ایک کاوش۔۔۔برائے اصلاح۔۔۔محترم جناب الف عین صاحب سے نظرِ کرم کی درخواست ہے۔

وجدان شاہ

محفلین
اب تو چڑھتا ہی نہیں اور کسی جام کا رنگ
اِتنا گہرا ہے محبت ترے الزام کا رنگ

اپنے ہر خواب سے ہیں یاس کے سائے لپٹے
ایسے دھندلایا ہے جیون کی ہر اِک شام کا رنگ

زیست پہ جنگ کےمیداں کا گماں ہوتا ہے
اِس قدر لال ہوا گردشِ ایّام کا رنگ

ہم نے جب اپنے دلِ زار کا قصّہ چھیڑا
زرد پڑنے لگا یارو مرے گلفام کا رنگ

وقت کا شُکر بجا لاتا ہے دِل کا پنچھی
جو اُڑاتا ہی چلا جاتا ہے ہر دام کا رنگ

ہے وہی سال برہمن کی بشارت تھی جو
شوخ سا ہونے لگا ہے دلِ ناکام کا رنگ

وقت کی تیز نظر دیکھ رہی ہے وجدانؔ
آپ کے شعر پہ چڑھتا ہوا الہام کا رنگ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے ۔واہ بہت خوب۔وجدا ن شاہ صاحب۔
جیون اور پنچھی جیسے الفاظ غزل میں اختیار کیےگئے لہجے اور آہنگ سے موافق نہیں لگ رہے یہ عموماً گانوں گیتوں کا سا تاثر دیتے ہیں ۔
نیز اسی نطر سے دیکھا جائے تو لال کی بجائے سرخ شاید لفظی طور سے بہتر ہو۔یہ ذاتی رائے ہے ۔
 
زیست پہ جنگ کےمیداں کا گماں ہوتا ہے
اِس قدر لال ہوا گردشِ ایّام کا رنگ
بہت خوب کیا کہنے خوبصورت ہے غزل یہ شعر مجھے زیادہ پسند آیا ۔
لال سے متعلق شاہ جی کی بات صائب معلوم ہوتی ہے۔۔باقی شعر آپ کا ہے۔
 

وجدان شاہ

محفلین
بہت اچھی غزل ہے ۔واہ بہت خوب۔وجدا ن شاہ صاحب۔
جیون اور پنچھی جیسے الفاظ غزل میں اختیار کیےگئے لہجے اور آہنگ سے موافق نہیں لگ رہے یہ عموماً گانوں گیتوں کا سا تاثر دیتے ہیں ۔
نیز اسی نطر سے دیکھا جائے تو لال کی بجائے سرخ شاید لفظی طور سے بہتر ہو۔یہ ذاتی رائے ہے ۔
بہت نوازش سرکار۔۔۔اساتذہ کی طرف سے مکمل اصلاح کے بعد نظر ثانی کرونگا
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، عاطف سے میں مکمل اتفاق رکھتا ہوں، بطور خاص جیون تو بالی ووڈ کی یاد دلاتا ہے۔
صرف مطلع کو دیکھ لیں، جام کا رنگ چڑھنا محاورے اور حقیقت کے خلاف ہے
 
بہت خوب، عمدہ

اساتذہ کی رائے اوپر آ چکی ہے۔ ایک نالائق طالب علم کی رائے
ایسے دھندلایا ہے جیون کی ہر اِک شام کا رنگ
میری رائے
ایسے دھندلایا ہے زیست کی ہر شام کا رنگ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب، عمدہ
اساتذہ کی رائے اوپر آ چکی ہے۔ ایک نالائق طالب علم کی رائے
ایسے دھندلایا ہے جیون کی ہر اِک شام کا رنگ
میری رائے
ایسے دھندلایا ہے زیست کی ہر شام کا رنگ
صدیقی صاحب ۔لیکن اس طرح مصرع وزن کی حدود میں نہیں رہتا۔
البتہ اس طرح کہہ سکتے ہیں ۔
اتنادھندلاگیا اس زیست کی ہر شام کا رنگ
تاہم صاحب شعر کا اختیا رہے۔
 
صدیقی صاحب ۔لیکن اس طرح مصرع وزن کی حدود میں نہیں رہتا۔

جی درست فرمایا۔ اسی لیے والد محترم نے میری پہلی اور آخری کاوش پر نصیحت کی تھی کہ بیٹا کچھ لوگ ادب تخلیق کرنے کے لیے ہوتے ہیں اور باقی پڑھنے کے لیے۔ تم اپنی توجہ آخر الذکر پر رکھو۔ :)
 
Top