ایک ویڈیو کا سبق- قسط 1

سید رافع

محفلین
کل دوست کی بھیجی ہوئی یہ ویڈیو دیکھی سو یہ لکھنے کا خیال آیا۔


اپنے دوست طحہ کا بھیجا ہوا ریحام ٹوٹا شیخ رشید والا میں نے اپنی والدہ کو سنایا۔ وہ ایک جگہ بیٹھی رہتیں ہیں اور کم ہی ہنستی ہیں سو ان کو ہنسانے کے لیے۔ کل رات بھائی صاحب کے ہاں افطار تھا بھتیجے کی روزہ کشائی کے سلسلے میں اور اسکے ختم القران کے سلسلے میں۔ والدہ بھی موجود تھیں۔ بھابھی کے بھائی کا بیٹا اسکی عمر کوئی 2 سال ہے خوب گورا اور خوبصورت ہے۔ میں اسکی مسکرا مسکرا کر تعریف کر رہا تھا۔ بہن پاس ہی کھڑی تھیں کہنے لگیں کہ بھائی صاحب سے کیا ان کی والدہ میمن ہیں؟ میں نے بچے کو متوجہ کیا اور پوچھا کہ کیا تمھاری امی میمن ہیں؟ وہ جھٹ بولا نہیں۔ اپنی معصومیت میں ۔ میں اور سب لوگ قہقہ لگا کر ہنسے۔ میرا مقصد والدہ کو ہنسانا تھا وہ کل بخار میں تھیں اور ایک طرف ساری تقریب میں لیٹی رہیں۔



بتانا یہ مقصود ہے کہ ریحام کی کتاب کا ٹوٹا میں نے بھی سنایا اور قہقہ میں نے بھی لگایا لیکن اسکا کوئی مقصد تھا۔ بلاوجہ بھی ایسا ہو جاتا ہے۔لیکن ہنسنا اور مسکرانا کسے اچھا نہیں لگتا۔ اب اس ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ ہر ایک یونیک ہے۔ اسی لیے زور نہیں یاددھانی کرائی کہ بھائی رسول اللہ صلی علیہ وسلم یوں نہ ہنستے تھے۔ جب آپ کی مجلس ہوتی تو لوگ پچھلے جاہلیت کے قصے سناتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرمایا کرتے۔سنانے والے کو بھی پتہ اور سننے والے کو بھی پتہ کہ وہ دور گزر گیا۔ اگلی منزل پر پہنچ گئے۔ سو قصے سنانا سب صحیح لیکن اسکو پچھلا دور سمجھتے ہوئے۔ اب معلوم نہیں ریحام کی کتاب اور سمندر کی گلابی باتیں اب بھی محبوب ہیں یا وہ محض پچھلے دور کے قصے ہیں۔



اس ویڈیو میں کہا گیا کہ زندگی ایک امتحان ہے اور ہر ایک کا امتحانی پرچہ مختلف ہے۔ یہ دھوکہ ہے۔ دھوکہ یہ ہے کہ ہر ایک کو الگ الگ امتحان دینا ہے۔ غلط سو فیصد غلط۔ ہم سب مل کر ایک امتحان دے رہے ہیں۔ یہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی خونخوار ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ ہم سب بھای بھای یا تو ہم مذہب بھای یا پھر انسان ہونے کے ناتے بھائ۔ ہر ایک کو دوسرے کا امتحان کا پرچہ حل کرنے میں مدد کرنی ہے۔ ہر وقت۔



اس ویڈیو میں کہا گیا کہ یورنیورسٹیز کی وجہ سے ذہنی امراض بلندی کی سطح پر ہیں۔ یہ ذہنی مرض نہیں محض غم ہے۔ یہ الگ الگ امتحان دینے اور مدد نہ ملنے کا نتیجہ ہے۔ جتنا جو توحید سے دور ہو گا وہ الگ سے الگ ہوتا جائے گا۔ زیادہ تر انسان اسکو دوست نہیں دشمن دکھائی دیں گے۔ سو اس دنیا میں توحید عام کرنا ایک مسلسل جنگ ہے۔ تاکہ سب بھائی بھائی بن کر رہیں۔ کسی کی بیوی کی لکھی ہوئی کتاب بندگان توحید میں لغو اور معیوب سمجھی جائے گی۔ فرزندگان توحید کا کام یہ ہو گا کہ میاں بیوی چاہے الگ بھی ہوں راضی کروا دیں۔ نہ کہ ان کے جھگڑوں سے مزے لیں۔ بندگان توحید کا کام یہ ہو گا کہ آن لائن فورم فورم دھونڈیں کہ کون یورنیورسٹی یا کسی اور وجہ سے غم زدہ ہو رہا ہے اور اسکی مالی مدد کریں، جذباتی مدد کریں تاکہ امتحان آسان معلوم ہو۔ ایسا نہ لگے کہ انسانیت 7 ارب امتحانوں میں مشغول ہے۔ لگے کہ سب ایک ہی امتحان دے رہے ہیں۔



اس ویڈیو میں کہا گیا کہ ہم نظری ہیں عملی نہیں ہیں۔ جابجا اس ویڈیو میں غم اور ناامیدی کے الفاظ ہیں جیسے ستم ظریفی۔ یعنی ستم ظریفی ہے کہ ہم عملی نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ شیطانی راستے بہت سارے ہیں لیکن صراط المستقیم ایک ہے۔ بات ایک راستے کی ہو تو انسان عملی بھی ہو۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو نے لامحدود راستے پیدا کردیے ہیں۔ یہ سب جھاگ ہے۔ راستہ ایک ہے۔ عمل کرنے کی راہ ایک ہے۔ اس راستے پر عمل کرنے والوں نے اپنی روشن مثالوں سے راستے کو مذید روشن اور واضح کر دیا ہے۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ خود بھی راہ چلتے رہیں اور دیگر کو بھی راستے کی یاد دھانی کراتے رہیں۔ توحید کے ذریعے بندوں کو جوڑیں اور اس لاینحل غم سے انسانوں کو نجات دیں کہ راستے لامحدود اور امتحان الگ الگ ہیں۔



اس ویڈیو میں جو موسیقی استعمال کی گئی ہے وہ غم اور پریشان کیفیت کے سرگم سے پر ہے۔ ایسی دھن ذہن پر برا اثر ڈالے گی۔ ویڈیو میں کہا گیاکہ موجودہ علوم جیسا کہ کوڈنگ، اسٹیٹسٹک اور ہسٹری لغو ہے اور ہمارا مستقبل متعین کرنے میں غیرضروری۔ یہ بات ایک حد تک صحیح ہےکہ یہ علوم قطعی زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں بتاتے۔ سو جن کو توحید کے راستے کو علم نہیں ان کو بتانا ہو گا کہ قطعی علم یہ ہے اور اس میں جتنی بات کی جائے گی وہ ذہنوں پر اچھا اثر ڈالے گی۔ نئے نئے علم ملیں گے۔ سچ کے ساتھ جتنی دیر رہا جائے ذہن اتنا ہی ٹوٹ پھوٹ سے بچتا ہے اور تندرست و توانا غم سے دور ہوتا ہے۔ دل کو صفا حاصل ہوتا ہے اور پھر من یہ چاہتا ہے کہ سب کو یہ نعمت ملے۔



اس ویڈیو میں کہا گیا کہ ہم ایک نقطہ نظر پر توجہ رکھتے ہیں اور مختلف انواع کے نقطہ نظر پر ہماری توجہ نہیں جاتی۔ بات صاف ہے کہ اگر نقظہ نظر تقسیم کرو اور حکومت کرو کی کوک سے جنم لے رہا ہے تو اسکو توحید سے پاک کرنا ہوگا۔ اگر توحید ہی میں محتلف نقطہ نظر ہیں تو وہ علمی ہوں گے اس میں سب سے پہلے اخلاص پر توجہ دینی ہو گی کہ اخلاص موجود ہے کہ نہیں۔ اگر وہ بھی موجود ہے تو علم کی کمی اور زیادتی کو دیکھنا ہو گا۔ اگر علم بھی برابر سر برابر ہے تو پھر حق تک، توحید تک پہنچنے کے دو راستے معلوم ہوگئے۔ اس تمام عمل میں خوشی، خیر خواہی اور محبت غالب ہو گی۔



اس ویڈیو میں کہا گیا کہ ہم اسکول میں ہم کو سبق پہلے ملتا ہے اور امتحان بعد میں جبکہ زندگی میں ہم کو امتحان پہلے ملتا ہے اور سبق بعد میں۔ بات یہ ہے کہ یہ مرد کتاب سے واقف نہیں۔ کتاب ایک سبق ہے۔ یہ بچوں میں والدین اور مرد دوسرے مردوں میں ایک والد کی طرح منتقل کرتے ہیں۔ وہ استنجاء کرنے سے لے کر جنگ کے اصول سب سکھا دیتے ہیں۔ سو جو کتاب سے واقف نہیں وہ تجربہ کر کر کے سیکھتا ہے۔ اس کا امتحان مشکل ہو جاتا ہے۔ سو جن کو توحید اور کتاب سے واقفیت ہے ان کے لیے اس دنیا میں ہر دن ایک جنگ ہے کہ اس نعمت کو عام کریں۔ جتنے زیادہ لوگ توحید کے متوالے ہوتے جائیں گے دینا اطمینان میں آتی جائے گی کہ سبق پہلے اور امتحان بعد میں ہو گا۔ اور ہر امتحان میں ارب ہا ارب انسان پورے خلوص اور محبت سے ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں گے۔



واللہ اعلم
 

محمداحمد

لائبریرین
میرے خیال سے ویڈیو میں یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ لگے بندھے طریقوں سے زندگی بسر کرنے سے آپ انہی کے ہو کر رہ جائیں گے۔ ہر شخص کے پاس منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔ سو کسی کو نقل کرنے کے بجائے اپنے آپ کو سمجھ کر زندگی کو اپنی خاص طرز پر بسر کرنے کی کوشش کی جائے۔

توحید اور دینی طریقہء زندگی سے متصادم نہیں ہیں یہ باتیں۔

رہی یہ بات کہ سب کا امتحان مختلف ہوتا ہے تو اُس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ واقعی سب کا امتحان مختلف ہوتا ہے ۔ معروف جملہ ہے کہ اللہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر شخص اپنے ماحول اور حالات و واقعات میں رہتے ہوئے ہی جانچا جائے گا اور کسی پر اُس کی وسعت سے زیادہ تکلیف وارد نہیں ہوگی۔
 

سید رافع

محفلین
محمد احمد بھیا بات یہ ہے کہ ویڈیو میں اس طریقہ زندگی کو واضح نہیں کیا گیا کہ ناظر کو تمام جوابات مل جائیں۔ کوئی راہ عمل مل جائے۔ کوئی طریقہ مل جائے۔ بلکہ سوال در سوال میں ناظر کو ایک موسیقی اور جملوں کی ترکیب سے الجھایا گیا ہے۔

ہر شخص کے پاس منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔ لیکن انکو نکھارنے اور معلوم کرنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے۔ وہ نہیں بتایا گیا۔

توحید ہی واحد طریقہ ہے زندگی گزارنے کا طریقہ ہے۔ یہ ویڈیو اس بات کی نمائیندہ ہے کہ کیا ہوتا ہے جب توحید نظرسے اوجھل ہو جائے۔ پھر سوال ہی سوال اور تجربے ہی تجربے رہ جاتے ہیں۔ سو یہ واضح فرق ہے۔

اور یہ جو کہا گیا کہ اللہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔ تو اللہ کے بندے بھائ بھائ بن کر رہیں تو "قرض کا امتحان" مہلت اور معافی بن جاتا ہے اور اگر ویڈیو کی سمت تجربہ کرنے لگیں تو "قرض کا سود" طریقہ زندگی بن جاتا ہے۔ پھر اللہ کے بندے قرض لینے کے لیے جائیداد قرق کرتے ہیں۔ رہن کا مال ضبط کر لیتے ہیں۔ سوآزمائش مانند عذاب بن جاتی ہے جبکہ بذریعہ توحید دکھ و سکھ مل جل کر بانٹیں جاتے ہیں۔ اس پر بقیہ کو قیاس کر لیں۔
 
Top