کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک نئی نظم کے ساتھ حاضر ہوں۔
نظم کا عنون ہے "خلائی اڑان" ۔
تسخیر خلاء اور چاند پر انسانی قدم ایک تاریخی واقعہ ہے۔
اس تناظر میں اجرام فلکی کس طرح تاثر دے رہیں ہیں یہ نظم ان لمحات اور تاثرات کو پیش کرتی نظر آتی ہے۔
اک اصطلاح "نوری سال" یعنی "Light Year" کا بھی استعمال کیا ہے ۔
جزاک اللہ۔
----------------------------------------
جب خلاؤں میں سفر کرنے کے جوہر جاگے
اک جہاں اور نیا پانے کے خوگر جاگے
کھول کر بندِ یقیں، قیدِ زمیں کے، انساں
صبح کو یاں سے چلے، رات قمر پر جاگے
ایک ہنگام اٹھا ، اہلِ سماوات میں تب
زحل و مرّیخ نہیں سارے ہی شَشدَر جاگے
دشتِ افلاک میں خوا بیدہ ہزاروں تارے
آنکھ ملتے ہوئے ، سب نیند سے اٹھ کر جاگے
اُٹّھا انسان کی پرواز پہ شورِ محشر
ایک سورج ہی نہیں ،سینکڑوں اختر جاگے
دشتِ تنہائی میں گم اپنے ستاروں کے مطیع
کتنے سیّارے پریشان سے شب بھر جاگے
کہکشاؤں کے بھی دل خوف سے بے حد لرزے
پائےِ آدم کے تلے آنے کے سب ڈر جاگے
دیکھنے غور سے آدم کو سفیرانِ نجم
اُن دنوں رات میں آ کر کے قمر پر جاگے
غرض ہنگامہ و کہرام کا عالم ایسا
جوں، شبِ خون پہ ، سویا ہوا لشکر جاگے
تھا کوئ راز سے واقف تو وہ مہتاب ہی تھا
کیسے اِس آدمِ خاکی میں یہ شہپر جاگے!
آسمانوں میں یہ پھر چاند نے سرگوشی کی
کس طرح مستِ گراں خواب کے تیور جاگے
"تھی اسی فکر میں، سیماب طبیعت اس کی
سوئے گر آج زمیں پر، تو فلک پر جاگے !!
تم، کہ حیران نہ ہو ،محنتیِ انسانوں پر
اس تگ و دو میں، یہ دن رات برابر جاگے
آج پہنچا ہے یہ راکٹ پہ یہاں ہو کے سوار
کل کو شاید یہ کسی اور زمیں پر جاگے !!
دوربیں سے یہ خلاؤں کو کنگھالے، اس پر
'نوری سالوں' سے پرے ہوتے وہ منظر جاگے !!
اک نئی جہد نیا کھیل ملا ہے اس کو
آج اس چاند پہ کل اور قمر پر جاگے !"
ہو گیا راز سے واقف یوں نظامِ شمسی !
اور پرے دور کے بھی سب مہہ و اختر جاگے !
آدمِ زاد سے خوش تھے تو یہ سورج اور چاند
منتظر کب سے تھے، کہ خُلد کا رہبر جاگے !
کر کے تسخیرِ خلاء اب تو یہ سرگرداں ہے
کیسے ممکن حدِ سورج سے یہ باہر جاگے ؟!
منتظر، منزلیں کتنی ہیں خلا میں، کاشف!
دیکھنا یہ ہے کہ اب کس کا مقدّر جاگے !!
سیّد کاشف
-------------------------------
شکریہ
نظم کا عنون ہے "خلائی اڑان" ۔
تسخیر خلاء اور چاند پر انسانی قدم ایک تاریخی واقعہ ہے۔
اس تناظر میں اجرام فلکی کس طرح تاثر دے رہیں ہیں یہ نظم ان لمحات اور تاثرات کو پیش کرتی نظر آتی ہے۔
اک اصطلاح "نوری سال" یعنی "Light Year" کا بھی استعمال کیا ہے ۔
جزاک اللہ۔
----------------------------------------
جب خلاؤں میں سفر کرنے کے جوہر جاگے
اک جہاں اور نیا پانے کے خوگر جاگے
کھول کر بندِ یقیں، قیدِ زمیں کے، انساں
صبح کو یاں سے چلے، رات قمر پر جاگے
ایک ہنگام اٹھا ، اہلِ سماوات میں تب
زحل و مرّیخ نہیں سارے ہی شَشدَر جاگے
دشتِ افلاک میں خوا بیدہ ہزاروں تارے
آنکھ ملتے ہوئے ، سب نیند سے اٹھ کر جاگے
اُٹّھا انسان کی پرواز پہ شورِ محشر
ایک سورج ہی نہیں ،سینکڑوں اختر جاگے
دشتِ تنہائی میں گم اپنے ستاروں کے مطیع
کتنے سیّارے پریشان سے شب بھر جاگے
کہکشاؤں کے بھی دل خوف سے بے حد لرزے
پائےِ آدم کے تلے آنے کے سب ڈر جاگے
دیکھنے غور سے آدم کو سفیرانِ نجم
اُن دنوں رات میں آ کر کے قمر پر جاگے
غرض ہنگامہ و کہرام کا عالم ایسا
جوں، شبِ خون پہ ، سویا ہوا لشکر جاگے
تھا کوئ راز سے واقف تو وہ مہتاب ہی تھا
کیسے اِس آدمِ خاکی میں یہ شہپر جاگے!
آسمانوں میں یہ پھر چاند نے سرگوشی کی
کس طرح مستِ گراں خواب کے تیور جاگے
"تھی اسی فکر میں، سیماب طبیعت اس کی
سوئے گر آج زمیں پر، تو فلک پر جاگے !!
تم، کہ حیران نہ ہو ،محنتیِ انسانوں پر
اس تگ و دو میں، یہ دن رات برابر جاگے
آج پہنچا ہے یہ راکٹ پہ یہاں ہو کے سوار
کل کو شاید یہ کسی اور زمیں پر جاگے !!
دوربیں سے یہ خلاؤں کو کنگھالے، اس پر
'نوری سالوں' سے پرے ہوتے وہ منظر جاگے !!
اک نئی جہد نیا کھیل ملا ہے اس کو
آج اس چاند پہ کل اور قمر پر جاگے !"
ہو گیا راز سے واقف یوں نظامِ شمسی !
اور پرے دور کے بھی سب مہہ و اختر جاگے !
آدمِ زاد سے خوش تھے تو یہ سورج اور چاند
منتظر کب سے تھے، کہ خُلد کا رہبر جاگے !
کر کے تسخیرِ خلاء اب تو یہ سرگرداں ہے
کیسے ممکن حدِ سورج سے یہ باہر جاگے ؟!
منتظر، منزلیں کتنی ہیں خلا میں، کاشف!
دیکھنا یہ ہے کہ اب کس کا مقدّر جاگے !!
سیّد کاشف
-------------------------------
شکریہ