محمد اظہر نذیر
محفلین
اُستادِ گرامی،
بہت دن سے کچھ ذہن میں آ رہا تھا، جیسا آیا ویسا ہی لکھ رہا ہوں- اِسے کیا نظم کہہ سکتے ہیں، اگر نہیں تو کیا کروں کہ بن جائے
والسلام
اظہر
بہت دن سے کچھ ذہن میں آ رہا تھا، جیسا آیا ویسا ہی لکھ رہا ہوں- اِسے کیا نظم کہہ سکتے ہیں، اگر نہیں تو کیا کروں کہ بن جائے
والسلام
اظہر
"اے ماں تجھے سلام"
سویرائے نو تجھے سلام
سندیسائے ضو تجھے سلام
تشکیلِ جستجو تجھے سلام
تکمیلِ آرزو تجھے سلام
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے
پر جو ثمرِ ازار ملتا ہے
جیسے گل بے بہار ملتا ہے
زندگی کو نکھار ملتا ہے
پدر بس بے قرار ملتا ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے
یہ جو گُل آج تُم نے پایا ہے
مدتوں سینچ کر بنایا ہے
محبتوں سے اِسے سجایا ہے
ساری دنیا کو پھر دکھایا ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے
اِس کے آنے کی دھیمی آہٹ ہے
کیسی پیاری سی مسکُراہٹ ہے
یہ ترے درد کا مداوا ہے
دیکھ دکھ بن گیا چھلاوا ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے
دِل یہ چاہے تجھے سلام کروں
اعلیٰ درجہ میں تیرے نام کروں
تیری اب ہر خوشی ہی منّت ہے
تیرے قدموں تلے تو جنّت ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے
سویرائے نو تجھے سلام
سندیسائے ضو تجھے سلام
تشکیلِ جستجو تجھے سلام
تکمیلِ آرزو تجھے سلام
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے
پر جو ثمرِ ازار ملتا ہے
جیسے گل بے بہار ملتا ہے
زندگی کو نکھار ملتا ہے
پدر بس بے قرار ملتا ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے
یہ جو گُل آج تُم نے پایا ہے
مدتوں سینچ کر بنایا ہے
محبتوں سے اِسے سجایا ہے
ساری دنیا کو پھر دکھایا ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے
اِس کے آنے کی دھیمی آہٹ ہے
کیسی پیاری سی مسکُراہٹ ہے
یہ ترے درد کا مداوا ہے
دیکھ دکھ بن گیا چھلاوا ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے
دِل یہ چاہے تجھے سلام کروں
اعلیٰ درجہ میں تیرے نام کروں
تیری اب ہر خوشی ہی منّت ہے
تیرے قدموں تلے تو جنّت ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
بڑی ہی تکلیف سے گزرتی ہے