فہد اشرف
محفلین
ایک نوجوان بت تراش کی آرزو
ایک ایسا بت بناؤں کہ دیکھا کروں اسے
آسودہ ہے خیال کا پیکر بنا ہوا
خواب عدم میں مست ہے جوہر بنا ہوا
اک مرمریں حجاب سے پیدا کروں اسےخواب عدم میں مست ہے جوہر بنا ہوا
—————————————
پھولوں میں جیسے جذبۂ نکہت نہفتہ ہویا جلوے بیقرار ہوں آغوش رنگ میں
یوں اُس کی روح خفتہ ہے دامانِ سنگ میں
ظلمت میں جیسے نور کی صورت نہفتہ ہویوں اُس کی روح خفتہ ہے دامانِ سنگ میں
———————————————
دن رات صبح و شام میں پوجا کروں اسےمیرا گداز روح جبیں سے مچل پڑے
اس کی نظر سے جذب محبت ابل پڑے
ساز نفس کو توڑ کے گویا کروں اسےاس کی نظر سے جذب محبت ابل پڑے
فن خواب مرگ بن رہے بت ساز کے لیے
دنیا پکارتی رہے آواز کے لیے
دنیا پکارتی رہے آواز کے لیے
(اختر شیرانی)
(شعرستان)
(شعرستان)
آخری تدوین: