خورشیداحمدخورشید
محفلین
محترم اساتذہ کرام :ایک پرانی نظم (آزاد نظم) کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی ہے آپ سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ!
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، عظیم ، یاسر شاہ
دیکھتا ہی رہوں میں نہ جھپکوں پلک
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
مجھ کو بھائے ترے موتیوں کی دمک
میں تھا مایوس جب پاس آیا ترے
ڈال کے ہار بانہوں کے میرے گلے
میرے بالوں کو بکھرایا تھا تو مجھے
گدگدانے لگی چوڑیوں کی کھنک
اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے آنے لگے
گورے گالوں پہ تیرے گلابی چمک
دیکھی مندر میں سونے کی اک مورتی
ہاتھ باندھے مقابل پجارن کھڑی
جب بجانے لگی نقرئی گھنٹیاں
گنگنائی تری پائلوں کی جھنک
ہلکی بارش ہے اور چل رہی ہے ہوا
تازہ پھولوں سے مہکی ہوئی ہے فضا
یہ سہانا سماں ہو مکمل گیا
جب وہاں آکے تُونے دکھائی جھلک
جب ہو قوسِ قزح سے سجا آسماں
اور ہوں پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
پھر تصور میں آتا ہے چہرہ ترا
جھلملائے تری اوڑھنی کی دھنک
رو برو بیٹھ کر تیری ہر اک ادا
دیکھتا ہی رہوں میں نہ جھپکوں پلک
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
مجھ کو بھائے ترے موتیوں کی دمک
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، عظیم ، یاسر شاہ
رو برو بیٹھ کر تیری ہر اک ادادیکھتا ہی رہوں میں نہ جھپکوں پلک
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
مجھ کو بھائے ترے موتیوں کی دمک
میں تھا مایوس جب پاس آیا ترے
ڈال کے ہار بانہوں کے میرے گلے
میرے بالوں کو بکھرایا تھا تو مجھے
گدگدانے لگی چوڑیوں کی کھنک
اک مصور کی جیسے ہو تصویر تم
یا ہو جنت سے اتری کوئی حور تم
میری مشتاق نظروں سے آنے لگے
گورے گالوں پہ تیرے گلابی چمک
دیکھی مندر میں سونے کی اک مورتی
ہاتھ باندھے مقابل پجارن کھڑی
جب بجانے لگی نقرئی گھنٹیاں
گنگنائی تری پائلوں کی جھنک
ہلکی بارش ہے اور چل رہی ہے ہوا
تازہ پھولوں سے مہکی ہوئی ہے فضا
یہ سہانا سماں ہو مکمل گیا
جب وہاں آکے تُونے دکھائی جھلک
جب ہو قوسِ قزح سے سجا آسماں
اور ہوں پھولوں پہ اڑتی ہوئی تتلیاں
پھر تصور میں آتا ہے چہرہ ترا
جھلملائے تری اوڑھنی کی دھنک
رو برو بیٹھ کر تیری ہر اک ادا
دیکھتا ہی رہوں میں نہ جھپکوں پلک
مسکراتے ہوئے سُرخ ہونٹوں تلے
مجھ کو بھائے ترے موتیوں کی دمک