” کیوں؟“ میں نےمطالبہ کیا۔
” میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔ اس نے پھر دوہرایا“۔ ہم’ آڈیو‘ استمعال کریں گے“۔
” لیکن میں مصروف ہوں۔ مجھے اس اسائنمنٹ کو پورا کرنا ہے”۔
” اگر میں تم سے وعدہ کروں کہ ہماری گفتگو کےاختتام پرتم اس اسائنمنٹ کو آدھےگھنٹے سے کم وقت میں کر لوگے تو کیا پھر تم مجھ سے بات کروگے؟”
میں نے اس کو’ قہقہہ‘ لگانے کا ونک بھیجا اور بے پروائ سے آڈیو کی درخواست کو قبول کرلیا۔ ویسے بھی اس وقت میرا ذہن کام نہیں کررہا تھا۔
میں نے مائکروفون میں کہا۔” تمہارا کیا نام ہے ؟ تم کون ہو؟ اور تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ اگر تم ان باتوں کا جواب پانچ منٹ میں نہ دوگی تو میں کمپیوٹر کو آف کردوں گا”۔
اس نےصرف یہ کہا کہ پانچ منٹ کے بعد یہ مجھ پر ہوگا کہ میں اس کی تمام باتوں کوسنوں یا نہ سنوں۔
” میرا نام گل ہے“۔
کنکشن بہت صاف تھا۔ میں نے پہلے کبھی اس انٹرنیٹ آڈیو کواتنا صاف نہں سننا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ لڑکی میرے کمرے میں موجود ہے۔ اس کی آواز غم اور سوزسے بھری تھی۔
” آپ داستان لکھتے ہیں! میں نے آپ کی داستان ۔ ’مدّ وجزر‘ پڑھی - بہت اچھی لگی۔ اگر میں آپ کو ایک حقیقی داستان سناؤں توکیا آپ اس کو لکھیں گے؟“
” میں آپ سے بد سلوکی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں صرف اپنی پسند کے موضوع پرداستان لکھتا ہوں“
گل نےمجھےنظرانداز کر کے کہا۔
” میں پاکستان کے صوبہ سرحد کے ایک چھوٹےگاؤں میں پیدا ہوئ۔ میرا ایک بھائ ہے جو مجھ سےدو سال بڑا ہے۔اور دو بہنیں مجھ سے چھوٹی ہیں۔ ایک ،سال بھر اور دوسری دو سال مجھ سے چھوٹی ہے۔ میں نےاس کی سِسکیوں کی آواز سنی۔ ہمارے ساتھ دادی، نانی،چچا اورچچی بھی رہتے تھے۔
ابا بہت بوڑھے ہیں اور وہ چار جماعت تک اسکول گئے تھے۔ اس لے وہ مزدوری کا کام کرتے تھے۔ کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں۔ جب کبھی ماں کوابا کچھ پیسے دیتے وہ بھائ کے ساتھ بازار جاکر سبزی، گوشت اور آٹا لے آتی تھیں۔ بعض دفعہ ماں ہم کو صرف’ ڈوڈئ‘ اور پانی دیتی اور ابا کو’ ٹیکالہ‘۔ میں جب چھ سال کی تھی تو پہلی دفعہ میں نے خان صاب کے ہاں دودھ پیا۔
” ڈوڈئ اور ٹیکالہ کیا ہوتا ہے“۔ میں نے سوال کیا۔
میں نے سعدیہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔
” میں پانچ سال کی تھی ایک دن ماں نے کہا بیٹی تمہارے بھائ کوبابا، مردان کے خان صاب کےہاں لےجارہے ہیں۔ یہ اب خان صاب کے پاس رہ کر کچھ سیکھےگا“۔
میں نے کہا ” بھائ وہاں کیوں جائیں یہاں کیوں نہیں سیکھتے ؟“
میں نے بھائ کاہاتھ پکڑ کر کہا۔” بھائ ! تم مجھ کو چھوڑ کرمت جا ؤ۔ میں کس کے ساتھ کھیلوں گی؟ کس کے ساتھ اس کول جاؤں گی؟ جب بڑے بچےمجھ کوماریں گے توکون مجھ کو بچائے گا؟“
سعدیہ کے آنسواب اس کےگالوں پر بہ رہے تھے۔