کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک نظم جس کا عنوان ہے
جھنجھلاہٹ۔۔ Frustration
اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔
بحر ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔
اس نظم میں انسانی جھنجھلاہٹ اور بے بسی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔خالی ذہن کیسے عجیب خیالوں کو نہ صرف جگہہ دیتا ہے بلکہ انھیں کہاں کہاں تک لے جاتا ہے۔ اور اس مخلوق یعنی انسان کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اس سے کیا کیا دعوے کروا سکتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں۔
شکریہ
جھنجھلاہٹ۔۔ Frustration
اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔
بحر ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔
اس نظم میں انسانی جھنجھلاہٹ اور بے بسی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔خالی ذہن کیسے عجیب خیالوں کو نہ صرف جگہہ دیتا ہے بلکہ انھیں کہاں کہاں تک لے جاتا ہے۔ اور اس مخلوق یعنی انسان کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اس سے کیا کیا دعوے کروا سکتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں۔
*******............********............********
میں جھنجھلا کر یہ اکثر سوچتا ہوں ایسا ممکن ہے
یہ اپنی بے بسی صغریٰ قیامت میں بدل ڈالوں
کشش حاوی زمیں پر ہے ، تو جاؤں میں خلاؤں میں
وہاں سے ڈال کر رسی ، میں دنیا کھینچ لے جاؤں
گھما کر اپنے سر پر زور سے یا اِس کو دوں گردش
میں نیلے آسماں کا کانچ توڑوں، اُس کو بکھراؤں
وہ سورج اتنا روشن بھی نہیں، جتنا وہ لگتا ہے
میں چاہوں تو تمازت ہاتھ رکھ کر اس کی گہناؤں
یہ سب لگتا ہے جتنا، اتنا مستحکم نہیں شاید
نظام شمسی میں ٹھوکر سے برپا کھلبلی کر دوں
جگہ اس چاند کی بدلوں، یہ سورج تھوڑا سرکاؤں
گھماکر دیر تک دنیا کو الٹا، وقت لوٹا دوں
خیالوں میں یہ سب کر کے، جرح کرتا ہوں میں خود سے
کروں ایسا تو یہ امکان شاید سچ بھی ہو جائے
پرانے ڈھرّے پر چلتی ہوئی فرسودہ دنیا میں
نئے اوقات ہوں دن کے ،نئی طرز پزیرائی
نئے انداز سے دنیا کا کاروبار چلتا ہو
اگر ایسا کروں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ زائچے
بنیں پھر سے نئے سب کے، نئی قسمت لکھی جائے
نئے انسان پیدا ہوں نئی فطرت کے مظہر ہوں
میں مخلوقات میں "اشرف" ہوں، ایسا کر بھی سکتا ہوں
میں اکثر سوچتا ہوں، "ہاں کسی دن یہ تو ممکن ہے!"
سیّد کاشف
*******............********............********
آپ سب احباب کے تبصروں کا منتظر رہونگا۔میں جھنجھلا کر یہ اکثر سوچتا ہوں ایسا ممکن ہے
یہ اپنی بے بسی صغریٰ قیامت میں بدل ڈالوں
کشش حاوی زمیں پر ہے ، تو جاؤں میں خلاؤں میں
وہاں سے ڈال کر رسی ، میں دنیا کھینچ لے جاؤں
گھما کر اپنے سر پر زور سے یا اِس کو دوں گردش
میں نیلے آسماں کا کانچ توڑوں، اُس کو بکھراؤں
وہ سورج اتنا روشن بھی نہیں، جتنا وہ لگتا ہے
میں چاہوں تو تمازت ہاتھ رکھ کر اس کی گہناؤں
یہ سب لگتا ہے جتنا، اتنا مستحکم نہیں شاید
نظام شمسی میں ٹھوکر سے برپا کھلبلی کر دوں
جگہ اس چاند کی بدلوں، یہ سورج تھوڑا سرکاؤں
گھماکر دیر تک دنیا کو الٹا، وقت لوٹا دوں
خیالوں میں یہ سب کر کے، جرح کرتا ہوں میں خود سے
کروں ایسا تو یہ امکان شاید سچ بھی ہو جائے
پرانے ڈھرّے پر چلتی ہوئی فرسودہ دنیا میں
نئے اوقات ہوں دن کے ،نئی طرز پزیرائی
نئے انداز سے دنیا کا کاروبار چلتا ہو
اگر ایسا کروں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ زائچے
بنیں پھر سے نئے سب کے، نئی قسمت لکھی جائے
نئے انسان پیدا ہوں نئی فطرت کے مظہر ہوں
میں مخلوقات میں "اشرف" ہوں، ایسا کر بھی سکتا ہوں
میں اکثر سوچتا ہوں، "ہاں کسی دن یہ تو ممکن ہے!"
سیّد کاشف
*******............********............********
شکریہ
آخری تدوین: