محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ایک ڈراؤنا خواب
محمد خلیل الرحمٰن
بہت سال گزرے ہیں اس بات کو
کوئی دوش دیوے نہ حالات کو
کہ مردوں کی عادت کا نہ تھا جواب
کہیں چال اُلٹی، چلن تھے خراب
جو مردوں کا دیکھا یہ طرزِ کہن
بنالی خواتین نے انجمن
جو ظالم تھا شوہر وہ مارا گیا
ہر اِک قرض اُس کا اُتارا گیا
مظالِم کی ہر اِک کے لسٹیں بنیں
جو اِس نظم کی ہیں بنائے بریں
کہیں پر جو شہنائیاں بج اُٹھیں
یہ دھرنا دیئے واں پہ بیٹھی رہیں
پکڑوا دئیے کان مردوں کے واں
جو مانا نہیں اس کو دیں گالیاں
کہیں حال مردوں کا یہ ہوگیا
تھا ہرکوئی گھر کی طرف بھاگتا
بس اِک نام بیوی کا جپنے لگے
بری عورتوں سے بدکنے لگے
جنھیں زعم اپنی جوانی پہ تھا
انھیں چوک پر اُلٹا لٹکا دیا
یہی حال ہر ایک کا ہوگیا
کلیجے کو ہر کوئی تھاما کیا
کوئی دوسری کابھی گر سوچتا
اسے دیتیں بس ایک دھتا بتا
ایمیزان تھیں یا خواتین تھیں
وہ حسنِ عجم، لعبتِ چین تھیں
جو یہ حال دیکھا تو ہم کٹ لیے
جو بیوی ہے اپنی ، اُسی کے ہوئے
اچانک گھٹا سر پہ چھانے لگی
کہ ہر سمت سے آندھی آنے لگی
جو کڑکی ہے بجلی تو ہم کانپ اُٹھے
جو لرزے تو جاگ اٹھّے ہم خواب سے