ایک ٹیکسی ڈرائیور کی ڈائری

چاند رات


لیجئے چاند رات آگئی ۔ ایک مہینہ قید میں رہنے والے مکمل طور پر کپڑوں سے باہر ہو رہے ہیں ۔ سب سے پہلا فون منال کا آیا ۔ دوسرا فون دوبئی پام سے آیا ۔ پھر جو تانتا بندھا تو رات 2 بجے تک کام کام اور صرف کام ہوتا رہا ۔

عید کا دن

عید نماز سے پہلے یاسمین درمسی کا فون آگیا ۔ یہ روشن موبائیل میں کام کرتی ہے اور افغانستان سے اسکا تعلق ہے اسے ابھی ابھی ایئر پورٹ جانا ہے اسے اتار کر آکر نماز پڑھی تھوری دیر بعد سوفی ٹیل سے فون آگیا کہ جی آجاؤ پہنچ گئے کہنے لگے یہ سعودی فیملی ہے انہیں لے کر جاؤ یہ ام فیصل کی فیملی ہے ۔ انکا اپنا گھر مکہ میں ہے جو کہ رمضان میں کرائے پر چڑھا کر یہ خود دوبئی آجاتے ہیںاور اپنے دن دوبئی کے 5 تارا ہوٹلوں میں گزارتے ہیں ۔
 
عید کے دوسرے دن ضیافہ سے فون آگیا کہ فل ڈے بکنگ ہے ایک فیملی کو العین دکھانے لیجانا ہے انہیں العین کی سیر کروائی ۔ کام کا اتنا پریشر ہے کہ ڈائری لکھنے کا وقت نہیں مل پا رہا ۔ پورا رمضان سو کر گزارا ہے تو اب کسر تو نکلے گی نا اور اوپر سے خاص بات یہ کہ اس وقت دوبئی میں صرف میں ایک ڈرایئور موجود ہوں باقی اکثر چھٹی پر ہیں یا پھر 5000-10000 والے اعلان کو سن کر گھبرا کر بیٹھ گئے ہیں ۔ زندگی تو جیسے 220 کی اسپیڈ پر چل رہی ہے اللہ خیر کرے
 
عید کا پانچواں دن اور پھر کے سات دن


لیجئے اپنے (ج-ت) تشریف لے آئے ہیں ۔ بچوں کے ساتھ آئے ہیں انہیں ایئر پورٹ چھوڑا اور پھر ایک ہوٹل سے فون آگیا مصر کی شرم الشیخ کی ایک فیملی ہے جنکے ساتھ سات دن کی بکنگ ہے ۔ جانے پر علم ہوا کہ یہ تو میڈم فاطمہ ہیں جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ چھٹیاں گزارنے آئی ہیں ۔ بہت سمجھدار فیملی ہے ۔ کل برجمان پر چار گھنٹے ٹیکسی کے انتظار کی زحمت اٹھا کر انہوں نے فل ڈے بکنگ کرنا پسند کیا ہے 2 گاڑیا تھیں میں اور چاند ہم دونوں نے انکے ساتھ سات دن ایسے گزارے جیسے پھول ہوں جاتے جاتے میڈم پیرا نمبر لے گئیں اور کہنے لگیں کہ دسمبر میں میرا بھائی آ رہا ہے اسکی مکمل ذمہ داری تمہاری ہوگی ۔ میں تمہیں مصر سے ہی فون کر کے اسکی معلومات دے دوں گی
 
27 اکتوبر 2007

آج ایک پارٹی کے ساتھ فل ڈے بکنگ ہے ۔ ابوظبی جانا ہے ۔ عزیز صاحب پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ انکے ساتھ دو مرد اور دو عورتیں جنکا تعلق رومانیہ سے ہے ۔ ہیںانکاساؤتھ افریقہ میں ٹیکسٹائل کا بزنس ہے ۔ انہیں لیکر ساڑھے گیارہ بجے ہم دبئی سے روانہ ہوئے ابوظبی ملکو فیکٹری میں انکی میٹنگ تھے 4 گھنٹے بعد میٹنگ ختم ہوئے تو میلکو کے مالکان میں سے انکے چھوٹے بھائی ہمارے ساتھ آگئے جناب کا تعلق بلال گنج سے ہے ۔ راستے میں کچھ فرینکنیس ہوئی تو انکی مترجم پوچھنے لگی کہ یہ "شونے" کا کیا مطلب ہے مطلب بتانے پر خوش ہوئی اور بتانے لگی کہ انکی فیکٹری میں کافی پاکستانی ہیں تو وہ اسے "شونے" کہ کر بلاتے ہیں ۔ پھر پوچھنے لگی کہ "گشتی" کا کیا مطلب ہے اور " لارا لپہ" اور "کولی بچی" مجھے سب لوگ یہ بھی کہ کر پکارتے ہیں ۔ میں جس سے بھی پوچھتی ہوں یہی کہتے ہیں کہ اسکا مطلب نیک پاکباز شریف عورت ہے مگر مجھے انکی آنکھوں میں شرارت نظر آتی ہے سو آپ لوگ مجھے درست مطلب بتا دیں ۔ ہم دونوں میں اور وہ میلکو والوں کا بھائی یہی سوچتے رہے کہ اسے ہم کیا جواب دیں اور ہمارے پاکستانی بھائی کس عزت کے طلبگار ہیں بیرون ملک میں جبکہ وہ خود کسی کو عزت دینے کو تیار نہیں ۔
 
28-10-2007

آج "و"صاحب کا فون آگیا کہ خوشی محمد آجاؤ معلوم ہوا کہ "و" صاحب پہلے ہی آچکے ہیں اور اس بار انکے ساتھ "ق" صاحب اور دو لڑکیاں بھی ہیں رات ساڑھے گیارہ بجے انکی جگہ پہنچا اور انہیں لیکر کارلٹن کی دھڑکن میں لے گیا جہاں سے واپسی پر صاحب کے ساتھ ایک نئی لڑکی اور نیا آدمی تھے میں اسے دیکھ کر حیران ہی رہ گیا۔ انکا نام نہیں لکھوں گا حتی کہ (ا۔ب۔ت) کے انداز میں بھی نہیں کیونکہ وہ پہچانی جائیں گی اشارہ کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ اکثر اپنے اس نام نہاد بھائی کے ساتھ ہی پائی جاتی ہیں ۔ لاہور سے تعلق ہے ۔ شوبز سے تعلق ہے ۔
 
"و" صاحب کے ساتھ اس لڑکی کا ساتھ تین دن تک رہا جبکہ ان تین دنوں میں روزانہ "و" صاھب اس لڑکی کے ذریعے مجھے پیسے بھجواتے رہے ۔ تیسرے دن جب اس لڑکی نے مجھے پیسے دیئے تو ان میں ایک سو درہم کم تھا ۔ میں نے ان پیسوں کا تقاضا کیا تو کہنے لگیں کہ بھئی اتنے پیسے کیسے بنتے ہیں ۔ میں نے حساب بتا دیا کہنے لگیں کہ ابھی اتنے ہی لے کر چلے جاؤ صاحب سے بات کر لینا وہ تمہیں بتا دیں گے میں نے جب یہ سنا تو واپس آگیا اور راستے سے "و" صاحب کو فون کیا وہ پہلے ہی گرم بیٹھے تھے مجھ پر برس پڑے فرمانے لگے بھئی خوشی اب تمہیں وہ پیسے دے بھی دیں مگر تمہیں خود علم ہونا چاہیئے کہ تم کس سے بات کر رہے ہو اب میں تم سے بہت ناراض ہوں ۔ میں نے جواب میں خوش اخلاقی سے جواب دیا کہ حضور بات پیسوں کی نہیں ہے اگر میری کسی بات سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں ۔ اور اب مجھے وہ پیسے بھی نہیں چاہیئں ہاں اتنا ضرور عرض کر دوں کہ اگر مجھے یہ علم ہونا چاہیئے تھا کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں تو آپ کو بھی کچھ خیال رکھنا چاہیئے تھا کہ آپ کس کے ہاتھ پیسے بھجوا رہے ہیں اتنا کہ کر میں نے فون بند کیا اور ان پیسوں کو بھول کر سوچنے لگا کہ یا تو مجھے حساب خود دیتے تو میں اگر ان صاحبہ سے بات بھی کرتا تو میں خطا وار تھا یا پھر مجھے کہ دیتے کہ بھئی جو دیں لیتے رہنا میں خود بعد میں حساب کر لوں گا تو بھی میں بات کو کنٹرول کر لیتابہر حال اپنے ریگولر کلائینٹس میں سے "و" صاحب کا ورق نکال کر میں گھر کی طرف چل دیا ۔
 
آج ایک ملائیشین فیملی کے ساتھ ابوظبی اور پھر العین کا ٹرپ تھا ۔ ہم لوگ ابوظبی گئے وہاں ان لوگوں کو الراحہ بیچ دکھائی پھر کورنیش آف ابوظبی اور میرینا مال ۔ قصر پیلس ۔ قصر رئیس الدولۃ دکھانے کے بعد سفینہ ریسٹورنٹ کے سامنے کچھ تصاویر بنائیں ۔ پھر ہم العین کی طرف روانہ ہوگئے العین چڑیا گھر دیکھا ۔ پھر نیشنل میوزیم آف ہسٹری ۔ کیمل مارکیٹ ۔ قلعہ المربعہ ۔ قلعہ المویجعی ۔ ہیلی آرکیولوجیکل پارک ۔ ہیلی فن سیٹی دکھانے کے بعد روانگی ہوئی جبل حفیت کی طرف جب ہم جبل حفیت سے اتر کر مبذرہ خضرہ پہنچے تو مجھے فون آگیا کہ بے نظیر کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ مہمانوں کو بتایا تو انکا موڈ بھی اپ سیٹ ہوگیا انہوں نے مجھے کہا کہ واپسی چلو اور میں انہیں لے کر واپس دوبئی آگیا ۔ موڈ بہت خراب ہے دل ہی نہیں چاہتا کام کرنے کو ۔

ابوظبی میں میرے مہمانوں کی تصویر

photo0040jp5.jpg


العین جبل حفیت کی میری اپنی بنائی ہوئی ایک تصویر (اسکے کاپی رائیٹ میرے اپنے ہیں)

photo0045up0.jpg
 
آج صبح نو بجے میٹرو پولیٹین ہوٹیل دبئی سے ایک ابوظبی کا سیٹی ٹور تھا ۔ 4 یونانی افراد جن میں دو مرد اور دو خواتین شامل تھیں ۔ میرے ہمراہی ہوئے ۔ دبئی سے نکلتے نکلتے دس بج گئے جب ہم ابو ظبی کی حدود میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ دوسری سائیڈ مکمل طور پر بند ہے ۔ ایک جنگ کا سا سماں ہے بے شمار گاڑیاں اپس میں ٹکرا چکی تھیں ۔ عجیب و غریب منظر تھا ۔ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی جو آپس میں ٹکرائی ہوئی تھیں ۔ ہیلی کاپٹرز آ رہے تھے ایمبولینسیں ۔ پولیس کی گاڑیاں ۔ فائر بریگیڈ۔ ریسکیو سی آئی ڈی نہ جانے کتنے ادارے مصروف عمل تھے ۔ ان گنت گاڑیاں جل چکی تھیں ۔ کم از کم دو گاڑیاں مکمل طور پر پچکی ہوئی میں نے خود دیکھیں ۔ چالیس کوئیلہ گاڑیاں میں نے انگلیوں پر گنیں اور اللہ کا شکر کرتا ہوا ابوظبی روانہ ہو گیا ۔ مہمانوں کو الراحہ بیچ دکھا کر لولو جزیرہ پر لے گیا وہاں ہیری ٹیج ولیج دکھایا ۔ پھر امارات پیلس ہوٹل اور کورنیش دکھا کر واپس لے آیا ۔ دل بڑا خراب ہے ۔ سنا ہے کہ لاہور میں بھی بم چلے ہیں اللہ خیر کرے ۔ ہمارا ھال تو قربانی کے بکرے والا ہے ۔ ہر جگہ اسے چھریاں نطر آتی ہیں ۔ ادھر حادثہ ادھر بم اچھی خبر کہیں سے بھی نہیں ۔
 
بت دنوں سے خوشی سے بات نہیں ہوئی تھی ۔ خاص طور پر جب سے ابوظبی روڈ والا حادثہ ہوا تھا ۔ کل رات اچانک ہی مجھے مکتوم روڈ پر اسکی گاڑی نظر آئی میں دیکھا تو جناب اکیلے تھے لہذا پیچھا کرتے ہوئے نیھال ہوٹل کی پارکنگ تک پہنچ گئے ۔ اس نے تو سیدھی ہوٹل میں گاڑی ڈال دی مگر مجھے پارکنگ نہ مل سکی ۔ گھومتے گھومتے کوئی بیس منٹ بعد پارکنگ ملی تو گاڑی لگا کر سیدھا ہوٹل کی لابی میں پہنچا۔ خوشی وہاں نہیں تھا ۔ اسکی گاڑی ہوٹل کے باہر تھی ۔ ایک ہوٹل اسٹاف سے پوچھا تو کہنے لگا ارے یہ گاڑی یہ تو خوشی کی ہے اور وہ فرسٹ فلور پر "دلبر" ۔ یا" محبت" میں ہوگا ۔ اب نام سے اندازہ ہوا کہ یہ کہاں کی بات کر رہا ہے پھر سوچا اب آتوگیا ہوں تو مل کر ہی جاؤں ۔ لفٹ سے اوپر گیا تو فرسٹ فلور پر دائیں طرف محبت اور بائیں طرف دلبر تھا ۔ پہلے دلبر میں دیکھا ۔ دروازہ کھلتے ہی اسپرٹ جیسی بو اور اس میں گھلا ہوا دھواں اور شاید لاؤڈ اسپیکرز پر کوئی گانے چل رہے تھے دل پر جبر کر کے اندر دیکھا مگر خوشی وہاں نہیں تھا۔ اب محبت کی باری تھی دروازہ وا کرتے ہی سامنے خوشی صاحب پر نظر پڑی ۔ ماحول دلبر سے کچھ مختلف نہ تھا مگر خوشی پہلے سے بہت مختلف ہو چکا تھا ۔ ہیلو ہائے کی اور اسے کل ملنے کا کہ کر نکل کر آگیا ۔ اس سے زیادہ بیٹھنے کی میرے لئےگنجائش نہیں تھی ۔

اب صبح سےفون ٹرائی کر رہا ہوں اور خوشی صاحب ہیں کہ جواب ندارد ۔۔۔ جیسے ہی ملاقات ہوتی ہے انکی داستاں آپ تک پہنچانے کی سعی کروں گا ۔
 
اس دن کے بعد نہ خوشی سے ملاقات ہوئی نہ میں نے خود سے کوشش کی ۔ کچھ دن پہلے محفل میں کسی نے خوشی کے متعلق سوال کیا پھر راسخ صاھب سے بھی ایم ایس این پر بات چیت ہوئی تو سوچا کہ رابطہ کی کوشش کروں ۔ پرسوں فون کرنے پر خوشی محمد کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔ اور جو گفتگو ہوئی حاضر خدمت ہے

میں : ہیلو السلام علیکم
خوشی: وعلیکم السلام کون۔۔؟
میں : فیصل بول رہا ہوں خوشی ۔۔! کیسے ہو یار
خوشی: الحمدللہ جی میں نے پہچانا نہیں ۔۔! فیصل صاحب کون سے والے ۔۔۔؟( اوہ کمپیوٹر والے۔۔۔!) کیا حال ہیں باؤ جی کدھر ہو اتنا عرصہ کہاں رہے
میں: جی جی کمپیوٹر والا فیصل یار میں تو ادھر ہی ہوں مگر تم نظر نہیں آتے کافی دن ہوئے تمہیں رقہ اسٹریت پر کسی ہوٹل میں دیکھا تھا پھر بڑی کوشش کی رابطے کی مگر تم سے بات ہی نہ ہو سکی۔۔!
خوشی: جی باؤ جی مجھ سے بات کر کے کیا لینا ۔ دیکھا ہوگا کسی مجرے شجرے (نائیٹ کلبز کو یہاں عرف عام میں مجرا بھی کہا جاتا ہے) میں ۔ بہر حال حکم کرو کوئی خدمت شدمت ۔۔؟
میں : بس یار بہت دن ہوئے تم سے بات نہیں ہوئی تھی سوچا فون کر کے خیر خریت کا پتہ لے لوں
خوشی: سرجی میری خریت کا پتہ لینا تھا یا پھر کوئی قصے کہانیاں سننے کا موڈ بن رہا ہے ۔۔؟
میں : خوشی جان ایسی باتیں نہیں کرتے ۔ اگر تم سے ملوں گا تو جو مناسب سمجھو بتا دینا پھر اسے میں پوسٹ کردوں گا اور دوسری بات اگر قصے کہانیاں میں لکھتا ہوں تو اپنے پاس سے نہیں بلکہ تمہاری اجازت سے صرف وہی بات لکھتا ہوں جو تم بتاؤ ورنہ نہیں لکھتا ۔
خوشی: باؤ جی آپ بھی نا ایویں ای سیریس ہو جاتے ہو بہرحال جب کہو جہاں کہو مل لیتے ہیں ۔ بس آج کل ایک شوفر چل رہا ہے وہ احسن صاحب ہیں ناں کراچی والے ان لوگوں کے ساتھ 26 تاریخ کو ختم ہوگا پھر 27 یا 28 کو آپ سے ملاقات ہوگی ۔
میں : بہت بہتر تو اب رکھتا ہوں
خوشی: ٹھیک ہے جی اللہ حافظ
میں: اللہ حافظ
 
Top