتابیں اور رسالے بہت اچھے دوست ہو تے ہیں اور کبھی دغا نہیں دیتے۔ غالب اور اگر مزید شوق ہو تو اقبال کو سمجھ سمجھ کر پڑھیں، کچھ سمجھ میں آئے گا اور کچھ نہیں۔ کوئی بات نہیں۔ یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے ۔ آپ کی محنت اور شوق کا دلی شکریہ ۔ اللہ آپ کو صاحب اقبال بنائے۔
 

سیما علی

لائبریرین
عزیزہ سیما : والسلام
آپ نے بہت اچھا کیا کہ پھر لکھا۔ اسی طرح لکھتی رہئے۔ پڑھئے، سوچئے اور اپنے خیالات کو تنقید یا کم از کم بے تکلف اظہار رائے کا ذریعہ بنائیے۔ وقت کے ساتھ مطالعہ کا معیار بلند کرنے کی کوشش جاری رکھئے۔ اچھی کتابیں اور رسالے بہت اچھے دوست ہو تے ہیں اور کبھی دغا نہیں دیتے۔ غالب اور اگر مزید شوق ہو تو اقبال کو سمجھ سمجھ کر پڑھیں، کچھ سمجھ میں آئے گا اور کچھ نہیں۔ کوئی بات نہیں۔ یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے ۔ آپ کی محنت اور شوق کا دلی شکریہ ۔ اللہ آپ کو صاحب اقبال بنائے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔۔۔
 

ارشد رشید

محفلین
الف عین
محمد وارث
محمد احسن سمیع راحلؔ
ارشد رشید

اصلاح سخن سے بھی احباب کو خاص دعوت دی جاتی ہے کہ آئیں اور بے لاگ لکھیں کہ شاعر کو : میسنا فنکار: نہ ہونا چاہیے۔
محمد عبدالرؤوف
اشرف علی
مقبول
شاہد شاہنواز
جناب یاسر صاحب - میں سرور صاحب کے کلام پر براہ راست تبصرہ نہیں کرتا کیونکہ مجے اندازہ ہو ا تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں - مگر آپ نے نام لے کر بلایا ہے تو کچھ عرض کرتا ہوں آپ کے لیے - راز صاحب کا اس سے متفق ہونا ہر گز ضروری نہیں -

نظم کا موضوع بہت تو بہت ہی عام اور پرانا خیال ہے ، مگر اسے اچھے طریقے سے پیش کیا گیا ہے -
اپنی آسانی کے لیے اسے میں نے بند میں تقسیم کر لیا ہے -

رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
== یہ پہلا بند بہت خوبصورت ہے اور پڑھنے میں لطف دیتا ہے - بس میرے نزدیک پہلا مصرعہ واؤ عطفی کے بغیر زیادہ جامع لگتا
رنگ خوشبو، شباب رعنائی
دوسرا مصرع عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی میں عشوہ کے فورا بعد ناز مجھے اس لیے اچھا نہیں لگا کہ عشوہ کا پہلا مطلب ہی ناز ہے گویا ایسے ہی جیسے کہنا سیاہ و کا لا
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
خود تما شا ہے ، خود تماشائی
== یہاں پر میری سمجھ کا قصور ہے - بے نیاز شخص تماشائی کیسے ہوسکتا ہے - وہ اسی لیے تو بے نیاز ہے کہ اس تماشے سے کوئی غرض نہیں - مگر ہو سکتا ہے کوئ بات ہو اس میں جو میں نہ سمجھ پایا -

تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
== یہاں بھی بس مجھے بھرتی کا لگ رہا ہے - تیری اک نگاہِ الفت کا ، سے بات پوری ہوجاتی ہے :بس: کا کیا محل ہے ؟
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
== بہر احترام کیا ہوتا ہے؟ - با احترام تو اصطلاح ہوتی ہے - شاید میرہی کم علمی ہے -
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
== پئے کا لفظ بھی اب استعمال نہیں ہوتا تو اب اسکا استعمال کلا م کو غیر فصیح کرتا ہے -
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
تو ُاُدھر محوِ بزم آرائی
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
== یہ بھی سمجھ نہیں آسکا - عشق کا مجبور ہونا اور حسن کا ہرجائی ہونا کسی کی محرومی کیسے ہو سکتی ہے ؟ ٰ یہاں تو ہونا تھا کہ میری مجبوریاں تو دیکھ میرے مسئلے تو دیکھ مگر میری محرومیاں کا کیا موقع ہے ؟؟
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
----------
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
== باقی یہ تو سمجھ نہیں آسکا
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
== یہ آخر میں غالب بہت اچھا ملایا ہے -
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یاسر شاہ بھائی، اظہارِ خیال کے لیے مدعو کرنے کا شکریہ۔ میں تو اس کا بھی اہل نہیں ہوں کہ اپنا کلام غلطیوں سے بچا سکوں کجا کہ اساتذہ کے کلام پر تنقیدی جائزہ پیش کروں۔ لیکن تعمیلِ ارشاد کی خاطر کچھ بیان کیے دیتا ہوں لیکن یہ ہرگز تنقید نہیں بلکہ اس نظم کو پڑھنے پر میں نے کیا محسوس کیا ہے صرف وہی بیان کر سکتا ہوں۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس مشاہیرِ فن کی کوئی مثال بھی نہ ہو گی۔

سرور عالم راز صاحب، سب سے پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ یہ نظم مجموعی طور پر اچھی لگی۔ جس کے لیے داد و تحسین قبول فرمائیے۔

رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
خود تما شا ہے ، خود تماشائی
بے نیاز حسینہ پر یہ لائینیں خوبصورت ہیں اور ایک سماں باندھ رہی ہیں۔ یہ لائینیں ایک شاعر کی خود کلامی کے الفاظ محسوس ہوتے ہیں۔
تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا
لیکن یہاں سے "تیری" سے یکلخت ضمیر مخاطب در آئی۔
اور "بس" کے حوالے سے ارشد رشید کی بات بھی قابلِ غور ہے۔
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
تو ُاُدھر محوِ بزم آرائی
پھر ان لائنوں نے دوبارہ سے ایک سماں سا باندھ دیا۔ لیکن آخری لائن کے "تو" کی بجائے "وہ" کا محل محسوس ہوتا ہے۔ لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ غالب کے مصرعوں کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
یہ دو لائنیں نظم کو اپنے عنوان سے بھٹکاتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ کیونکہ یہاں پر یہ تأثر مل رہا ہے کہ جیسے شاعر اندیشوں کے بجائے اپنی محرومیوں کا رونا رو رہا ہو۔
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
----------
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
نظم کا اختتام بھی خوبصورت ہے۔
کوئی گستاخی ہوئی ہو تو معاف فرمائیے گا۔
 
جناب یاسر صاحب - میں سرور صاحب کے کلام پر براہ راست تبصرہ نہیں کرتا کیونکہ مجے اندازہ ہو ا تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں - مگر آپ نے نام لے کر بلایا ہے تو کچھ عرض کرتا ہوں آپ کے لیے - راز صاحب کا اس سے متفق ہونا ہر گز ضروری نہیں -

نظم کا موضوع بہت تو بہت ہی عام اور پرانا خیال ہے ، مگر اسے اچھے طریقے سے پیش کیا گیا ہے -
اپنی آسانی کے لیے اسے میں نے بند میں تقسیم کر لیا ہے -

رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
== یہ پہلا بند بہت خوبصورت ہے اور پڑھنے میں لطف دیتا ہے - بس میرے نزدیک پہلا مصرعہ واؤ عطفی کے بغیر زیادہ جامع لگتا
رنگ خوشبو، شباب رعنائی
دوسرا مصرع عِشوہ و ناز و حسن و زیبائی میں عشوہ کے فورا بعد ناز مجھے اس لیے اچھا نہیں لگا کہ عشوہ کا پہلا مطلب ہی ناز ہے گویا ایسے ہی جیسے کہنا سیاہ و کا لا
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
خود تما شا ہے ، خود تماشائی
== یہاں پر میری سمجھ کا قصور ہے - بے نیاز شخص تماشائی کیسے ہوسکتا ہے - وہ اسی لیے تو بے نیاز ہے کہ اس تماشے سے کوئی غرض نہیں - مگر ہو سکتا ہے کوئ بات ہو اس میں جو میں نہ سمجھ پایا -

تیری بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
== یہاں بھی بس مجھے بھرتی کا لگ رہا ہے - تیری اک نگاہِ الفت کا ، سے بات پوری ہوجاتی ہے :بس: کا کیا محل ہے ؟
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
== بہر احترام کیا ہوتا ہے؟ - با احترام تو اصطلاح ہوتی ہے - شاید میرہی کم علمی ہے -
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
== پئے کا لفظ بھی اب استعمال نہیں ہوتا تو اب اسکا استعمال کلا م کو غیر فصیح کرتا ہے -
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
تو ُاُدھر محوِ بزم آرائی
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
== یہ بھی سمجھ نہیں آسکا - عشق کا مجبور ہونا اور حسن کا ہرجائی ہونا کسی کی محرومی کیسے ہو سکتی ہے ؟ ٰ یہاں تو ہونا تھا کہ میری مجبوریاں تو دیکھ میرے مسئلے تو دیکھ مگر میری محرومیاں کا کیا موقع ہے ؟؟
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
----------
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
== باقی یہ تو سمجھ نہیں آسکا
تو اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
== یہ آخر میں غالب بہت اچھا ملایا ہے -
مکرمی رشید صاحب: تسلیمات ! آپ نے بظاہر یاسر صاحب کو اپنے خط میں مخاطب کیا ہے لیکن بباطن خطاب مجھ سے ہی ہے کیونکہ نظم میری ہے اور کوئی دوسرا آپ کی تحریر کا جواب دینے کا مجاز نہیں ہو سکتا۔ ابتدا ہی میں آپ کی ایک غلط فہمی دور کردوں توبہتر ہے۔ ادبی اور فنی سطح پر آپ یقینا میری نظم پر لکھنے پر قادر ہیں۔ خیالات میں اختلاف ہونا فطری بات ہے اور اس اختلاف کی نوعیت ، معیار اور قیمت فریقین کی استعداد ،تجربہ اور ادبی پس منظر وغیرہ پر ہوتی ہے ۔ اس میں ذاتیات کا دخل نہیں اور کسی قسم کی مخاصمت کا مطلق کوئی سوال نہیں۔ بات منطق ، دلائل اور نظائر کی بنیاد پر ہونی چاہئے اور آخر کار باہمی مفاہمت اور خوش دلی پر ہی :انجام بخیر: ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی صورت کم از کم مجھے قبول نہیں۔ بات مدلل اور بے لاگ کروں گا البتہ ایسی گفتگو میں بعض اوقات الجھن پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ دو اشخاص ایسی بحث میں گرفتار ہیں جس کے ادبی پہلو تو ہیں ہی لیکن نفسیاتی لاگ سے بھی مفر نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کہیں آپ کو گستاخی نظر آئے تو چشم پوشی کی گذارش ہے۔ میں آپ کی دانستہ دلآزاری کا خیال بھی نہیں کر سکتا ۔ الحمد للہ !
صادق ہوں اپنے قول میں غالب ، خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
آپ کے تبصرہ سے جو تاثر بنتاہے وہ یہ ہے کہ آپ کا زور قلم نظم میں ایسی باتیں تلاش کرنے میں صرف ہوتا ہے جن پر غلطی کا ٹھپہ لگایا جا سکے۔ غلطی ہر ایک سے ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے ۔ہاں بڑی اور اہم ادبی وفنی غلطیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ آپ نے نظم کے مرکزی خیال کا ذکر کیا ہے سو اب دو تین سو سال اور لاکھوں شعرا کے بعد شاید ہی کوئی خیال نا در و منفرد بچا ہوگا ۔ اس میں ہرج نہیں جب تک کہ انداز بیان اس میں انفرادیت کا جوہر پیدا کر سکتا ہے۔ آپ نے واو عطف سے متعلق جو لکھا ہے وہ آپ کی رائے ہے۔ رنگ اور خوشبو، شباب اور رعنائی کا فطری ساتھ اور ربط ہے اور اسی طرح یعنی عطفی شکل میں زیادہ دلکش بھی ہیں۔ اسی طرح آپ نے عشوہ و ناز کے بارے میں جو لکھا ہے وہ بھی اعتراض برائے اعتراض کی صورت ہےورنہ دو ہم معنی یا مترادف الفاظ کا متواتر استعمال تو نہایت عام ہے۔ غالب کا ایک شعر پیش خدمت ہے:
بلا سے ہیں جو بہ پیش نظر در و دیوار ++++نگاہ شوق کو ہیں :بال و پر: دَرو دیوار
آپ کو :بس: بھرتی کا لگتا ہے، بظاہر آپ ایسے تجربے سے نہیں گزرے جب کوئی بیک وقت: تماشہ او رتماشائی: دونوں ہو سکتا ہے، :پئے: کا لفظ آپ کے نزدیک متروک ہے حالانکہ غالب ایک ہی غزل کے دو اشعار میں اسے باندھتے ہیں۔ایک شعر لکھتا ہوں، دوسراآپ تلاش کر لیں:)پئے: ذریعہ، وسیلہ کے حوالہ سے مستعمل ہے)۔:
چشم پرواز و نفس خفتہ، مگر ضعف امید++++ شہپرِ کاہ پئے مژدہ رسانی مانگے
آپ کو :بہر احترام: پر حیرت اور اعتراض ہے۔ اور خادم کو آپ کی اس لا علمی پر! کیا آپ نے غالب کو نہیں پڑھا؟
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئے ہم مصوری ++++تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے
آپ ضرورت شعری سے بھی ناواقف معلوم ہوتے ہیں۔ ایک جگہ دیکھا تھا کہ:راہ گذر: کو آپ مذکر بتا رہے تھے۔ گستاخی معاف ، آپ قلت مطالعہ کا شکار ہیں۔ مطالعہ کو وسعت دیجئے اور معیاربلند کیجئے تو بیشتر اوہام درست ہو جائیں گے ۔ شاعری میں ہر چیز لغوی نہیں ہوتی۔ اس میں معنی آفرینی ضروری ہے اور اس کی خاطر کہیں کہیں الفاظ کو ان کے وسیع تر معنی میں لینا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں اب اور وقت و محنت لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے نظم دیکھی اور یہ میرے لئے باعث مسرت ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
 
Top