ایک نوجوان لڑکی کا پہلا لو لیٹر

سید عمران

محفلین
میرے محترم بھائی
یہ سب تفصیل صرف " لڑکی کی رضامندی " بارے نہیں ہے بلکہ اس سے
عرب کی معاشرت میں عورت کا اپنے لیے بر تلاشنا ۔ ۔
عورت کا بنا جھجھک کسی محفل میں کسی سے شادی کی خواہش ظاہر کرنے بارے ہے ۔
آپ نے شاید آخری سطر پڑھ کر تبصرہ کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
واہ بھائی صاحب، ان دو نکات سے آپ کی بات خوب سمجھ میں آگئی اور دل بہت خوش ہوا۔
اسلام کو دین فطرت اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ انسان کے تمام فطری تقاضے اللہ تعالیٰ نے اس میں سمو دیے ہیں۔
۱) اسلام میں قطعی طور پر اس کی اجازت ہے کہ خواتین نکاح کے لیے خود بھی اپنی زندگی کا ساتھی منتخب کرسکتی ہیں۔
۲) اور اس بات کی بھی اجازت ہے کہ نکاح کے لیے خواتین بھی مرد کو رشتے کا پیغام دے سکتی ہیں۔
اس کو ’’خ‘‘ کے زیر کے ساتھ خِطبہ کہا جاتا ہے یعنی پیغام نکاح ۔ ان خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام نکاح دیا، یہ نہیں کہ مجمع میں اپنے آپ کو پیش کردیا کہ (معاذ اللہ )جو جی چاہے لے جائے ۔
یہ خاتون کی اپنی پاک بازی پر اعتماد کی علامت ہے کہ وہ اتنے بڑے مجمع میں اپنے آپ کو بڑے وقار کے ساتھ نکاح کے لیے پیش کرے۔ کیوں کہ نکاح کے لیے پاک دامنی بھی ایک نہایت عمدہ صفت ہوتی ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
بہت سے لوگ قرآن حکیم کو محض کہانیوں کی ایک کتاب قرار دیتے ہیں۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے جو علم نہیں رکھتے محض کہانیاں لگتی ہیں لیکن ایک باعلم لائق وکیل جب اس زبردست قانونی زبان کو دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح ان مثالوں سے بہترین قانون سازی کی گئی ہے ۔

بناء شادی بات چیت یا ملاقات کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان :

اس مثال میں بناء شادی کے اجنبی مرد سے بات چیت،اس سے ملنا، لڑکی کا اپنی پسند کا اظہار کرنا، اور اپنے ممکنہ شوہر کی تعریف کرنا ، لڑکی کا خود جا کر اپنے مستقبل کے شوہر کو بلا کر لانا اور اپنے والد صاحب کے سامنے پیش کرنا ، شامل ہیں ۔ شادی کرنا اللہ تعالی کا حکم ہے اور یہ حکم مساوی طور پر مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے۔ ہر مرد اور عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند سے شادی کرے۔ مہر اس صورت میں، موسی علیہ السلام ، کی 8 سال کی محنت اور خدمت باندھا گیا ہے۔

سورۃ نمبر 28 القصص کی آیات 23 سے یہ واقعہ شروع ہوتا ہے ۔
23- اور جب وہ مَدْيَنَْ کے پانی (کے کنویں) پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلا سکتیں یہاں تک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں، اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیں
24 -
سو انہوں نے دونوں (کے ریوڑ) کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پلٹ گئے اور عرض کیا: اے رب! میں ہر اس بھلائی کا جو تو میری طرف اتارے محتا ج ہوں
25- پھر ان کے پاس ان دونوں میں سے ایک (لڑکی) آئی جو شرم و حیاء سے چل رہی تھی۔ اس نے کہا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ وہ آپ کو اس کا معاوضہ دیں جو آپ نے ہمارے لئے (بکریوں کو) پانی پلایا ہے۔ سو جب موسٰی (علیہ السلام) ان (لڑکیوں کے والد شعیب علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان سے (پچھلے) واقعات بیان کئے تو انہوں نے کہا: آپ خوف نہ کریں آپ نے ظالم قوم سے نجات پا لی ہے
26- ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس) رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانت دار ہو
27- انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس (مَہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے

28- موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: یہ (معاہدہ) میرے اور آپ کے درمیان (طے) ہوگیا، دو میں سے جو مدت بھی میں پوری کروں سو مجھ پر کوئی جبر نہیں ہوگا، اور اللہ اس (بات) پر جو ہم کہہ رہے ہیں نگہبان ہے
29-
پھر جب موسٰی (علیہ السلام) نے مقررہ مدت پوری کر لی اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے (تو) انہوں نے طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی ، انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: تم (یہیں) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ شاید میں تمہارے لئے اس (آگ) سے کچھ (اُس کی) خبر لاؤں یا آگ کی کوئی چنگاری (لادوں) تاکہ تم (بھی) تپ اٹھو
 
آخری تدوین:
Top