ایک نفسیاتی الجھن !

طالوت

محفلین
ایک نفسیاتی الجھن !
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد​

غلط یا سہی لیکن اس بات پر اکثر حیرت ظاہر کی جاتی ہے کہ ہٹلر کے یورپ پر مظالم ، صدام حسین کی عراقیوں پر زیادتی اور سوویت فوجوں کی افغانستان میں سفاکی کی خبریں دینے والے اکثر مغربی و امریکی ذرائع ابلاغ کو متوازن رپورٹنگ کا اصول اس وقت شدت سے کیوں یاد آتا ہے جب اسرائیل لبنان، غربِ اردن یا غزہ میں فوجی کارروائی کرتا ہے۔ یعنی دس روز میں آٹھ سو سے زائد فلسطینوں کی ہلاکت مساوی ہے حماس کے راکٹوں سے مرنے والے چار اسرائیلیوں کی خبر کے۔۔۔معروف مغربی صحافی رابرٹ فسک سمیت ان کے کئی ہم خیال سمجھتے ہیں کہ متوازن خبر دراصل منصفانہ اور غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کے بغیرممکن ہی نہیں۔ان بنیادی خوبیوں کے بغیر توازن کے نام پر رپورٹنگ ایسی ہی ہے جیسے نازیوں کے کسی عقوبت خانے میں دس ہزار یہودیوں کی ہلاکت کی خبر شائع کرنے سے پہلے ہٹلر کے وزیرِ اطلاعات سے اس کی تصدیق کر لی جاتی اور اس کے موقف کو بھی اتنی ہی نمایاں جگہ دی جاتی۔

اکثر لوگ یہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ آزادی، جمہوریت اور پرمسرت حصولِ زندگی کے بنیادی حقوق پر کھڑے امریکی آئین کی پاسدار کسی بھی حکومت کو وہ نوے لاکھ فلسطینی کیوں دکھائی نہیں دیتے جن میں سے پینتیس لاکھ غزہ اور مغربی کنارہ نامی دنیا کے دو سب سے بڑے کیمپوں میں قید ہیں۔اور وہ کون سا جذبہ تھا جس کے تحت لاکھوں امریکی فوجیوں نے اس دنیا کو نازیوں کے چنگل سے بچانے کے لئے جان کی بازی لگا دی۔
کچھ لوگوں کو یہ بھی بہت کھلتا ہے کہ ٹرومین سے باراک اوباما تک کسی بھی امریکی صدر نے آج تک کسی بھی فلسطینی پناہ گزیں کیمپ کا دورہ نہیں کیا۔ جبکہ افغانستان پر سوویت فوج کشی کے بعد پاکستان آنے والا ہر امریکی اہلکار افغان خیمہ بستی کا چکر لگائے بغیر واپس نہیں جاتا تھا۔

یہ سوال بھی اکثر پوچھا جاتا ہے کہ جس ہالی وڈ نے یہودیوں پر نازی مظالم آشکار کرنے کے لئے لاتعداد شاہکار فلمیں تخلیق کیں وہی ہالی وڈ آج تک فلسطینوں کی زندگی کے کسی بھی گوشے پر ایک بھی معیاری فلم کیوں نہ بنا پایا۔ ان سوالوں کا تشفی بخش جواب تب تک نہیں مل سکتا جب تک ایک تاریخی نفسیاتی الجھن نہیں سمجھی جائے گی۔

جس طرح جدید امریکہ تارکینِ وطن نے بسایا ۔اسی طرح جدید اسرائیل بھی تارکینِ وطن نے بسایا جو سلوک ابتدائی امریکی تارکینِ وطن نے امریکہ کے اصل باشندوں سے کیا، کم و بیش ویسا ہی طرزِ عمل اسرائیل نے فلسطینوں کے ساتھ اپنایا ۔ جب یورپی آبادکار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے خطے میں پہنچے تو وہاں ایک کروڑ سے زائد مقامی انڈین تھے۔آج ان انڈینز کی تعداد چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔جبکہ آباد کار جو سترہ سو نوے کی پہلی مردم شماری کے وقت چالیس لاکھ تھے آج امریکہ میں انکی تعداد تیس کروڑ ہے۔

اسی طرح جب انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو موجودہ اسرائیل کی تسلیم شدہ سرحد میں آٹھ لاکھ یہودی آبادکار اور بیس لاکھ سے زائد مقامی فلسطینی تھے۔آج انہی تسلیم شدہ حدود میں چون لاکھ یہودی اور چودہ لاکھ فلسطینی عرب موجود ہیں۔ ان معنوں میں اسرائیل ایک چھوٹا سا امریکہ یا امریکہ ایک بڑا سا اسرائیل بھی سمجھا جاسکتا ہے اور آباد کاری کے اس مخصوص اصول پر قائم دونوں ممالک کی یہی وہ نفسیاتی الجھن ہے جس سے آج تک کوئی بھی امریکی انتظامیہ جان نہیں چھڑا سکی۔ شاید اسی لئے جب بھی پانچ سو پینتیس ارکان پر مشتمل امریکی کانگریس میں اسرائیل فلسطین معاملے پر رائے شماری ہوتی ہے تو فلسطینوں کے حق میں عموماً دس سے زائد ووٹ نہیں پڑتے۔

مجھے نہیں معلوم کہ امریکی کانگریس کا واحد مقامی انڈین رکن فلسطینوں کا طرفدار ہے یا اسرائیل کا۔

بشکریہ بی بی سی اردو
---------------
وسلام
 
ہان اس پر تبصرہ تو ڈیجیٹل آوٹ ریچ والوں کو کرنا چاہیئے۔ ویسے آج کل مسٹر فواد نظر نہیں آرہے کیا کسی فلسطینی فورم پر اسرائیل کے لیے تاویلیں تو نہیں گھڑ رہے؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

غزہ کی صورت حال – امريکی حکومت کا موقف

مختلف اردو فورمز پر غزہ کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے رائے اور تجزيے پڑھنے کے بعد يہ واضح ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے غزہ کی موجودہ صورت حال کے خاتمے کے ضمن ميں کی جانے والی کوششوں اور حماس کے حوالے سے امريکی حکومت کے موقف اور پاليسی کے حوالے سے غلط فہمی اور ابہام پايا جاتا ہے۔

امريکی حکومت مغربی کنارے اور غزہ ميں ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور 1967 سے فلسطينی علاقوں پر اسرائيلی تسلط کے ضمن ميں فلسطينی عوام کے موقف کی مکمل حمايت کرتی ہے۔ امريکی حکومت اس مشکل گھڑی ميں غزہ کے عوام کے ساتھ ہے۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت تمام متعلقہ فريقين سے مکمل رابطے ميں ہے اور ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی حفاظت کو يقينی بنايا جائے اور غزہ کے عوام کی انسانی حقوق کی بنياد پر ہر ممکن مدد کی جائے۔

جہاں تک غزہ ميں حاليہ واقعات کا سوال ہے تو اس سلسلے ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی حکومت کی جانب سےعالمی برادری کے تعاون سے غزہ ميں پائيدار اور مستقل جنگ بندی کی ہر ممکن کوشش کی گئ ہے۔ امريکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1860 کی مکمل حمايت کرتا ہے جس کی رو سے اسرائيلی افواج کو غزہ سے فوری انخلاء اور ديرپا جنگ بندی کا مطالبہ کيا گيا ہے۔ سلامتی کونسل کی اسی قرارداد ميں غزہ کے علاقے ميں خوراک اور ادويات کی فراہمی کو يقينی بنانے کی ضرورت پر بھی زور ديا گيا ہے۔

حماس کی جانب سے اسرائيل پر ميزائل حملوں کی غير ذمہ دارانہ پاليسی سے فلسطين کے عوام کے ليے کوئ مثبت مقاصد حاصل نہيں کيے جا سکے۔ اس ضمن ميں حماس کو ايسی دوررس پاليسی اختيار کرنا ہو گی جس کا فائدہ فلسطين کے عوام کو پہنچے۔

ہم نے متعدد بار امريکی حکومت کا يہ موقف دہرايا ہے کہ فلسطينی اور اسرائيلی عوام کی خواہشات کی تکميل پرامن مذاکرات اورباہمی رواداری سے ہی ممکن ہے۔ جيسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1850 ميں يہ واضح کيا گيا ہے کہ ديرپا امن کا حصول صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب دونوں فريقين ايک دوسرے کے وجود کو تسليم کر کے دہشت اور تشدد کی پاليسی ترک کرتے ہوئے اسرائيل اور فلسطين کی عليحدہ رياستوں کے حل کو تسليم کريں۔ ايسا صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب دونوں فريقين کی جانب سے اس ضمن ميں ماضی ميں کيے جانے والے معاہدوں اور وعدوں پر عمل درآمد کو يقينی بنايا جائے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

ساجد

محفلین
حماس کی جانب سے اسرائيل پر ميزائل حملوں کی غير ذمہ دارانہ پاليسی سے فلسطين کے عوام کے ليے کوئ مثبت مقاصد حاصل نہيں کيے جا سکے۔ اس ضمن ميں حماس کو ايسی دوررس پاليسی اختيار کرنا ہو گی جس کا فائدہ فلسطين کے عوام کو پہنچے۔
کاش یہ بات امریکی حکومت کی سمجھ میں بھی آ جائے اور افغانستان و عراق پر اندھا دھند بمباری کا سلسلہ بند کر کے ایسی پالسی اختیار کرے جس کا امریکی عوام کو بھی فائدہ ہو اور عالمی امن بھی لوٹ آئے۔
 

arifkarim

معطل
کاش یہ بات امریکی حکومت کی سمجھ میں بھی آ جائے اور افغانستان و عراق پر اندھا دھند بمباری کا سلسلہ بند کر کے ایسی پالسی اختیار کرے جس کا امریکی عوام کو بھی فائدہ ہو اور عالمی امن بھی لوٹ آئے۔

عالمی امن؟؟؟ ہاہاہا
کونسی دنیا میں رہتے ہیں جناب۔ اگر دنیا میں‌امن ہو گیا تو امریکہ سے اسلحہ کون خریدے گا!:surprise:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

بصد احترام ميں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ غزہ کے حوالے سے ميری کل کی پوسٹ دوبارہ پڑھيں۔ ميں نے کسی بھی موقع پر ان اقدامات کی حمايت نہيں کی جو بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بن رہے ہيں۔

اس کے برخلاف ميں نے اپنے موقف ميں يہ واضح کيا ہے کہ غزہ ميں خون ريزی کو مستقل بنيادوں پر روکنے کے ليے يہ ضروری ہے کہ تمام فريقين باہمی مذاکرات اور ڈائيلاگ کا راستہ اختيار کريں۔ حقيقت يہی ہے کہ فلسطين کے عوام کی خواہشات کی تکميل جنگ کے ذريعے نہيں بلکہ مذاکرات کے ذريعے ہی ممکن ہے۔

اگرچہ ميں نے اپنی کل کی پوسٹ ميں امريکہ کی جانب سے مغربی کنارے اور غزہ کے مکينوں کے ليے مہيا کی جانے والی مدد کا سرسری ذکر کيا تھا ليکن اس ضمن ميں امريکن ايڈ پروگرام کے تحت کچھ مزيد تفصيلات بھی ذيل ميں پيش ہيں جو ايک مضبوط فلسطينی رياست کے قيام کے عمل ميں امريکی حمايت کو اجاگر کرتی ہيں۔

اس وقت امريکہ باہمی اقتصاديات اور تعمير وترقی کے ضمن ميں فلسطين کو دی جانے والی امداد کے حوالے سے سرفہرست ملک ہے۔ سال 1994 سے اب تک يو –ايس –ايڈ کے تحت فلسطین کو 2 بلين ڈالرز کی امداد دی جا چکی ہے۔ سال 2008 ميں اقوام متحدہ کے ذيلی ادارے يو –اين – آر – ڈبليو – اے کی جانب سے مغربی کنارے اور غزہ کی مدد کے ليے کی جانے والی ايمرجنسی اپيل کے جواب ميں امريکی حکومت کی جانب سے 57 ملين ڈالرز کی امداد فراہم کی گئ۔ اس امداد کے توسط سے غزہ کے علاقے ميں قریب ايک ملين فلسطينی شہريوں اورمغربی کنارے ميں قريب 750،000 شہريوں کو امداد فراہم کی گئ۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت کی جانب سے آئ – سی – آر – سی کو مغربی کنارے، غزہ اور لبنان کے ضمن ميں 34۔14 ملين ڈالرز کی امداد فراہم کی گئ جس کا بيشتر حصہ مغربی کنارے اور غزہ ميں امدادی کاروائيوں ميں استعمال ہوا۔

سال 2009 کے ليے امريکی حکومت نے يو –اين – آر – ڈبليو – اے کے ليے مجموعی طور پر 85 ملين ڈالرز کی منظوری دے دی ہے۔ جس ميں سے 25 ملين ڈالرز کی رقم غزہ اور مغربی کنارے کے ليے مختص ايمرجنسی فنڈ کے ليے مختص کی گئ ہے جبکہ 60 ملين ڈالرز يو –اين – آر – ڈبليو – اے کے عمومی فنڈ کے ليے ہے۔

مجموعی طور پر يو –اين – آر – ڈبليو – اے کو امداد دينے والے ممالک ميں امريکہ سرفہرست ہے۔ سال 2008 ميں امريکی حکومت کی جانب سے يو –اين – آر – ڈبليو – اے کو 68۔184 ملين ڈالرز کی مجموعی امداد دی گئ جس ميں سے 87۔99 ملين ڈالرز جرنل فنڈ، 57 ملين ڈالرز غزہ اور مغربی کنارے کے ليے مختص ايمرجنسی فنڈ اور 8۔27 ملين ڈالرز کی رقم لبنان کے ليے مختض ايمرجنسی فنڈ کو فراہم کی جائے گی۔

يو – ايس – ايڈ نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے اشتراک سے مغربی کنارے اور غزہ کے مکينوں کے ليے ايک تين سالہ پروگرام شروع کيا ہے جس کے تحت وہاں کے مکينوں کی غذائ ضروريات کی تکميل کے ليے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اس وقت امريکی حکومت کی کاوششوں سے غزہ کے قريب 20000 مکينوں کو براہراست آٹا اور گھی سميت پانچ بنيادی غذائ اجناس ماہانہ فراہم کی جا رہی ہيں۔ قلسطين کے ليے مختص 34 ملين ڈالرز کی مجموعی امداد ميں سے 11 ملين ڈالرز کی امداد براہ راست غزہ کے مکينوں تک پہنچائ گئ ہے۔ يہ درست ہے کہ اس وقت غزہ ميں سيکورٹی کی صورت حال کے سبب غزا کی تقسيم کا عمل تعطل کا شکار ہے ليکن اس عمل کو بحال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

ميں يہاں پر امريکی حکومت کے اس موقف کا پھر اعادہ کروں گا کہ امريکہ اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 1860 کی مکمل حمايت کرتا ہے جس کے تحت مستقل اور پائيدار جنگ بندی اور غزہ سے اسرائيلی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کيا گيا ہے۔ اسی قرارداد ميں غزہ کے مکينوں کے ليے خوراک اور طبی امداد کی فراہمی کو يقينی بنانے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 
Top