آتش شوق کو بھڑکا دیا جناب
خاکہ اگر پڑھنے کو مل جاے تو کیا بات ہے
شاد و آباد رہیں
مرزا فرحت اللہ بیگ کے تحریر کردہ دو "خاکے" بہت مشہور ہیں :
1 : نذیر احمد کی کہانی
2 : ایک وصیت کی تعمیل
دوسرے خاکے "ایک وصیت کی تعمیل" کا پس منظر اورنگ آباد ہے۔
1927ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے عثمانیہ انٹرمیڈیٹ کالج کے کالج ڈے کے موقع پر مرزا فرحت اللہ بیگ کی معروف و مقبول تمثیل "دلی کا آخری یادگار مشاعرہ" اسٹیج کرنے کیلئے فرحت اللہ بیگ کو مدعو کیا تھا۔
۔۔۔۔ ریل کی روانگی میں دیر تھی۔ سب کے سب پلیٹ فارم پرکھڑے غپیں مار رہے تھے۔ میں بھی ایک صاحب سے کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے میاں بھیڑ کو چیرتے پھاڑتے، بڑے بڑے ڈگ بھرتے ، میری طرف چلے آ رہے ہیں۔ متوسط قد، بھاری گٹھیلا بدن، بڑی سی توند، کالی سیاہ فام رنگت، اس پر سفید چھوٹی سی گول ڈاڑھی، چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں، شرعی سفید پائجامہ، کتھئی رنگ کے کشمیرے کی شیروانی، سر پر عنابی ترکی ٹوپی، پاؤں میں جرابیں اور انگریزی جوتا۔ آئے اور آتے ہی مجھے گلے لگا لیا۔
حیران تھا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے ۔ کیا امیر حبیب اللہ خان اور مولوی نذیر احمد مرحوم کی ملاقات کا دوسرا سین ہونے والا ہے۔ جب ان کی اور میری ہڈیاں پسلیاں گلے ملتے ملتے تھک کر چور ہو گئیں۔ اس وقت انہوں نے فرمایا:
"میاں فرحت! مجھے تم سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ جب سے تمہارا نذیر احمد والا مضمون دیکھا ہے ۔ کئی دفعہ ارادہ کیا کہ گھر پر آکر ملوں۔ مگر موقع نہ ملا ۔قسمت میں ملنا تو آج لکھا تھا۔ بھئی! مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا، مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہے ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اسی رنگ میں ہمارا حال بھی لکھتا۔"
میں پریشان تھا کہ یا اللہ یہ ہیں کون اور کیا کہہ رہے؟ مگر میری زبان کب رکتی ہے، میں نے کہا:
"مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ بسم اللہ کیجئے، مر جائیے ، مضمون میں لکھ دوں گا۔"
کیا خبر تھی کہ سال بھر کے اندر ہی اندر مولوی صاحب مر جائیں گے ۔ اور مجھے ان کی وصیت کو پورا کرنا پڑے گا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ مولوی وحیدالدین سلیم ہیں تو واقعی مجھے بہت پشیمانی ہوئی۔ میں نے معذرت کی، وہ خود شگفتہ طبیعت لے کر آئے تھے ، رنج تو کجا بڑی دیر تک ہنستے اور اس جملے کے مزے لیتے رہے۔ سر ہو گئے کہ جس گاڑی میں تو ہے میں بھی اسی میں بیٹھوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔ اس ملاقات کے سال بھر کے اندر ہی مولوی وحید الدین سلیم پانی پتی کا انتقال ہو گیا اور مرزا فرحت اللہ بیگ کو ان کی وصیت پوری کرنی پڑی۔
۔۔۔۔۔۔ بہرحال یونہی ہنستے ،بولتے، دو بجے اورنگ آباد پہنچ گئے ۔ بڑے زور کا استقبال ہوا ، موٹروں میں لد کر، اورنگ آباد کالج پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک خیمے ہی خیمے لگے ہوئے ہیں۔ خیموں کے سامنے جلسہ کا منڈوا ہے، منڈوے کے سامنے جو خیمہ تھا اس میں مجھے اور مولوی صاحب کو جگہ ملی ۔ مولوی صاحب کی طبیعت پہلے سے بدمزہ تھی۔ راستہ کی تکان اور رات بھر کے جاگنے سے اور خراب ہو گئی۔ بخار چڑھ آیا ، دو وقت کھانا نہیں کھایا۔ تیسرے وقت بڑے کہنے سننے سے تھوڑا سا دودھ پیا۔ دوسرے روز ان کا لکچر تھا۔ طبیعت صاف نہیں تھی ، پھر بھی بڑے میاں کو جوش آ گیا۔ ٹرنک میں سے جوڑا نکالا ، ریشمی شیروانی نکالی، نئی ترکی ٹوپی نکالی ، اپنا میلا کچیلا جوڑا پھینک نیا پہن اس ٹھاٹھ سے جلسے میں آئے کہ واہ واہ واہ۔ کھڑے ہوکر لکچر دینے کا دم نہ تھا۔ اسٹیج پر کرسی بچھا دی گئی۔ انہوں نے جیب میں سے چھوٹے چھوٹے نیلے کاغذ کے پرچوں کی ایک گڈی نکالی اور لکچر پڑھنا شروع کیا۔
میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا تھا کہ اسپیچ کے پڑھنے میں الفاظ کا زور کم ہو جاتا ہے ۔ مگر مولوی صاحب کے طرز ادا نے میرا خیال بالکل بدل دیا۔ ان کے پڑھنے میں بھی وہی بلکہ اس سے زیادہ زور تھا ، جتنا بولنے میں ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ شیر گرج رہا ہے۔ تقریباً دو ہزار آدمی کا مجمع تھا مگر سناٹے کا یہ عالم تھا کہ سوئی گرے تو آواز سن لو۔ لفظوں کی نشست، زبان کی روانی ، آواز کے اتار چڑھاؤ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک دریا ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے ، یا ایک برقی رو ہے کہ کانوں سے گزر کر دل و دماغ پر اثر کر رہی ہے۔
برس روز ہوچکا ہے۔ مگر اب تک وہ آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ میں نے بڑے بڑے لکچر دینے والوں کو سنا ہے مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ لکچر پڑھ کر ایسا اثر پیدا کرنے والا میری نظر سے کوئی نہیں گزرا۔ کچھ تو بات تھی کہ آخر آخر زمانے میں سر سید مرحوم اپنے اکثر لکچر انہیں سے پڑھوایا کرتے تھے۔ یا تو لکچر پڑھتے پڑھتے یہ خود منجھ گئے تھے یا یہ ان کی خداداد قابلیت تھی جس کو دیکھ کر سر سید مرحوم نے اس کام کے لئے ان کا انتخاب کیا تھا۔ غرض کچھ ہی ہو، اس میں ان کا مدمقابل نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب کو اصطلاحات وضع کرنے کا خاص ملکہ تھا۔ ایسے ایسے الفاظ دماغ سے اتارتے کہ باید و شاید۔ انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے مگر انگریزی اصطلاحات پر پورے حاوی تھے ۔ یہ ہی نہیں بلکہ یہاں تک جانتے تھے کہ اس لفظ کے کیا ٹکڑے ہیں، ان ٹکڑوں کی اصل کیا ہے ، اور اس اصل کے کیا معنی ہیں۔ اس بلا کا حافظہ لے کر آئے تھے کہ ایک دفعہ کوئی لفظ سنا اور یاد ہو گیا۔
الفاظ کے ساتھ انہوں نے اس پر بھی بہت غور کیا تھا انگریزی میں اصطلاحات بنانے میں کن اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے، انہیں اصولوں کو وہ اردو کی اصطلاحات وضع کرنے میں کام میں لاتے، اور ہمیشہ کامیاب ہوتے۔ میری کیا اس وقت سب کی یہی رائے ہے کہ اصطلاحات بنانے کے کام میں مولوی وحید الدین 'سلیم' اپنا جواب نہیں رکھتے تھے ۔ اور اب ان کے بعد ان کا بدل ملنا دشوار تو کیا ناممکن ہے ۔
عربی اور فارسی میں اچھی دسترس تھی۔ مگر وہ اردو کے لئے بنے تھے ، اور اردو ان کے لئے۔ خوب سمجھتے تھے اور خوب سمجھاتے تھے۔ زبان کے جو نکات وہ اپنے شاگردوں کو بتا گئے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ کالج کے لونڈے وہ مضمون لکھ جاتے ہیں، جو بڑی بڑی اہل قلم کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آتے۔
مولوی صاحب کیا مرے، زبان اردو کا ایک ستون گر گیا اور ایسا ستون گرا کہ اس جیسا بننا تو کجا، اس حصے میں اڑواڑ بھی لگانی مشکل ہے ۔ ان کی جگہ بھرنے کے لئے دوسرے پروفیسر کی تلاش ہو رہی ہے ۔ مگر عثمانیہ یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد لکھ رکھیں کہ چاہے اس سرے سے اس سرے تک ہندوستان چھان مارو، مولوی وحید الدین سلیم جیسا پروفیسر ملنا تو بڑی بات ہے، ان کا پاسنگ بھی مل جائے تو غنیمت اور بہت غنیمت سمجھو۔
مکمل مضمون یہاں