محترمی السلام علیکم
آپ کی نظم غور سے پڑھی اور اس پہ تبصرے بھی پڑھے اور آپ کے جوابات سے بھی محظوظ ہوا -ارشد رشید صاحب اور عبد الرؤوف بھائی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے میری ترغیب پر بیلاگ تبصرہ کیا،اوراپنے تبصرے کو میری ترغیب سے منسوب کیا-
آپ نے نظم کا پس منظر بیان فرمایا ہے کہ کس تاثر کے تحت یہ نظم لکھی گئی ہے ،ضرور اس میں کوئی مصلحت ہوگی مگر میرے خیال سے اس پس منظر کے بیان سے قاری کا دائرہ نگاہ محدود ہو کے رہ جاتا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے میں اس قدر آزاد نہیں رہتا کہ جتنا آزاد وہ بغیر کسی پس منظر کے رہ سکتا تھا اور معاملہ اگر حسین دوشیزہ کا ہو جو دنیا و مافیہا سے بے خبر زلفیں سنوار رہی ہو تو اور بھی حسّاس ہو جاتا ہے ،ہو سکتا ہے کچھ دل جلے یہ بھی سوچ رہے ہوں کہ نظم پیش ہی کرنے کی ضرورت کیا تھی کوئی ویڈیو کلپ ریکارڈ کر کے پیش کر دی جاتی تاکہ سب محظوظ ہوتے نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری، نہ نظم ہوتی نہ اس پہ بیلاگ لکھنے کا ٹنٹا-
تفنن پہ معذرت ،کیا کروں آج کل اسی طرز پہ سوچا جا رہا ہے وائرل ویڈیوز دیکھی جا رہی ہیں، ایسی کلاسیکی نظمیں کون پڑھتا ہے بقول غالب :
کون سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
قاری آپ کے بیان کردہ خوبصورت پس منظر سے پیچھا چھڑا نہیں پاتا چنانچہ ان مقامات پہ چونکتا ہے -
دور سے دیکھ دیکھ کر نقشہ کھینچتے کھینچتے شاعر اچانک مخاطب کیسے ہوگیا -
پہلی ہی نظر میں عشق کیونکر ہو گیا -
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پس منظر بیان نہ ہوتا تو کیا یہ دونوں سوال رہتے -میرے خیال سے :عشق: کے استعمال کا پھر سوال نہ اٹھتا لیکن نظم کی ہیئت کو دیکھتے ہوئے میری ذوقی رائے ہے کہ پہلا سوال پھر بھی اٹھتا -اس سوال کا جواب جاننے کے لیے آخر میں ایک ذوقی تجربہ کروں گا -
نظم دیکھتے ہیں :
خوبصورت شعر لیکن بندے کی ناقص رائے ہے کہ دوسرا مصرع ایک طویل مرکب بن کے رہ گیا ہے ،پہلے مصرع ہی کی طرز میں یوں کہا جاتا تو بہتر تھا :
عِشوہ و ناز ، حسن و زیبائی
میری ناقص رائے میں نہ :عشوہ و ناز: مترادفات ہیں نہ: بال و پر: اگر مترادفات ہوتے تو ان کا استعمال وزن پورا کرنے کے لیے نقص شمار ہوتا کہ ہر دوسرا لفظ محض خانہ پری اور بھرتی ہوتا -اور کہیں عربی صرف و نحو کا قاعدہ نظر سے گزرا کہ مرکبات عطفی (بال و پر ،عشوہ و ناز وغیرہ )میں حرف عطف یعنی :و : مغایرت کے لیے آتا ہے ،یوں کہیں تو شاید غلط نہ ہو کہ دو غیروں میں جوڑ پیدا کرنے کے لیے ایسے مرکبات میں :و : لایا جاتا ہے -عشوہ و ناز اساتذه کے ہاں بھی مستعمل ہے -
عشوہ و ناز و ادا سے کسو کو پھر کیا کام
جی نہ بے چین رہا کرتا نہ دل بے آرام
میر تقی میر
عشوہ و ناز ترا ہم سے یہی کہتا ہے
نہیں کرتے جو کبھی تیر خطا ہم ہی ہیں
مصحفی غلام ہمدانی
----------------
واہ بہت خوب -ہر لفظ گویا تیر ہے جو ٹھیک نشانے پہ بیٹھا ہے -
یہاں میں ارشد رشید صاحب سے خود کو متفق پاتا ہوں ان کے لکھنے سے پہلے یہ نکتہ میرے ذہن میں بھی تھا -بےنیاز بھی اور پھر تماشائی بھی -ذوق میں کچھ کھٹک ضرور ہے لیکن کچھ اتنی زیادہ بھی نہیں -اسی طرح ہلکی سی کھٹک :خود: کا دو بار استعمال بھی پیدا کر رہا ہے -میں دوسرا مصرع شاید یوں کہتا :
ہے تماشا بھی خود تماشائی
یہاں بھائی عبد الرؤف کے اٹھائے نکتے سے متفق ہوں اور ان کے لکھنے سے پہلے بھی میرا یہ خیال تھا کہ :تیری: کچھ عجیب لگ رہا ہے -باقی :بس: کا استعمال بھرتی کا مجھے محسوس نہیں ہوتا -
یہاں :پئے پذیرائی: میں صوتیت کی کچھ ناگواری ہے -
واہ -
آخری بند میں :خود ہی اپنی شکست کی آواز: کے جوڑ کا مصرع اگرچہ خوبصورت ہے مگر دوسرے مصرع سے مطلوبہ ربط پیدا کرنے سے قاصر محسوس ہوتا ہے -غالب کہتے ہیں :
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
دوسرے مصرع میں :آواز : کے استعمال سے پہلے وہ :نغمہ: اور :ساز : کے استعمال سے فضا کو سازگار بناتے ہیں جبکہ آپ نے ایسا کوئی تکلف نہیں کیا -
مجموعی طور پہ نظم غالب کے رنگ کو شعوری طور پر اپنانے کی، خصوصا خوبصورت لفظوں کے چناؤ کے لحاظ سے ، ایک کامیاب کوشش ہے اور آپ کے لفظوں کو برتنے کی خوش سلیقگی کی آئینہ دار -
آخر میں ایک ذوقی تجربہ پیش کروں گا -اسے محض ایک تجربہ سمجھا جائے اپنے ابتداء میں اٹھائے سوال کے جواب کے طور پر اور آپ سے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ نظم کی اس شکل میں کیا کیا نقائص اور قباحتیں ہیں :
اندیشے
رنگ وخوشبو، شباب و رعنائی
عِشوہ و ناز ،حسن و زیبائی
ہر تبسم طلسم ِ ہوش رُبا
ہر اَدا دُشمن ِ شکیبائی
بے نیازی سی بے نیا زی ہے!
ہے تما شا بھی خود تماشائی
اس کی بس اک نگاہِ اُلفت کا
اِک زمانہ ہوا ہےسودائی
ہر نظر بہرِ احترامِ حُسن
اُٹھ رہی ہے پئے پذیرائی
دِل ہے بے تاب و بے سُکون اِدھر
وہ اُدھر محوِ بزم آرائی
میری محرومیاں کوئی دیکھے
عشق مجبور، حُسن ہر جائی
قلبِ مُضطر، نگاہِ آوارہ
بَن نہ جائیں دلیلِ رُسوائی
----------
کُشتہ ء راز ہائے ناز و نیاز
:خود ہی اپنی شکست کی آواز
وہ اور آرائشِ خم ِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :
================
حالا
آپ کی دیگر شعری و نثری نگارشات کا منتظر
یاسر