ایک چینی ۔۔ ۔ اردو کا شیدائی
79 سالہ ڈاکٹر یونگ وان لئیو شاید ہندوستان میں چینی قومیت رکھنے والے واحد زندہ اردو شاعر ہیں انھیں " شیداچینی" بھی کہا جاتا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ اردو غزلوں ، نظموں بلکہ اردو شعر و شاعری نے انھیں اس عمر میں بھی نو جوان بنائے رکھا ہے ۔ وہ زبر دست موسیقارانہ آہنگ کے ساتھ اردو کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ بظاہر وہ کمزور اور ضعیف نظر آتے ہیں لیکن جب وہ اردو کے تعلق سے باتیں کرتے ہیں تو ان میں توانائی عود کر آتی ہے ۔
حال ہی میں ان کی اردو غزلوں اور نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ
" لکیروں کی صدا " منظر عام پر آیا ہے ۔
وہ اپنی گفتگو کا آغاز اردو ثقافت کے زیر اثر" اداب " سے کرتے ہیں اور درمیان میں حضور ، جناب ، اور صاحب جیسے الفاظ استعمال کرتے جاتے ہیں ۔
حال ہی میں مشہور انگریزی صحافی سندیب بھاسکر نے جمشید پور میں ان کی رہائش گاہ پر انٹرویو لیا تھا جس کے اقتباسات پیش ہیں ۔
1 : اردو ادبی حلقوں میں آپ کو" شیداچینی " کے نام سے جانا جاتا ہے آپ کو یہ نام کیسے ملا ؟
ج : میں اب تک نہ چین جا سکا ہوں اور نہ کوئی ارادہ رکھتا ہوں ۔ ہوسکتا ہے کہ میرے کچھ رشتہ دار وہاں ہوں لیکن میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا ۔ شیدا کے معنی اردو میں عاشق کے ہیں اور چینی کا مطلب چین میں پیدا ہونے والا ۔ میں چونکہ مشاعروں میں جاتا رہا ہوں اس لئے مجھے شیدا چینی کا نام اختیار کرنا پڑا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا چینی شخص ہوں جو اردو پر فدا ہے ۔ مجھے فراق گورکھپوری اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے اور رانچی کالج کی بزم ادب نے مجھے تا حیات رکنیت سے بھی سرفراز کیا ہے ۔
2 : غالباً آپ اردو کے پہلے ایسے شاعر ہیں جن کے والدین چینی تھے ۔اس بات سے آپ کو کس حد تک مدد ملی ۔؟
ج : آپ نے سوال غلط آدمی سے کیا ہے ۔اگر آپ میرے مشاعروں میں شرکت کر چکے ہوتے تو آپ کو کچھ اندازہ ہوجاتا ۔ جی ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے مشاعروں میں داد ملتی رہی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اردو شاعری نے مجھے نت نئے تصورات سے مالا مال کیا ہے ۔ اور یہ اردو زبان کا مجھ پر عظیم ترین احسان ہے ۔
3 : اردو زبان کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں ؟ کیا اس زبان میں غیر مسلم ادیبوں اور شاعروں کی کوئی گنجائش ہے ؟
ج : ارددو ایک شریں زبان ہے جو عوام کے دلوں سے بر آمد ہوئی ۔ لیکن یہ دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے کہ اس زبان کو ایک مخصوص فرقہ سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی زبان عوام کے درمیان اس کے استعمال سے پنپتی ہے ۔ چاہے وہ گجراتی ہو مراٹھی پنجابی یا کوئی اور زبان ۔ جن زبانوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کا مخصوص علاقوں سے تعلق رہا ہے اور عوامی سطح پر بلا لحاظ مذہب وملت یہ زبانیں استعمال کی جاتی ہیں ۔
جب کسی زبان کو ایک مخصوص فرقہ سے وابسطہ کر دیا جاتا ہے تو اس کی روح زائل ہوجاتی ہے ۔ منشی پریم چند اور رکھوسہائے فراق گور کھپوری کے کارناموں کو کون فراموش کر سکتا ہے ۔ یہ دونوں مسلمان نہیں تھے لیکن اردو زبان میں ان کے شاہکاروں کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں اس زبان نے ایک عظیم رول ادا کیا ہے ۔
4 : اس زبان کی جانب آپ کیسے ملتفت ہوئے ؟
دوسری جنگ عظیم کے دوران میرا خاندان کلکتہ سے جمشید پور منتقل ہوگیا تھا ۔ چونکہ ہم مالی دشواریوں سے دو چار تھے اس لیے مجھے میرے بھائی کے ساتھ ایک اردو میڈیم اسکول میں ہی داخلہ مل سکا ۔ شروع شروع میں مجھے اپنے استادوں کی ڈانٹ سننے کو ملتی تھی ۔ کیوں کہ مجھے اردو حروف سیکھنے میں کافی دقت پیش آ رہی تھی ۔ لیکن 6 مہنے کے عرصے میں ہی مجھے اردو لکھنا اور پڑھنا آگیا اور جب بعد میں ایک انگلش میڈیم اسکول میں آگیا تب بھی اردو میری کمزوری بنی رہی ۔ انھیں دنوں میں نے "شیدا" کو تخلص اختیار کیا 1985ء میں ، میں نے شاعری شروع کی اور مشاعروں میں حصہ بھی لیتا رہا ۔
5 : کیا یہ بات صحیح ہے کہ جب ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ ہوئی تھی تب آپ نے اپنی شاعری اور تحریروں کے ذریعہ چین کے خلاف اپنے غیض و غضب کا اظہار کیا تھا؟
ج جی ہاں ! ان دنوں میں نے کئی نظمیں کہی تھیں اور اپنے غصہ کو مشاعروں تک پہنچایا تھا ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ کلام میرے ہاں محفوظ نہ رکھ سکا اور آج مجھے یاد بھی نہیں رہا ۔
6 : شاعروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ہی دنیا میں گم رہتے ہیں ۔ آپ کے خاندان والے کس حد تک اس معاملے میں آپ کی مدد کر سکے ؟
ج : اگر مجھے اپنے افراد خاندان کی تائید وہمت افزائی حاصل نہیں ہوتی تو میں اس طویل عرصہ تک اردو سے وابستہ نہیں رہا ہوتا ۔خدا کے فضل سے 2000ء میں نے اپنی شادی کی گولڈن جوبلی منائی ہے ۔
7 : خود کو آپ ایک ڈاکٹر سمجھتے ہیں یا شاعر ۔؟
ج : اس میں کوئی شک نہیں کہ میری پہلی محبت شاعری ہے ۔ میں اردو غزلوں ، نظموں کے درمیان ہی سانس لیتا ہوں اور یہی میرے وجود کا ثبوت بھی ہے ۔ میڈیکل پریکٹس تو میرے لئے روز گار کا ایک ذریعہ ہے ۔
بشکریہ : روزنامہ اعتماد