ایک نظم لکھنے میں مدد چاہتا ہوں، توجہ کیجیے

جو سندیسا ملا ہے اُسکو سلام
پھول جو یہ کھِلا ہے اُسکو سلام
تری تشکیل کو پسَر ہے سلام
تری تکمیل کو جگر ہے سلام
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
کتنی تکلیف سے گزرتی ہے

ثمر جب اِس ازار کا ملتا
جیسے گل بے بہار کا ملتا
زندگی کو نکھار ہے ملتا
دیکھ جیسے سنگھار ہے ملتا
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
کتنی تکلیف سے گزرتی ہے

طفل کیسے جہان میں چہکیں
گر نہ مائیں زمان میں مہکیں
محبتوں سے اِسے سجاتی ہے
وحشتوں سے اِسے بچاتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
کتنی تکلیف سے گزرتی ہے

مسکُرانے کا ہے حسیں انداز
دھیمی قدموں کی ہے مگر آواز
ترے یہ درد کا مداوا ہے
دیکھ دُکھ بن گیا چھلاوا ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
کتنی تکلیف سے گزرتی ہے

اِس کی قلقاریاں ہنسائیں گی
اِس کی آہ زاریاں رلائیں گی
اِس کو ہر آن جو پکارو گی
اس کے صدقے بھی تم اُتارو گی
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
کتنی تکلیف سے گزرتی ہے

دِل یہ چاہے تجھے سلام کریں
اعلٰی درجہ ہی ترے نام کریں
تری اب ہر خوشی ہی منّت ہے
ترے قدموں تلے تو جنّت ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
کتنی تکلیف سے گزرتی ہے

اُستادِ محترم،
اب دیکھیے تو شائد ٹھیک ہو؟
مشکور
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
اس نظم میں اور بھی پرابلمس ہیں۔
پہلے تو ان مصارع کا مطلب بتاؤ۔۔۔
جو سندیسا ملا ہے اُسکو سلام
پھول جو یہ کھِلا ہے اُسکو سلام
تری تشکیل کو پسَر ہے سلام
تری تکمیل کو جگر ہے سلام

اس کے علاوہ
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
کتنی تکلیف سے گزرتی ہے
ٹیپ کا شعر/دو مصرعے ہیں، اس میں تکلیف اور تخلیق ہم قافیہ نہیں ہیں۔ ’گزرتی ہے‘ کیونکہ ردیف لگتی ہے، اس لحاظ سے قوافی کی ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ گزرتی کا قافیہ کر کے اس کو تبدیل کریں۔
ثمر جب اِس ازار کا ملتا
جیسے گل بے بہار کا ملتا
زندگی کو نکھار ہے ملتا
دیکھ جیسے سنگھار ہے ملتا

ثمر کا تلفظ غلط نظم ہوا ہے۔ ’اِزار‘ وزن میں آتا ہے (بمعنی پاجامہ اس کا کیا محل ہے؟ شاید مراد ’آزار‘ سے ہے، یہ وزن میں نہیں آتا۔
پہلے دونوں مصرعوں میں ’ہے‘ کی کمی ہے، تیسرے چوتھے میں الفاظ کی ترتیب درست نہیں، یندی شاعری میں اگرچہ ایسا قابل قبول ہوتا ہے، اردو میں کم از کم میں قبول نہیں کرتا۔

اِس کی قلقاریاں ہنسائیں گی
اِس کی آہ زاریاں رلائیں گی
اِس کو ہر آن جو پکارو گی
اس کے صدقے بھی تم اُتارو گی

قلقاریاں؟ میرے لئے نیا لفظ ہے۔ کلکاریاں تو سنا تھا۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے، ’آہ‘ کی ’ہ‘ وزن میں نہیں آرہی ہے۔
تیسرے چوتھے مصرعوں میں بات سمجھ میں نہیں آتی، ’جو‘ کا تعلق ’صدقے اتارنے سے کیا ہے؟

دِل یہ چاہے تجھے سلام کریں
اعلٰی درجہ ہی ترے نام کریں
تری اب ہر خوشی ہی منّت ہے
ترے قدموں تلے تو جنّت ہے
صرف چوتھا مصرع قابل قبول ہے، لیکن اس میں بھی ’تیرے‘ بحر میں آتا ہے، پہلے تینوں مصروعں کے مفہوم سمجھ میں نہیں آئے۔
 
کیسی تشکیل سے گزرتی ہے
بڑی تفصیل سے گزرتی ہے
رب کی تعمیل سے گزرتی ہے
اپنی تکمیل سے گزرتی ہے
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے

پھر سندیسا جمیل یہ لائے
کیسی ہستی شکیل یہ لائے
جیسے نعمت مثیل یہ لائے
رب کی سچی دلیل یہ لائے
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے

اس کی کلکاریاں ہنساتی ہیں
اس کی بے زاریاں رلاتی ہیں
اک نیا موڑ ہے فسانے میں
اک نیا رنگ ہے زمانے میں
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے

مسکُرانے کا ہے حسیں انداز
دھیمی قدموں کی ہے مگر آواز
ترے یہ درد کا مداوا ہے
دیکھ دُکھ بن گیا چھلاوا ہے
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے

طفل کیسے جہان میں چہکیں
گر نہ مائیں زمان میں مہکیں
محبتوں سے اِسے سجاتی ہے
وحشتوں سے اِسے بچاتی ہے
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے

کیسی بے لوث ثتیری محنت ہے
کیسی انمول تیری اجرت ہے
کیسا رتبہ ہے کیسی رفعت ہے
تیرے قدموں تلے تو جنت ہے
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے​

اُستادِ گرامی،
شرمندہ ہوں کہ میرے ساتھ آپ کو بہت وقت بتانا پڑتا ہے- کیا کروں دیر سے سمجھتا ہوں- دیکھیے تو شائد اب کچھ بہتر ہو پہلے سے
دعا گو
اظہر
 

مغزل

محفلین
دوست ، پہلے نظم کے بارے میں پڑھ تو لو کہ نظم کی ہیئت کیا ہوتی ہے ، ماتھا ، چہرہ ، بیان ، گریز، رجوع اور منتہی کیا ہوتا ہے ، نظم کا مزاج کیا ہوتا ہے ، میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سفر اچھی بات ہے مگر پہلے سمت کا تعین تو ہو، مناسب خیال کرو پہلے غزل پر عبور حاصل کرلو، آہستہ آہستہ نظم کی درک بھی ہوہی جائے گی ،یہ بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ موضوع کیا ہے ، حرمت و حفظِ مراتب کیا ہیں ، کس بات سے عیب پید ہوتا ہے اور کس سے حسن ۔۔ خیالات کا تنوع ہو یا کیفیات کا مصرعے کے سپرد کرنا دونوں ہی ضروری ہیں۔ امید ہے سعیِ لاحاصل کی بجائے اصل سمت سفر کو شعار بنالینے کے بعد منزل سہل اور قریب ہوجائے گی ۔ تمھارا دوست ، مخلص۔ م۔م۔مغل

( اجازت ہو تو میں ’’ پورسٹ مارٹم ‘‘ کروں ؟؟ ، واضح رہے اب کوئی رعایت نہ ملے گی )
 
جناب مغل صاحب،
میں ہیاں سیکھنے آیا ہوں، اگر کاوش کا پوسٹ مارٹم نہیں کریں گے تو دکھ ہو گا۔ از راہِ کرم بسم اللہ کیجیے اور کچھ سکھایے- نظم کے بارے میں کوئی لنک مل جاتا تو نوازش ہوتی
مشکور اظہر
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ محمود مغل، تم نے میری محنت اور وقت بچانے کی سوچی ہے۔میں بھی سوچ رہاتھا کہ تم بھی تو اصلاح کر سکتے ہو، اگر کہیں مشکل پڑے تو ہم نام نہاد ’اساتذہ کرام‘ ہیں ہی۔۔۔
 

مغزل

محفلین
بابا جانی ، شرمندہ نہ کیجے ، ۔ ویسے ہیں فرصت سے نظم پر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں امید ہے ، اظہر صاحب کے ساتھ مجھے بھی سیکھنے کو ملے گا۔ اظہر صاحب، فی الوقت تو بجلی جانے کا وقت ہے یہاں ، فرصت پاتے ہی عرض گزارہوں گا۔ تب تک کے لیے اجازت ۔والسلام
 

مغزل

محفلین
لیجے پہلے نظم کے بارے میں تعارف حاصل ہوجائے ۔ پھر آگے چلیں گے ۔ ٹھیک ناں ؟؟
تو پھر شروع کرتے اللہ کے بابرکت نام سے ۔ابتداء میں تعارف:

نظم (وکیپیڈیا سے)
نظم سے مراد ایسا صنف سخن ہے جس میں کسی بھی ایک خیال کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔نظم میں موضوع اور ہیئت کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہمارے ہاں نظمیں مثنوی اور غزل کے انداز میں لکھی گئی ہیں۔ جدید دور میں نظم ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے آج کئی حالتوں میں تقسیم ہو چکی ہے، جس کی چار بنیادی قسمیں ہیں:
1.پابند نظم، 2.نظم معراء،3.آزاد نظم، 4.نثری نظم ( اس سے قطع نظر کہ ا س صنف کے نام پر بھی اعتراض ہے اور بدرجہ اولیٰ قبول نہیں کیا گیا )

نظم ( اردو لائبریری سے، وکیپیڈیا اردو)
جہاں تک نظم کی ارتقاءکا تعلق ہے تو نظم کی ترقی کا دور 1857ءکے بعد شروع ہوا لیکن اس سے پہلے بھی نظم ہمیں ملتی ہے۔ مثلا جعفر زٹلی اور اور شاہ حاتم وغیرہ کے ہاں موضوعاتی نظمیں ملتی ہیں۔ لیکن ہم جس نظم کی بات کر رہے ہیں اس کا صحیح معنوں میں نمائندہ شاعر نظیر اکبر آباد ی ہے ۔ نظیر کا دور غزل کا دور تھا لیکن اُس نے نظم کہنے کو ترجیح دی اور عوام کا نمائندہ شاعر کہلایا ۔اُس نے پہلی دفعہ نظم میں روٹی کپڑ ا اور مکان کی بات کی اور عام شخص کے معاشی مسائل کو شعر میں جگہ دی ۔ اُن کے بعد 57 تک کوئی قابل ذکر نام نہیں لیکن 57 کے بعد انگریزی ادب کا اثر ہمارے ادب پر بہت زیادہ پڑا اور اس طرح انجمن پنجاب کے زیر اثر موضوعاتی نظموں کا رواج پڑا۔ آزاد اور حالی جیسے لوگ سامنے آئے نظم کو سرسید تحریک نے مزید آگے بڑھایا لیکن اس نظم کا دائرہ محدود تھا۔ موضوعات لگے بندھے اور ہیئت پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی ۔ ہاں اس دور میں ہیئت کے حوالے سے ا سماعیل میرٹھی اور عبدالحلیم شرر نے تجربات کیے لیکن انھیں اتنی زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ۔ اکبر الہ آبادی اور اسماعیل میرٹھی کے ہاں مقصدیت کا سلسلہ چلتا رہا لیکن علامہ اقبال نے نظم کہہ کر امکانات کو وسیع تر کر دیا اُس نے ہیئت کا تو کوئی تجربہ نہیں کیا لیکن اُس نے نظم کی مدد سے انسان خدا اور کائنات کے مابین رشتہ متعین کرنے کی کوشش کی اور اس طرح اس فلسفے سے نئی راہیں کھلیں انھوں غیر مادی اور مابعد الطبعیاتی سوالات اُٹھائے جس کی وجہ سے نظم میں موضوع کے حوالے سے نئے راستوں کا تعین ہوا ۔ اس کے بعد رومانیت پسند وں کے ہاں نظم آئی جن میں اختر شیرانی ، جوش ،حفیظ اور عظمت اللہ خان شامل ہیں لیکن وہ اقبال کی نظم کو آگے نہ بڑھا سکے اور محدود اور عمومی سطح کی داخلیت تک نظم کو ان لوگوں نے محدود کر دیا ۔ اس کے بعد نظم کا سفر ترقی پسند تحریک تک پہنچا ان لوگوں کے ہاں بھی ہیئت کے تجربے ہمیں نظر نہیں آتے ان شعراءمیں فیض ، مجاز ، ندیم ، ساحر وغیرہ شامل تھے۔ اس کے بعد ہمارے سامنے حلقہ ارباب ذوق کی نظم آتی ہے جن میں ن۔م راشد ، میراجی شامل ہیں انھوں نے شعوری کوشش کے ساتھ آزاد نظم کے تجربات کیے اور تہذیبی روایات ان فیض سے ہوتے ہوئے جب ان لوگوں تک آئی تو ٹوٹ گئی اور انھوں نے ایک جدید نظم کی ابتداءکی ان دونوں شعراءکی نظم پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم نظم کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں ۔ <<<مزید پڑھیں >>>
یہاں نظم کے ادوار کے حوالے سے مفصل بحث بھی شامل ہے ضرور ملاحظہ کیجے گا۔ مذکورہ ربط پر حاشیے کی ذیل میں باعنوان مکمل بحث اور تبصر ہ بھی ملے گا۔
(1 پاکستانی نظم 47 کے بعد
2 رومانی او ر انقلابی قدروں کا رجحان
2.1 جوش ملیح آبادی
2.2 فیض احمد فیض
2.3 احمد ندیم قاسمی
2.4 مصطفی زیدی
2.5 قتیل شفائی
2.6 احمد فراز
3 حلقہ اربابِ ذوق کا داخلیت پسند رجحان
3.1 ن۔ م راشد
3.2 میراجی
4 عبوری دور
4.1 مجید امجد
4.2 منیر نیازی
4.3 ڈاکٹروزیر آغا
5 جدیدیت کارجحان
6 تشکیلاتی گروپ
6.1 افتخار جالب
6.2 انیس ناگی
7 نئی نظم اور نئے موضوعات کے شعرا
7.1 جیلانی کامران
7.2 اختر حسین جعفری
7.3 ساقی فاروقی
7.4 فہمیدہ ریاض
8 مجموعی جائزہ
اردو محفل میں میراجی کی بدنام ِ زمانہ نظم بھی شامل ہے ( وہاب اعجاز صاحب نے یہاں‌پیش کی تھی ) اسے بھی لگے ہاتھوں پڑھ لیجے گا۔ ربط یہ ہے
 

مغزل

محفلین
فراز کی ایک نظم ( بشکریہ بی بی سی اردو، از حسن مجتبیٰ)
کچھ شاعر جیتے جی عظیم ہوتے ہیں۔ انکی شاعری لوک شاعری بن جاتی ہے۔ احمد فراز بھی عہد حاضر کے ایک ایسے شاعر ہیں۔ میں جب ٹین ایج میں تھا تو انکی ایک نظم "اسمگل" ہوکر پاکستان کے کونے کھدرے میں خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ پاکستان پر ضیاءالحق سوار تھے اور فراز کی اس نظم کو کوئی 'پیشہ ور قاتلوں سے خطاب' کا عنوان دیتا تھا تو کوئی کچھ اور۔میں سندھ کے صحرا میں تھا اور میرا اب نیوجرسی کا ایک دوست اکرم محمود اس وقت پنجاب میں ہوگا۔ ہم دونوں نے اپنےاپنے 'ذرائع' سے یہ نظم بچپن سے سن رکھی تھی۔ احمد فراز کی یہ نظم مجھے کبھی بھولی نہیں، کہیں کہیں دھندلی ضرور ہوگئي۔ پچھلے دن میں شاعر اکرم محمود کیساتھ بیٹھا اور ہم نے یہ نظم پھر یاد کی۔ احمد فراز کی اس نظم کے کچھ بند اسطرح ہیں:
'میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے
اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
پابہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں میں
اپنے گیتوں کی عظمت سے شرمندہ ہوں
سرحدوں نے کبھی جب پکارا تمہیں
آنسووں سے تمہیں الوداعیں کہیں
تم ظفرمند تو خير کیا لوٹتے
ہار کر بھی نہ جی سے اتارا تمہیں

جس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست وکف در دہاں آئے تھے
طوق در گردنوں پابہ جولاں گئے
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جنکا خوں منہ کو ملنے کو تم آئے تھے
مامتائوں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
انکی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
انکی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
جیسے برطانوی راج میں ڈوگرے
جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں
تم بھی ان سے ذرا مختلف تو نہیں
حق پرستوں پہ الزام انکے بھی تھے
وحشیوں سے چلن عام انکے بھی تھے
رائفلیں وردیاں نام انکے بھی تھے
آج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کے ایما پر ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کے آگے ہو تم سرنگوں غازیو
آج شاعر پہ ہی قرض مٹی کا ہے
اب قلم ميں لہو ہے سیاہی نہیں۔
آج تم آئینہ ہو میرے سامنے
پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں- '
(نامکمل)
 

مغزل

محفلین
اردو نظم ، روایت سے بغاوت تک
محمدالیاس میراں پوری ( بشکریہ ’’ اردو تحقیق ‘‘ ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام)

یوں تو جدت کا تعلق تسلسل اور کہنے والوں کی تعداد کے ساتھ ہے۔شاعری ہر بیس پچیس سال بعد اس لیے جدید ہو جاتی ہے کہ اس میں تسلسل کا عمل نہیں ٹوٹتا اور کہنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہتی ہے ۔جیسے مظہر جانِ جاناں کہتے ہیں:
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل بچا ہے
اردو نظم کا پودا دکن میں بویا گیا اور تین سوسال تک اس میں مناظر ِ فطرت ،مذہبی اور معاشرتی موضوعات پر نظمیں لکھی گئیں ۔نظم گوئی میں دکن کی تین سوسالہ شاعری کے بعداٹھارہویں صدی میں نظیر اکبر آبادی نے اس کو پروان چڑھانے میں مدد دی ۔نظیر نے اپنی نظموں میں روزمرہ کے مسائل ، رسومات، پندونصائح، طنزوظرافت اور عوامی ضرورتوں کی ترجمانی کی ۔جس کی بنا پر وہ ”شاعرِ عوام“کے لقب سے ملقب ہوئے ۔1857ء سے قبل کی نظم گوئی اپنی مروجہ ہیئت سے پہچانی جاتی ہے جو خواہ قصیدہ،مرثیہ ،مثنوی،قطعہ کی ہیئت میں ہو یا مسمط کی کسی شکل یعنی مثلث، مربع ، مخمس، مسدس ، مسبع، مثمن، مستع یا معشر ہو۔ جدید نظم کی پہچان ہیئت نہیں بلکہ فنی وحدت اور اختصار ہے۔1857ء کے بعد انگریزی اثرات نے اردو شاعری کو متاثر کیا۔ انگریزی شاعری کی نمایاں خوبی نظم نگاری ہے۔ جہاں ایک خیال کو آخر تک رکھا جاتا ہے اور اس میں کوئی فکری پہلو اور عنوان بھی ہوتا ہے ۔اردو میں اگرچہ ایسی نظمیں موجود تھیں لیکن وہ پابند نظمیں تھیں نیز ان میں فکری پہلو کم تھے ۔1857 ءکے بعد اعتقادات کے ٹوٹنے سے بے سمتی نے جنم لیا۔ انسانی زندگی کی بے توقیری نے فرد کو لامرکزیت کا شکار بنا دیا، جس نے منظم ادبی تحریک کی بجائے مختلف رجحانات کو فروغ دیا۔جو ریزہ خیالی ہمیں اردو غزل کے ہر شعر میں نظر آتی تھی ،اب ہر شاعر اس کی عملی تفسیر بن گیا۔جدید اردو نظم کے مطالعے میں ہم جن مغربی اثرات کو محسوس کرتے ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا جائزہ ”نو آبادیاتی نظام“ کے تناظر میں کیا جائے ،یہ اتنا بڑا موضوع ہے کہ اس پر پی ایچ ،ڈی کی سطح کا مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔
بیسویں صدی میں جب نظم نگاری کو ایک الگ صنف کے طور پر فروغ حاصل ہوا تو ابتدائی کوششوں میں حالی ،آزاد اور شبلی وغیرہ سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں ۔ ان بزرگوں کی کوششوں سے اردوشاعری کے دامن پر لگا یہ دھبہ دھل گیا کہ یہاں جھوٹے عشق کی جھوٹی کہانیوں اور اہل ثروت کی چاپلوسیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔حالی نے ”مسدس ِ حالی“لکھ کر اردو نظم کو مقصدیت کی طرف گامزن کیا۔حالی کا یہ تخلیقی شہ پارہ انسانی روایات کا عکاس ہے۔ آزاد اور حالی نے کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں انجمن پنجاب لاہور کی بنیاد رکھی۔ جس سے نئی نظم گوئی کا آغاز ہوا۔ انجمن پنجاب کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے مشاعروں میں مصرعہ طرح کی بجائے موضوعات ديے جاتے تھے ۔ آزاد کی نظمیں ”شب قدر“ ،”برکھا رت“،”صبح امید“اور حالی کی ”برکھا رت“،”حب وطن“ ”مناجات بیوہ“ ،اور”چپ کی داد“اسی زمانے کی یادگار ہیں۔نظم میں نئے رجحانات اور خیالات کی ترویج کے ليے مذکورہ بزرگوں کاخونِ جگر بھی شامل ہے ۔ اس مقصدی شاعری نے زبان اور ”مضمون “ دونوں سطح پر تبدیلیاں پیدا کیں۔ اس ليے ہمیں حالی ،شبلی اور آزاد کے ساتھ ساتھ اس تحریک سے متاثر کئی شاعر نظر آتے ہیں جیسے اسماعیل میرٹھی وغیرہ۔ہر پیامی شاعر کو ایک ایسے سانچے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں وہ اپنے افکار و خیالات کو ربط و تسلسل کے ساتھ بہ سہولت ڈھال سکے۔ غزل میں جو شعری تجربہ صرف اشارے کنائے میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ نظم میں اس کے تفصیلی اظہار کی گنجائش ہوتی ہے ، اس لیے ہر زبان کی پیامی شاعری کو نظم کا سہارا لینا پڑا ہے ۔ اکبر الہ آبادی بھی ہمارے پیامی شاعروں میں سے ایک ہیں اور ان کا پیام ہے ، اپنے ماضی سے رشتہ استوار رکھنے کی فرمائش۔ اکبر نے اپنی شاعری کا آغاز سنجیدہ کلام سے کیا تھا لیکن جلد ہی انھوں نے پیامی شاعر کا منصب اختیار کرلیا ۔ اکبرالہ آبادی کو تہذیب ِمغربی سے شدید نفرت تھی۔ وہ ہر اس چیز سے نفرت کرتے تھے جس میں فرنگی سامراج کی بوآتی تھی ۔ انھوں نے سرسید تحریک کی اس ليے مخالفت کی کہ وہ مغربی رنگ میں رنگی ہوئی تھی،یا پھردوسرے لفظوں میں فرنگی تہذیب کی علمبردار تھی ۔اکبر الہٰ آبادی نے طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب اختیار کرکے نہ صرف اپنی نظریات و خیالات کا اظہار کیا بلکہ نظم میں جدت پیدا کی تاکہ نظم کی کائنات میں وسعت پیدا ہوسکے :
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
لکھا پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
پیٹ چلتا ہے ، آنکھ آئی ہے
شاہ ایڈورڈ کی دہائی ہے
بیسویں صدی میں جب نظم نگاری کو ایک الگ صنف کے فروغ کے طورپر کوششیں شروع ہوئیں تو اس میں مناظر فطرت کے ساتھ ساتھ فکری پہلو کی آمیزش شروع ہوئی جس میں پہلی بار بڑے شاعر کے طور پر اقبال کی نظمیں ہیں۔ اقبال ایک پیامی شاعر تھے ۔ان کی نظم میں حرکت ،جدوجہد اور معاشرتی انسان کے احیا کا تذکرہ ہے ۔ایک جوش ،ولولہ ، جذبات اور زندگی سے بھرپور شعری دنیا ہے۔ اقبال نے اپنی نظموں سے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا ،اس کے تن مردہ میں جان ڈالی اور اس میں جہدو عمل کا جذبہ پیدا کردیا۔ اقبال نے نظم کے امکانات سے پورا فائدہ اٹھایا اور اپنے فکر و فن سے اردو نظم کو وقار عطا کیا۔اقبال نے الفاظ کے مفہوم بدل دیے۔ شاہین، مردِ مومن ،کرگس،ابلیس جیسے الفاظ کو نئے مفاہیم سے آگاہ کیا۔ ان کی طویل نظموں میں”مسجد قرطبہ“، ”شکوہ “،”جواب شکوہ“ ،”خضر راہ“، ”شمع وشاعر “،”ذوق وشوق“،”ابلیس کی مجلس شوریٰ “اور مختصر نظموں میں ”جبریل و ابلیس“ ، ”لینن خدا کے حضور میں “اور ”شعاع ِ امید “خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اقبال کے معاصرین نے بھی مقصدی شاعری کو فروغ دیا،جن میں اقبال سہیل اور چکبست قابل ذکر ہیں۔ اقبال سہیل کی اردو شاعری کے مجموعے تابش سہیل میں اگرچہ علامہ اقبال کے انداز کی سی شاعری ہے ،لیکن ان کو شہرت ان کی عربی شاعری کی وجہ سے حاصل ہوئی ۔
پنڈت برج نرائن چکبست نے اپنی نظموں میں ہندوستانیوں کو مادرِ وطن کی عظمت یاد دلائی۔ ان کا پہلا مجموعہ صبح وطن 1918ء میں شائع ہوا۔ جس میں ”قومی مسدس “ حالی کے طرز کی نظم تھی ،جس میں ہندو مذہب کی شاندار اقدار کو بیان کیا گیا۔ گویا حالی کی مقصدیت نے دوسرے شعرا کو بھی متاثر کیا۔ اس مجموعے کی دوسری نظموں میں ”فریاد قوم “،”وطن کا راگ“ وغیرہ اہم ہیں ۔اس دور میں مقصدی شاعری میں بھی اہم رجحان ” ملی شاعری “ کا تھا۔ اسی طرح چکبست نے اپنی مشہور نظم ”خاکِ ہند“ میں بھی اپنے وطن کے شاندار ماضی کو بڑے عزت و احترام کے ساتھ یاد کیا ہے ۔
شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی کی رگوں میں شاعری خون کی طرح سرایت کيے ہوئے تھی کیوں کہ شعر کہنے کا سلسلہ ان کے خاندان میں چار پشتوں سے تھا۔ ان کے باپ ،دادا اور پردادا تینوں شاعر ۔جوش کی پرجوش سیاسی نظمیں ایک نعرہ انقلاب کی طرح ہندوستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگیں اور انہیں ”شاعر انقلاب “کہاجانے لگا۔کلیم الدین احمد نے جوش کی بعض مقبول ترین نظموں کو اقبال کی صدائے بازگشت کہا ہے ۔جوش نے اگر ایک طرف انقلاب کانعرہ لگایا تو دوسری طرف صبح وشام،برسات،چاندنی رات کی کامیاب تصویرکشی بھی کی۔فکر کی گہرائی ان کے یہاں بے شک کم ہے لیکن اندازِ بیان دلکش
وبلند آہنگ ہے ۔جوش کی آواز میں ایک نیا پن یہ ہے کہ اردو شاعری کا روایتی معشوق ظالم، بے وفا اور سنگ دل ہے لیکن جوش کا معشوق بہت دل نواز ہے اور عاشق کے دامن کو وصال کی خوشیوں سے بھردینے کا خواہش مند ہے ۔ تغافل وسرد مہری کی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے معشوق کی الطاف وعنایات اردو شاعری کے قاری کو ایک نیا تجربہ معلوم ہوتی ہیں۔ محبوب کا سراپا بیان کرنے کا جوش کو شوق بھی ہے کہ اس سے انھیں لطف حاصل ہوتا ہے اور اس میں انھیں مہارت بھی حاصل ہے ۔ مختلف شعری وسائل کے استعمال سے وہ محبوب کے سراپا کو نہایت دلکش بنادیتے ہیں:
ہوا طبیعت کی رخ بدل کر بھٹک رہی ہے نئی فضا میں
کلی لڑکپن کی مسکرا کر نئے شگوفے کھلا رہی ہے
جھلکتی چاندی پہ کمسنی کی چڑھا رہا ہے شباب سونا
سفید ہلکی سی چاندنی کو سحر گلابی بنا رہی ہے
گلاب سے عارضوں کی تہ میں شباب تھم تھم کے پرفشاں ہے
نظر فریب انکھڑیوں کی رَو میں شراب رس رس کے آرہی ہے
اقبال کے بعدن ظم گوئی میں جو رویّے زیادہ مقبول ہوئے ان میں سے ایک رومانیت کا بھی ہے۔رومانی شاعروں میں عظمت اللہ خاں ،اختر شیرانی ،حفیظ اور حامد اللہ افسر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اقبال نے اگرچہ نظم کو ایک نئی فکری جہت عطا کی تھی ،لیکن اس کے بعد نظم نگاری کو گویا ”پر لگ گئے“۔1926ء میں تصدق حسین خالد نے چھوٹے بڑے مصرعوں کی نظمیں کہہ کر پرانے فنی سانچوں کو مسمار کر دیا۔ترقی پسند تحریک نے اردو نظم کو نیا رنگ دیا۔1936ء سے قیام پاکستان تک کئی اہم شاعر اس سے وابستہ رہے ۔جن میں فیض ،جوش ،مجاز ،احمد ندیم قاسمی ، جاں نثار اختر، مخدوم ،کیفی اعظمی ،علی سردار جعفری ،جذبی ،ساحر وغیرہ اہم ہیں۔ احمدندیم قاسمی کے ہاں ترقی پسندانہ نظریات کے ساتھ ساتھ دیہاتی مناظر کی تصویرکشی اور طبقاتی کشمکش کو اجاگر کرنے کی صلاحیت ہے۔ علی سردار جعفری کے ہاں ایک نیا انقلاب ہے ۔ترقی پسند تحریک نے معاشرے میں جس طبقاتی فرق کو نمایاں کرنے کی کوشش کی اس نے بہرحال کئی شعرا کو متاثر کیا،جن میں احسان دانش اہم شاعر ہیں۔ ان کی نظموں میں وطن سے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی ہے اور پسماندہ طبقے کی ترجمانی بھی۔ انھیں ”مزدور شاعر “کے لقب سے ملقب کیا گیا۔
اس تحریک میں سے سب سے اہم شاعر فیض احمد فیض ہیں۔ فیض احمد فیض نے نہ صرف غزل اور نظم کی طرف توجہ کی بلکہ دونوں میں امتیاز حاصل کیا ۔ فیض ‘ اقبال کی طرح پیامی شاعر بھی ہیں۔ فیض نے نغمگی ،امیجری ،تشبیہ و استعارہ جیسی فنی تدابیر کو ہنرمندی کے ساتھ استعمال کیا اور اپنی نظموں کو دلکشی و رعنائی کا پیکر بنا دیا۔ جس طرح اقبال نے الفاظ کے معانی بدل دیے بعینہ فیض نے بھی اپنے اچھوتے اسلوب سے ایک نیاشعری جہان آباد کیا۔ زندان ،دارورسن ،محبوب،رقیب ایسے الفاظ اپنے اندر معانی کی وسعت ليے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی کتاب ”نظم ِجدید کی کروٹیں“میں فیض کو توازن کی مثال قرار دیا ہے۔ معاشرتی جبر،ترقی پسندانہ خیالات ،فکری گہرائی ،استحصالی طاقتوں کے خلاف احتجاج کو اپنی نظموں میں تعارف کرایا۔”رقیب سے“،”آج بازار میں پابہ جولاں چلو،“،”دلِ من مسافر ِ من“،”تنہائی“ وغیرہ یادگار نظمیں ہیں۔ تفہیم شعر کے حوالے سے فارسی میں ایک اصطلاح ہے ”عاطفہ“۔اس میں کئی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔(۱)جذبہ (۲)تخیل (۳) لہجہ (۴)اسلوب (۵)معانی۔ کسی شعر کی مختلف انداز سے قرات،اس کے معنی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ کیوں کہ لہجہ اپنے اندر معانی کے کئی جہان لیے ہوتا ہے۔ فیض کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن کو اگر لہجہ بدل کر پڑھا جائے تو یہ کثیر المعانی کے زمرے میں آتے ہیں۔ الفاظ و معانی کی یہ کثرت بہت کم شاعروں کے حصے میں آئی ہے ۔ان کی نظم”رقیب سے “ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اردو نظم میں اپنی اہمیت کو منوا چکی ہے ۔
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
ترقی پسند تحریک جب اپنے عروج پر تھی ،اسی زمانے (1939ء) میں حلقہ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا ۔حلقے کے اہم شعرا میں میراجی کا نام سب سے اہم ہے ۔اس دور کی اردو نظم میں موضوعاتی تنوع پیدا ہوگیا۔ جیسے تنہائی ،خوف،جنس، معاشرتی جبر، طبقاتی ناہمواری، بے سکونی،بے حسی ،حساسیت، اخلاقی روایات اور قدروں کی شکست ،فکری مضامین،ہیئتی تجربات،عشق کا مختلف تصور،فرد کی تنہائی اور جدید مکینکی دور میں انسان کی ناقدری کا نوحہ جیسے موضوعات زیر بحث آئے ۔مغربی نظموں کے تراجم بھی ہوئے ۔اس دور کی نظم گوئی کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں مقصدیت کو خیر باد کہہ دیا گیا۔ اب جنس اور مذہب جیسے حساس موضوعات پر بھی نظمیں کہی جا سکتی تھیں۔میراجی کی نظم ”چنچل“ ملاحظہ کریں جس میں ہندی الفاظ نے نظم کی خوبصورتی میں اضافہ کردیا ہے :
کبھی آپ ہنسے ، کبھی نین ہنسیں، کبھی نین کے بیچ ہنسے کجرا
کبھی سارا سندرانگ ہنسے، کبھی انگ رکے ہنس دے گجرا
یہ سندرتا ہے یا کویتا میٹھی میٹھی مستی لائے
اس روپ کے ہنستے ساگر میں ڈگ مگ ڈولے من کابجرا
یہ موہن مدھ متوالی ہے ، یہ مَے خانے کی چنچل ہے
یہ روپ لٹاتی ہے سب میں، پر آدھے منہ پر آنچل ہے
کیا ناز انوکھے اور نئے سیکھے اِندر کی پریوں سے
اور ڈھنگ منوہر اور زبری سوجھے ساگر کی پریوں سے؟
پہلے سینے میں آتی ہے ، پازیبوں کی جھنکاروں میں
آوارہ کرکے چین مرا، چھپ جاتی ہے سیاروں میں
اختر شیرانی نے موجودہ دور میں اپنی شعری تخلیق کی ۔ انھوں نے موجودہ دور کی جدیدیت اور ترقی پسند شعرا کی کج روی کو نہیں اپنایا۔ اختر شیرانی نے نہ تو شاعری کی قدیم روایات سے بغاوت کی اور نہ ہی فنی تقاضوں سے گریز کیا، لیکن جدید دور سے انھوں نے کچھ اثر ضرور قبول کیا ہے ۔انھوں نے کاروبارِ محبت میں رازداری نہیں برتی جو ہمارے قدیم شعرا کا شیوہ تھا:
ادا اس طرح فرض رونمائی کر جاﺅں
تیری تصویر سینے سے لگا لوں اور مر جاﺅں
اختر شیرانی نے اپنے کلام میں روایتی شاعری کے بے نام تصوراتی محبوب کی بجائے شاعروں کو ایک جیتا جاگتا محبوب عطا کیا ہے اور اسے گم نامی کے پردے سے نکال کر کہیں ”سلمیٰ“، کہیں” عذرا“ اورکہیں ”ریحانہ “کے ناموں سے مخاطب کیا ہے ۔ اپنی نظم ”انتظار“ میں اس کایوں اظہار کرتے ہیں:
ابھی سے جاﺅں اور وادی کے نظاروں سے کہہ آﺅں
بچھا دیں فرش گل وادی میں گلزاروں سے کہہ آﺅں
چھڑک دیں مستیاں پھولوں کی مہکاروں سے کہہ آﺅں
کہ سلمیٰ میری سلمیٰ نور پھیلائے گی وادی میں
سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں
٭٭٭
اسے پھولوں نے میری یاد میں بے تاب دیکھا ہے
ستاروں کی نظر نے رات بھر بےخواب دیکھا ہے
وہ شمعِ حسن تھی پر صورت پروانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی
اختر شیرانی نے اپنی نظموں ”اے عشق کہیں لے چل“، ”اودیس سے آنے والے بتا“ ، ”آج کی رات“ اور ”انتظار“ میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے ۔ ن م راشد نے اردو نظم کے Diction سے بغاوت کردی۔ ان کے تخلیقی ذہن نے اردو نظم کے مروجہ سانچوں کو قبول نہیں کیا اور انھیں توڑپھوڑ کے رکھ دیا۔ ان کا طرزِ احساس ،ان کی نظموں کی ہیئت اور تکنیک اردو قاری کے ليے ایک نئی اور انوکھی چیز تھی اور اس کا گرفت میں لینا آسان نہیں تھا۔ راشد چونکہ مغربی نظم نگاروں سے متاثر تھے ‘اس لیے ان کی نظموں میں افسانوی اور ڈرامائی انداز نظر آتے ہیں۔ فرنگی سامراج سے دشمنی ،جنسیات اور اساطیری حوالے راشد کے خاص موضوع ہیں۔ ان کے ہاں فکری گہرائی کے ساتھ ساتھ اسلوب کی رعنائی بھی ہے ۔راشد کی شاعری میں بغاوت کی سب سے اہم اور مثبت سطح سیاسی بغاوت کی ہے ۔ راشد
کے عہد میں ایشیائی ممالک پر غیر ملکی طاقتوں کا قبضہ تھا اور راشد بھی دوسری غلام قوموں کے باشندوں کی طرح اس غلبے کو ناپسند کرتے تھے۔ چنانچہ اس غلبے کے خلاف احتجاج کا رنگ راشد کے عہد کے دوسرے شعرا کے ہاں بھی نظر آتا ہے مگر راشد نے اس بغاوت کو استعاروں کی مدد سے یوں پیش کیا کہ وہ آفاقیت کی حامل ہوگئی یعنی دنیا میں ہر دور میں غیر ملکی قبضے کی صورت میں وہ نظمیں جاندار اور متحرک محسوس ہوتی ہیں ۔ یہ رجحان ماورا کی چند آخری نظموں سے شروع ہوا اور راشد کے دوسرے مجموعے ایران میں اجنبی میں شدت اختیار کرگیا۔ ماورا کی نظموں میں خاص طورپر ”انتقام “، ”شاعرِ درماندہ“،” شرابی“، ”بیکراں رات کے سناٹے میں “اور ”زنجیر“ اس بغاوت کی مثالیں ہیں۔ ”زنجیر“ جوبعد میں ایران میں اجنبی میں شامل کردی گئی ، میں راشد بغاوت کی لہر سے غلامی کی زنجیر کوتوڑ دینے پر واضح طور پر ابھارتے نظرآتے ہیں:
گوشہ زنجیر میں
اک نئی جنبش ہویدا ہوچلی
سنگِ خارا ہی سہی، خارِ مغیلاں ہی سہی
دشمنِ جاں، دشمنِ جاں ہی سہی
دوست سے دست وگریباں ہی سہی
یہ بھی تو شبنم نہیں
یہ بھی تو مخمل نہیں، دیبا نہیں، ریشم نہیں
نظم ”اندھا کباڑی ‘ ‘ کے یہ مصرعے دیکھیں کہ راشد نے کس طرح اردو نظم کی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے اسے جہتوں سے آشنا کیا ۔
خواب لے لو ، خواب____
میرے خواب ____
خواب ____میرے خواب____
خوااااب
اِن کے داااام بھی ی ی ی ____
مجید امجد کی شاعری کے موضوعات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فلسفیانہ افکار،نئی تہذیبی صورت حال ،انسان کاالمیہ ،کائنات کی وسعت میں فرد کو اپنا آپ حقیر محسوس ہونا ،دنیا کی بے ثباتی ،طبقاتی فرق ،فرد کی تنہائی،وقت ،مقامیت ،نئے صوفیانہ تجربے کا انکشاف ،سائنسی اور کائناتی شعور غرض اس انداز کے بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن کا ادراک اور پھر اظہار روایتی سانچوں اور ہیئت میں کرنا ممکن نہیں ہے ‘مجید امجد کے یہاں کثرت سے ملتے ہیں۔انھوں نے اپنے دور کی رومانی اور انقلابی نظم گوئی سے اپنا راستہ الگ کیا لیکن رومانیت اور ترقی پسندانہ انقلابی روش کے بہترین اجزا کو ضائع نہیں ہونے دیا،بلکہ انھیں ایک نئے تخلیقی تجربے کاحصہ بنا کر جدید اردو نظم اور شاعر کو ایک یکسر نیا شعری وژن عطا کیا ۔
”کنواں“ ، ”آٹوگراف“ ،”پنواڑی “،”توسیع شہر “،”شاعر“‘،”امروز“،”وقت“، ”آوارگانِ فطرت سے “،”دستک “،”ہری بھری فصلو“ جیسی شاہکار نظموں کی تخلیق سے مجید امجد کا شمار اردو نظم کے اہم شعرا میں ہوتاہے ۔اگر بحیثیت مجموعی ان ادوار کاجائزہ لیا جائے اور مجید امجد کے یہاں ہیئتی تبدیلیوں کی درجہ بندی کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی:
(۱) اردو شاعری کی روایتی ہیئتوں کا استعمال
(۲) روایتی ہئیتوں میں جزوی تبدیلیاں
(۳) انگریزی شعری ہئیتوں سے استفادہ اور جزوی تبدیلیاں
(۴) دو یا دو سے زیادہ ہئیتوں کا انضمام
(۵) نئی ہئیتوں کی اختراع
(۶) آزاد نظم کارجحان
مجید امجد نے ابتدائی دور (1933ءتا۰1940ء) اور دوسرے دور(1941ءتا 1958ء) کے ابتدائی چند سالوں میں روایتی ہئیتوں کو کثرت سے استعمال کیا ہے ۔مگر اس عرصہ میں وہ نظم کے نئے پیکروں کو تلاش کرنے میں سرگرداں نظرآتے ہیں ۔اس ضمن میں سب سے اعلیٰ ترین مثال ان کی نظم ”کنواں“ ہے ۔اس نظم میں ہمیں ایک روانی اور سرور کی کیفیت اپنے پورے جوبن پر نظر آتی ہے ۔یہ نظم فکری اعتبار کے ساتھ ساتھ فنی محاسن اور ہیئتی حوالے سے بھی مجید امجد کی افتادِ طبع کی طرف اشارہ کرتی ہے :
کنواں چل رہاہے مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں ،نہ فصلیں،نہ خرمن ،نہ دانہ
نہ شاخوں کی باہیں ،نہ پھولوں کی مکھڑے ،نہ کلیوں کے ماتھے ،نہ رُت کی جوانی
گزرتا ہے کیاروں کے پیاسے ،کناروں کو یوں چیرتا تیز‘خوں رنگ پانی
کہ جس طرح زخموں کی دکھتی ٹپکتی تہوں میں کسی نیشتر کی روانی
ادھر دھیری دھیری
کنویں کی نفیری
ہے چھیڑے چلی جارہی اک ترانہ
پر اسرار گانا
ظفر علی خان کی نظم بے شمار خوبیوں سے مزین ہے ۔ وہ الفاظ اور بحور پر بے پناہ قدرت رکھتے تھے۔ ان کاسب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ شاعری کو ایوانِ شاہی سے نکال کر عوامی دربار میں لے آئے اور اسے نگر نگر پھراتے رہے ۔ انھوں نے اپنی بعض نظموں میں مردہ اور متروک الفاظ کو حیاتِ جاوداں عطا کی ۔ وہ چونکہ عظیم الشان خطیب تھے اس ليے ان کی نظمیں کسی عوامی جلسے کاخطاب معلوم ہوتی ہیں۔ بہارستان، نگارستان، چمنستان، حبسیات اور ارمغانِ قادیاں ان کے شعری مجموعے ہیں۔ شورش کاشمیری کا شمار شعرا کے اس قبیل سے ہے جنھوں نے حقیقی معنوں میں جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہا ہے ۔ اس جرم کی پاداش میں وہ بیسیوں دفعہ زنداں کی نذر بھی ہوئے لیکن ہمیشہ سرخرو اور کامیاب و کامران ٹھہرے۔ شورش نے ظفر علی خاں کی طرح ملکی سیاست پر ہنگامی نوعیت کی نظمیں کثرت سے لکھی ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی سیاست اور سیاست دانوں پر اتنا کچھ لکھا ہے کہ اگر اسے تاریخ وار مرتب کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے ۔شورش نے ایک طرف حسن و عشق کے ولولے اور دوسری طرف قید وبند کے مرحلے بڑی خوش اسلوبی اور خوش سلیقگی سے طے کیے۔گفتنی ناگفتنی، چہ قلندرانہ گفتم اور الجہاد والجہادان کے شعری مجموعے ہیں ۔ا س کے علاوہ شورش کابہت ساکلام چٹان ‘میں بھی شائع ہوتا رہا جسےکلیات شورش کاشمیری کے نام سے یکجا کردیا گیا۔
اختر الایمان کی نظموں میں ان کے عہد کے تمام مسائل مثلاً اخلاقی اور مذہبی قدروں کازوال،معاشرے کا بکھراﺅ،بھری انجمن میں انسان کی تنہائی اور بے بسی ، غیریقینی مستقبل کا خوف سبھی کچھ نظرآتا ہے۔ماضی کی یاد ایک کسک بن کر ان کی شاعری کے بڑے حصے پرچھائی ہوئی ہے۔ اخترالایمان کی شاعری میں ایک پورے عہد کا درد و کرب کھنچ آیا ہے ۔ان کی آواز اپنے تمام ہم عصروں سے الگ ہے اور صاف پہچانی جاتی ہے ۔اختر الایمان نے اردو نظم کو نثری روپ دیتے ہوئے جدت دی :
دورِ جمہور میں کیا کیا ہوئیں بے داد لکھیں
کوئی حقیقت تو کہیں
بادشاہوں کے سے انداز میں کچھ لوگوں نے
حکم بھیجا ہے بدل ڈالوں میں اندازِ فغاں
طرزِ تحریر و بیاں
رسمِ خط ، اپنی زباں
(”میں ، ایک سیارہ“)
اردو نظم آج بھی کسی نہ کسی شکل میں اپنی انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔مضامین میں تنوع سے اس کی کشش میں اضافہ ہوگیاہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ موضوعاتی تنوع کے ساتھ ساتھ بڑی نظم کے امکانات کو بھی مدِنظر رکھا جائے ۔مثلاً کرافٹ سازی کی جو کوششیں میراجی ،فیض ،راشد ،اختر الایمان اور مجید امجید نے کی تھی ان کو بھی آگے بڑھایا جائے۔اسی طرح نظم میں واقعاتی بیان کے ساتھ ساتھ استعاراتی بیان کو زیادہ اہمیت دینی چاہيے ، جس سے بیان کے کئی نئے در وا ہو جائیں گے۔مآخذ و مصادر
1-آفتاب احمد ،ڈاکٹر ،ن م راشد ،شاعر اور شخص،لاہور: ماورا پبلشرز،1989ء
2-بدر منیر الدین (مرتب) ،بیسویں صدی کا ادب ،لاہور: پولیمر پبلی کیشنز ،1958ء
3-تبسم کاشمیری ،ڈاکٹر،نئے شعری تجربے ،لاہور :سنگ پبلی کیشنز ،1978ء
4- جیلانی کامران ،نئی نظم کے تقاضے،لاہور:مکتبہ عالیہ ،1985ء
5-خواجہ اکرام،ڈاکٹر،اردو کی شعری اصناف،دہلی:شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی،1999ء
6-رشید امجد ،ڈاکٹر ،میرا جی شخصیت اور فن،راولپنڈی :نقش گر پبلی کیشنز،جنوری 2006ء(مقالہ پی ایچ ،ڈی)
7-ریاض احمد ،ریاضتیں ،لاہور:سنگ پبلی کیشنز ،1986ء
8-شمس الرحمن فاروقی ،شعر ،غیر شعر اور نثر،الہ آباد: شب خون کتاب گھر،اکتوبر 1998ء
9-عبد المغنی ،تصورات،نئی دہلی :ادارہ فکر جدید،1988ء
10-عنوان چشتی،ڈاکٹر،اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت،لاہور: تخلیق مرکز،س۔ن
11-کالی داس گپتا رضا(مرتب)،مقالات چکبست ،بمبئی : ومل پبلی کیشنز،19 جنوری 1983ء
12-وزیر آغا،ڈاکٹر،نظم جدید کی کروٹیں،لاہور :مکتبہ میری لائبریری ،1974ء
13-عامرسہیل، ڈاکٹر، بیاض آرزو بکف ، ملتان، بیکن بکس
14-سلطانہ ایمان ، بیدار بخت ، کلیاتِ اختر الایمان، آج کی کتابیں، کراچی: صدر، مدینہ سٹی مال ،عبداللہ ہارون روڈ ، 2000ء
15-سنبل نگار، ڈاکٹر، اردو شاعری کاتنقیدی مطالعہ، لاہور:دارالنوادر، 2003ء
امید ہے یہ مراسلات آپ اور ہم سب کے کام آئیں گے ۔ والسلام
 

مغزل

محفلین
اب آتے ہیں آپ کی نظم کی جانب ، سب سے پہلے تو نظم کی طوالت اسے قاری کے ذہن پر نہ صرف بوجھ بنا رہی ہے بلکہ یہ آپ کے ہاتھ سے بھی پھسلتی چلی جارہی ہے ۔، بحرو وزن کی بحث آگے چل کے ( بلکہ اتنی بحث ہوہی چکی ، اب نظم کے مضمون پر بات ) ، دوم یہ کے نظم کا بنیادی طور پر موضوع ’’ ماں ‘‘ ہے جس کا احاطہ کرنے میں نظم مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے ۔ غزل کی نسبت نظم زیادہ علم فصاحت بلاغت یکسوئی اور موضوع سے متعلق رہنے کی متقاضی ہوتی ہے جو موجود نظم ( نما کلام) میں کہیں نظر نہیں آتا،۔اب فرداً فرداً با ت کرتے ہیں ۔

کیسی تشکیل سے گزرتی ہے
-------------- تشکیل شکل دینے سے ہے ، ماں تخلیقی عمل سے گزرتی ہے نہ ہے بچے کو شکل دیتی پھرتی ہے ۔
بڑی تفصیل سے گزرتی ہے
------------ موضوع سے کیا ربط ؟؟ اس مصرعے کی یہاں یہاں کوئی تُک ہی نہیں ، محض قافیے جما نا کوئی شاعری نہیں میرے دوست
رب کی تعمیل سے گزرتی ہے
------------ رب کی تعمیل سے مراد ؟؟ تعمیل حکم یا فرمان کی ہوتی ہے ،رب کا فرمان تھوڑی ہی ہے کہ اے ’’ ماں ‘‘ تم ’’تعمیل ‘‘ کرو اس عمل کی ۔ویسے ہر نیکو کار بندہ اس کے حکم کی تعمیل کرتا ہے ، ایسا کرنا اختیاری اور صوابدید پر ہے ، ماں (‌ایسی) تعمیل سے انکاری کب ہوسکتی ہے، یہ فطری تقاضہ ہے جس سے چرند پرند سب گزرتے ہیں ، اب انسان کی ماں کی کیا تخصیص رہ جاتی ہے ۔
اپنی تکمیل سے گزرتی ہے
------------ ہاں مصرع سمجھ پڑتا ہے ، مگر یہ بھی انسانی معاشرت کا فیصلہ ہے ۔
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
------------- سنورنے کا کیا محل ، کیا ماں اس عمل سے گزرتے وقت خوب میک اپ کرتی ہے ؟؟ پھر تکلیف سے کیا نسبت ؟؟؟
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
-------------- ماں تخلیق کے عمل سے گزرتی ہے تخلیق سے نہیں ۔ یہ مصرع بھی غلط
پھر سندیسا جمیل یہ لائے
---------- یہ جمیل صا حب کون ہیں ؟؟ جو یہ سندیسا یا پیغام لائے ؟؟؟ آپ کا مصرع تو یہی کہہ رہا ہے ۔
کیسی ہستی شکیل یہ لائے
----------- لیجے اب شکیل صاحب بھی آن وارد ہوئے ۔ ۔؟؟ معاف کیجے گا آپ کا مصرع یہی بیان کرتا ہے ، شکیل سے مراد خوبصورتی ہے تو ’’ یہ ‘‘ کون ہیں ؟؟
جیسے نعمت مثیل یہ لائے
-------------- مثیل ؟؟ ۔۔ چلیے مان لیتے ہیں ۔۔ مگر نعمت مثیل ۔ آپ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ( ماں) مثالی نعمت لاتی ہے ؟؟ یہاں بات نہیں بنی ۔ ایک طرف تو آپ ماں ایسی ہستی کا تخلیقی سائنسی جائزہ پیش کررہے ہیں دوسری جانب بچوں کو بہلاوا دینے والی بات جیسے بچوں کو کہا جاتا تھا کہ ایک پری آئی تھی اور تمھارے لیے ننھا منا سا بھائی دے گئی ۔بات نہیں بنی ۔
رب کی سچی دلیل یہ لائے
--------- رب کی سچی دلیل ۔۔۔ ؟؟ ۔۔ ’’ یہ ‘‘ کون ؟؟ ماں ۔۔؟؟ معاف کیجے گا بات نہیں بنی ۔ بچوں کا پیدا ہونا ہی اگر رب کی سچی دلیل ہے تو باقی دلیلیں جھوٹی ہوگئیں ناں ؟؟؟
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
------------- ان پر پہلے بات ہوچکی ۔ دوبارہ کیا لکھوں ؟؟؟
اس کی کلکاریاں ہنساتی ہیں
--------------- ماں کی کلکاریاں ؟؟؟ ۔۔ دوست کلکاریاں بچے کے ہنسنے کھلکھلانے کو کہتے ہیں ۔بات یہاں بھی نہیں بنی۔
اس کی بے زاریاں رلاتی ہیں
-------------- ارے ارے ارے ۔۔ آپ ’’ ماں ‘‘ کی توصیف بیان کررہے ہیں کہ اسے بدنام کررہے ہیں ۔۔ غور کیجے ۔ماں بیزار۔اور بیزاری بھی ایسی کی کہ جو رلا دے ۔ یہ بھی غلط
اک نیا موڑ ہے فسانے میں
اک نیا رنگ ہے زمانے میں
-------------- یہ بھی بے ربط بات ہے ۔ ماں سے کیا تعلق اس بات کا ؟؟
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
----------------- ان پر پہلے بات ہوچکی ۔ دوبارہ کیا لکھوں ؟؟؟
مسکُرانے کا ہے حسیں انداز
----------------- مان لیتے ہیں اسے ماں کے حوالے سے ، مگر یہ غزل کا مصرع زیادہ لگتا ہے ۔
دھیمی قدموں کی ہے مگر آواز
-------------------- قدموں‌کی دھیمی آواز ۔۔ اور ماں ۔۔ یہاں کوئی محل نہیں اس بات کا۔بات نہیں بنی۔
ترے یہ درد کا مداوا ہے
دیکھ دُکھ بن گیا چھلاوا ہے
--------------- دکھ کا چھلاوہ بننا ماں کے درد ( مراد کون سادرد ہے ؟؟ کہیں لیبر پین کی بات تو نہیں کررہے ؟؟ وضاحت بھی نہیں ۔۔تو کیا کیا جائے ،ویسے اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہیئے ۔) کا مداوا ۔۔ انتہائی بونگی والی بات ہے معاف کیجے یہ کوئی بات نہ ہوئی
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
-------------------ان پر پہلے بات ہوچکی ۔ دوبارہ کیا لکھوں ؟؟؟
طفل کیسے جہان میں چہکیں
گر نہ مائیں زمان میں مہکیں
------------- دونوں مصرعے اچھے ہیں ،زمان کوزمانے کردیجے ۔
محبتوں سے اِسے سجاتی ہے
-------------- محبتوں کا وزن فاعیلن باندھا ہے جو غلط ہے
وحشتوں سے اِسے بچاتی ہے
------------------ ماں وحشت سے نہیں بچا سکتی ہے ، اگر ایسا ہے تو کوئی مثال دیجے ۔وحشت کیفیت ہے ،۔محض بھرتی کا مصرع ہے ۔
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
--------------------- ان پر پہلے بات ہوچکی ۔ دوبارہ کیا لکھوں ؟؟؟
کیسی بے لوث تیری محنت ہے
--------------- محنت ؟؟ معاف کیجے گا وضاحت نہیں ہوئی ۔ اگر اشارہ تخلیقی عمل سے مراد ہے تو ۔۔ معاف کیجے ۔ اور خود غور کیجے کہ آپ کہہ کیا رہے ہیں۔
کیسی انمول تیری اجرت ہے
--------------- یہ بھی درج بالا مصرعے کی وضاحت کے بعد ہی قابلِ قبول ہوگا۔
کیسا رتبہ ہے کیسی رفعت ہے
تیرے قدموں تلے تو جنت ہے
---------------- دونوں مصرعے اچھے ہیں ،
ہے تو تکلیف پر سنورتی ہے
ماں جو تخلیق سے گزرتی ہے
--------------- ان پر پہلے بات ہوچکی ۔ دوبارہ کیا لکھوں ؟؟؟

اظہر بھائی ، یہ تو ہوگئی آپ کی نظم پر بات۔ میری دانست میں تو اس پر مزید وقت ضائع کرنا حماقت ہی ہے ، کوشش کیجے نظم کے حوالے سے معلومات حاصل ہوں تو اس طرف کوشش کیجے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ نظم سے پہلے آپ کو غزل پر عبور حاصل کرنا چاہیے ، کئی مراسلے میں پیش کیے ربط بھی فراہم کر دیے ہیں مطالعہ کیجے ۔انشا اللہ اصل سمت میں سفر کرنے سے مراد پائیں گے ۔ ماں کے حوالے سے ایک نظم ،میں پیش کرتا ہوں ، ویسے سیکڑوں ہی منظوم کلام کہا جاچکا ، جس کے مطالعے سے آپ پر کھلے گا کہ کسی مضمون پر بات کرتے ہوئے کن کن امور کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور کن سے گریز ، ہر رشتے کے کچھ مراتب ہوتے ہیں انہیں نظر انداز کردینا محض گمراہی ہے ۔ اور کچھ نہیں امید ہے آپ باقائدہ غزل پر پہلے کام کیجے گا، پھر نظم کی طرف آئیں گے ۔ نظم لکھنے کے معاملات اگلے کسی مراسلے میں انشا اللہ ، پہلے کتاب ’’ سرِ دست ‘‘ سے ایک نظم ’’ ماں ‘‘ پیش کرتا ہوں ۔امید ہے مزید وضاحت اس نظم سے ہوجائے گی۔والسلام

’’ ماں ‘‘

کاغذ پر تم ماں لکھ دینا
اس سے زیادہ کچھ مت لکھنا
خوشبو کوئی لکھ سکتا ہے ؟
ممتا کو تحریر میں کوئی لاسکتا ہے ؟
جیسا ماں کا دل ہوتا ہے
کیا کوئی دل ہوسکتا ہے ؟
اس دل کے اسرار کسی تحریر سے واضح ہوسکتے ہیں ؟
پھر بھی تم کو لکھنا ہو تو، ایسا کرنا
جب ماں لکھنا
اس کے برابر دل لکھ دینا
دل لکھ کر ، تم رک مت جاتا
ماں کی باتیں دھیان میں لانا۔قلم اٹھانا
دل کے آگے دکھ لکھ دینا
پھر چاہو ۔تو۔ کچھ مت لکھنا

سلمان صدیقی، کراچی

پیارے دوست ، اظہر نذیر ، امید ہے وضاحت ہوچلی ہوگی کہ ماں کے حوالے سے کیا کیسے کیوں لکھنا اور کیاکیوں نہیں لکھنا ہوتا ہے ۔ یہ میرا پورے اخلاص کے ساتھ مشورہ ہے، بہر حال کوئی بھی بات ناگوار گزرے تو صرفِ نظر کردیجے گا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اصل سمت سفر کی توفیق عطافرمائے اور اس پر استقامت نصیب فرمائے ، آمین ۔
 
جناب مغل صاحب،
بے حد ممنون، بہت تفصیل سے وضاحت کی آپ نے- کافی باتیں سمجھ میں آ گئیں اور مزید مطالعہ بھی کروں گا- ایک کام شاید نہ کر سکوں اُ س کے لیے پیشگی معزرت- انشا اللہ جب سمجھا کے کچھ لکھ پایا ہوں تو آپ کی خدمت میں حاظر ہو جاؤں گا اسی امید کے ساتھ کہ راہ نمائی جاری رہے گی- ابھی آپ کی ہدایت کے مطابق غزل پر کچھ دھیان
جزاک اللہ خیر
ممنون
اظہر
 

مغزل

محفلین
جناب مغل صاحب،
بے حد ممنون، بہت تفصیل سے وضاحت کی آپ نے- کافی باتیں سمجھ میں آ گئیں اور مزید مطالعہ بھی کروں گا- ایک کام شاید نہ کر سکوں اُ س کے لیے پیشگی معزرت انشا اللہ جب سمجھا کے کچھ لکھ پایا ہوں تو آپ کی خدمت میں حاظر ہو جاؤں گا اسی امید کے ساتھ کہ راہ نمائی جاری رہے گی- ابھی آپ کی ہدایت کے مطابق غزل پر کچھ دھیان
جزاک اللہ خیر
ممنون
اظہر

ضرور ضرو ر، خدانخواستہ میں نے منع نہیں کیا، غزل کی طرف رجوع کرنے کا اس لیے کہا ہے جب آپ ایک شعر ( دو مصرعوں ) میں بات کو مکمل نظم کرنے پر قادر ہوجائیں گے تو نظم کی صراحت بہت آسان ہوجائے گی ۔ آپ لگے ہاتھوں چاہیں تو نظم کے تجربے کو اپنی مشق کا حصہ بنا سکتے ہیں میں نے صرف مشورہ دیا ہے ،۔ آپ جب کہیں ہم سب حاضر ہیں ، ۔ ایک بات مزید کہ ماں کے حوالے سے نظموں کا مطالعہ بھی کیجے ۔باآسانی دستیاب ہوسکتی ہیں ۔، پھر اپنے جذبات کو قلمبند کیجے ، امید ہے اسطرح آپ کا کام آسان ہوجائے گا۔ والسلام
( ( معذرت یوں لکھتے ہیں ، ذ کے لیے شفٹ زیڈ کی کنجی ہے ، شاید آپ نے جدول نہیں دیکھا ،میرے دستخط میں ملاحظہ کیجے گا)- ) ویسے کس حوالے سے معذرت ؟؟ میں سمجھا نہیں معافی چاہتا ہوں ۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ محمود، آج کل محمود تین تین ہو گئے ہیں، اس لئے مجھے تمہارا پورا نام لکھنا پڑ رہا ہے یہاں۔
میرا یہی خیال تھا کہ اس پر اصلاح کرنا وقت کی بربادی ہے، ہر مصرع کو کہاں تک سدھارا جائے؟
 

مغزل

محفلین
شکریہ بابا جانی ، میرا بھی یہی ماننا ہے ، اب یہ تو اظہر میاں پر موقوف ہے کہ وہ ضد کریں تا اس سعِی لاحاصل کو ترک کردیں۔ امید ہے اظہر اب بہتر انداز میں جان گئے ہوں‌گے ۔والسلام
 
Top