سید زبیر
محفلین
پچھلے دنوں ایک کتاب کا ترجمہ نظر سے گزرا، ایک کہانی پسند آئی،محفلین کی نذر ہے ، کہانی طویل ضرور ہے اگر 1876 کے بنوں کے تناظر میں پڑھیں گے تو لطف اندوز ہونگے
بنوں اور افغان سرحد مطبوعہ 1876سے ایک اقتباس
تحریر : برطانوی سول سرونٹ ایس ایس تھوربرن
ترجمہ :حسنین فلک
ایک عیار ٹھگ
ا یک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے، بڑے شہر کے شور اور رش سے دور۔ بڑا بھائی ہشیار اور چالاک جوان تھا اس کا نام ٹگا خان تھا؛ اور چھوٹا بے وقوف۔ ایک دن ٹگا خان نے اپنے بھائی کو ایک بکری دی اور کہا کہ اسے بازار لے جائے۔ لہذا ، فخر محسوس کرتے ہوئے کہ اتنا بڑا منصوبہ اسے سونپا گیا ہے۔
وہ بکری کو اپنے آگے آگے لیے جارہا تھا، وہ چار یا پانچ میل گیا ہوگا تب اسے ایک دیہاتی ملا ۔اُس نے اس سے کہا کہ کہاں جارہے ہو اتنے بد نصیب کتے کے ساتھ، لیکن اس نے غصہ سے جواب دیا،’’ اوئے بیوقوف، یہ کتا نہیں بلکہ دودھ دینے والی بکری ہے‘‘۔تھوڑی دور جاکر وہ ایک اور کسان سے ملا اور وہی سوال پوچھا جو کہ پہلے والے نے پوچھا تھا اور اسی طرح جواب دیا جس طرح پہلے کو جواب دیا تھا۔ لیکن اس بار قدرے سنجیدگی سے۔ دوبارہ تھوڑے ہی فاصلے پر وہ ایک اور علاقہ کے باسی سے ملا جس نے وہی سوال پوچھا اور اس بار اس نے تھوڑا سا مشکوک ہوکر جواب دیا،’’ جناب یہ بکری ہے، اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ کتا نہیں ہے۔‘‘ اور آگے چلا گیا، اور ہرآدھے میل پر اسے اسی طرح روکا گیا۔ یہاں تک کہ وہ بیچارہ اس بات پر آمادہ ہوگیا کہ یہ ایک کتا ہے اور اسے وہیں چھوڑ دیا۔پھر وہ گھرلوٹا اور اپنے بھائی پر غصہ ہوا کہ اس طرح کا دھوکا دوبارہ اس سے نہ کرے۔
اب یہ لوگ جنہوں نے اس بیوقوف کو چھیڑا تھا، چھ بھائی تھے اور دغابازوں کا ایک مکمل گروہ تھا۔ وہ بکری حاصل کرکے خوشی خوشی گھر گئے اسے ذبح کرکے اس کی دعوت کھائی۔
ٹگا خان کو سمجھ آگئی کہ اس کے بھائی کو مجبور کیا گیا ہے اور بحیثیت طاقت و قوت والے انسان ہونے کہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کا بدلہ بھی لے گا اور سود بھی وصول کریگا۔اگلے دن وہ ایک بیمارگدھے پر سوار ہوکر بازار کی طرف روانہ ہوا اور اس گدھے کو ایسا سجایا ہوا تھا جیسے ایرانی جنگی گھوڑا۔اسی گروہ سے وہ ایک ایک کر کے ملا جنہوں نے ان سے پوچھا کہ کیوں وہ اتنے بوڑھے گدھے پر بیٹھاہے، لیکن وہ ہر ایک کو یہ جواب دیتا رہا ،’’ کہ یہ گدھا نہیں بلکہ ایک’ بوچکی‘ ہے‘‘۔
بغیر جانے کہ بوچکی کیا چیز ہوتی ہے، چھٹے بھائی نے پوچھا اور اس نے جواب دیا،’’ جناب، یہ ایک ایسا جانور ہے جو کہ ایک سو سال تک زندہ رہتا ہے اور ہر صبح ایک ڈھیلہ سونا گوبر میں نکالتا ہے۔‘‘
اب ٹگا خان نے ایسا منصوبہ بنایا تھا جس سے وہ رات تک قصبہ نہیں پہنچ سکے گا؛ اور جب آخری سوال کنندہ نے اس سے کہا کہ وہ رات ان کے گھر میں گزار لے، اور اس نے ایسا ہی کیا۔ صبح سویرے وہ آگے اپنے گدھے پر زین باندھنے کے لیے آیا اور جب اس کو محسوس ہوا کہ ابھی گوبر دیگا، اس گوبر کو اٹھایا جیسے یہ روزانہ کا حال ہو، اور سونے کا ڈھیلہ وہاں رکھا۔ وہ بھائی چپکے سے اسے دیکھ رہے تھے جیسے ٹگا خان نے توقع کی تھی۔ اس کے بازار سے گھر واپسی کے کچھ دن بعد دغابازوں کا وہ گروہ اس کے گھر آیا اور اس سے کہا کہ وہ حیران کن بوچکی اسے پانچ سو روپے میں بیچ دے۔ ٹگا خان نے بغیر کسی ناراضگی کے تھوڑی بہت اتار چڑھاؤ کے بعدپیشکس قبول کرلی۔جب دھوکے باز چلے گئے اس نے اپنی بیوی سے کہا کچھ دنوں بعد جب ان کو پتہ چلے گا کہ یہ گدھا ایک ڈھیلہ سونے کا نہیں دیتا تویہ دوبارہ واپس آئیں گے۔ جب وہ آئے تو کہنا کہ میں کچھ فاصلے پر گیا ہوں اور پھر اپنے دو کالے خرگوشوں کو مجھے بلانے کے لیے چھوڑ دینا۔‘‘ اب بیوی ایک سمجھدار عورت تھی اور اگرچہ اسے اپنے شوہر کی سازباز کا پتہ نہیں تھا لیکن وعدہ کیا کہ وہی کریگی جو ہدایات ملیں ہیں۔
ایک یا دو دن بعد، جب وہ گروہ گھرآئے، ٹگا خان خاموشی سے باہر نکل گیا اور اپنے ساتھ اپنے دو خرگوش لے گیا۔ اندر داخل ہوتے وقت اس گروہ میں سے ایک بھائی نے کہا کہ،’’ تمہارا شوہر کہاں ہے؟‘‘
اور اس نے جواب دیا،’’ وہ آج صبح مچھلی پکڑنے باہر گیا ہے میں کسی قاصد کو بھیجتی ہوں۔‘‘ لہذا اس نے ایک خرگوش کو باہر کی طرف چھوڑا اور اس سے یہ کہا ،’’ جلدی بھاگو اور میرے شوہر کو بلا لاؤ‘‘۔
ایک گھنٹے بعد ٹگا خان خرگوش کے ساتھ اندر آیا جسے وہ اپنے ساتھ بغل میں لے گیا تھا۔
’’ کیا خرگوش نے تمہیں بلایا ہے؟‘‘ گروہ میں سے ایک نے پوچھا
’’ جی ہاں، بالکل‘‘ ٹگا خان نے جواب دیا
اور آپس میں کھسر پھسر کرنے کے بعد سب سے بڑے بھائی نے پانچ سو روپے اس خرگوش کے عوض دینے کی پیش کش کی جس پر ٹگا خان راضی ہوگیا۔ پس پیسے دینے کے بعد وہ انعام کے ساتھ گھر روانہ ہوگئے۔
جب وہ چلے گئے تب ٹگا خان نے اپنی بیوی کو کہا،’’ وہ ایک یا دودن میں دوبارہ واپس آئیں گے، جب انہیں پتہ چلے گا کہ خرگوش واپس نہیں آتا اور جب وہ اسے چھوڑ دیں گے۔ میں بکری کے بچہ کو مار دونگا اور میں انہیں اس بات کا یقین دلا دونگا کہ میں نے تمہارا گلا کاٹا ہے اور پھر تمہیں زندہ کردونگا۔‘‘ پھر اس نے اپنی چھڑی اٹھائی اور اسے پردائروں میں سرخ اور سبز رنگ دیا۔
کچھ دنوں بعد جب گروہ گھر کی طرف پیش قدمی کرہا تھا، ٹگا خان نے بکری کا ایک بچہ ذبح کردیا اور اپنی بیوی کو ہدایات دیں کہ کیا کرنا ہے۔ داخل ہوتے ہی انہوں نے ٹگا خان کو گالیاں دینا شروع کیں کہ اس نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ ٹگا خان نے اس شرط پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ اسے اس کی بوچکی اور خرگوش واپس کردیں گے اور جیسے ہی تنازعہ گرم ہوا اس نے اپنی بیوی کو آواز دی کہ اس کی’چلم ‘(حقہ)دیدے۔ اس نے نہ آواز دی اور نہ چلم دیا جس پر ٹگا خان اٹھا اور اور اسکی ماں، اس کی دادی اور اس کے سارے زنانہ رشتہ داروں کو گالیاں دینا شروع کردیں اور ساتھ والے کمرے میں بھاگ کے اندر گیا۔’’واخ !! واخ !! واخ!!‘‘ کی آوازیں پورے گھر میں گونجنے لگیں،’’چیخ! چیخ!چیخ!‘‘ کی آوازیں اس عورت کے منہ سے نکلنے لگیں۔ ایک لمحہ بعد ٹگا خان اس کمرے میں آیا جہاں وہ گروہ بیٹھا تھا، اس کے ہاتھ میں خون سے رنگا ہوا چاقو تھا اور اپنی بیوی کو گھسیٹتے ہوئے لارہا تھا جس کا چہرا اور گردن خون سے رنگا ہوا تھا۔ وہ زمین پر کراہتی ہوئی گر گئی، اس کے ظالم شوہر نے نفرت سے کہا کہ،’’منحوس، میں نے پچھلے جمعہ کو تمہارا گلہ کاٹا تھا اور میں نے اب پھر ایساکیا۔ اس بار اتنی جلدی میں تمہیں زندگی میں واپس نہیں لاؤنگا۔‘‘
وہ چھ بھائی خوف سے پتھر بن چکے تھے اور ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ وہ اس طرح کچھ منٹوں تک رہے، ایک کونے میں بزدل اور ڈرے ہوئے بیٹھے تھے۔ بیوی ایک لاش کی زمین پر پڑی ہوئی تھی اور اس کا شوہر ایک جنونی قاتل کی طرح اس پر کھڑا تھا، قسمیں کھاتا، بھوں بھوں کرتا جبکہ وہ چھری اپنی داڑھی سے صاف کررہا تھا۔ جلد ہی اس کے آنسوٹپکنے لگے تب وہ زیر لب کہنے لگا،’’ میری بیچاری گلی جان، تم میری ایک اچھی بیوی ہو،‘‘ اس نے ایک کونے سے ایک چھڑی اٹھائی جس کو اس نے اس موقع کے لیے سبز اور سرخ رنگ دیا تھا، اور اپنے ہاتھ سے باندھ کر اپنے ساتھ کہنے لگا، ’’ بسم اللہ‘‘ اور اپنی بیوی کے گلے پر آگے پیچھے پھیرا جس پر اس کی بیوی ہلنے لگی اور اٹھ گئی۔
بھائیوں نے آپس میں کھس پھس کی کی یقینی طور پر اب اس میں کوئی دھوکہ یا چال نہیں تھی، اور ان میں سے ایک بولا،’’ جو ہو گیا اسے جانے دو، ہم آپ کو اس چھڑی کے عوض پانچ سو روپے دیتے ہیں۔‘‘ ٹگا خان راضی ہوگیا اور وہ چھ بھائی نہایت خوشی خوشی سے روانہ ہوئے۔ جب وہ گھر پہنچے انہوں نے دیکھا کہ انکی ماں نے ابھی تک کھانا نہیں بنایا تھا، اور ان میں سے ایک نے جوش میں آکر اس کا گلا کاٹ دیا۔ لیکن افسوس!! اس رنگدار چھڑی میں کوئی طاقت نہیں تھی اور وہ بوڑھی عورت کبھی دوبارہ زندہ نہ ہوئی۔
جو کچھ ہوا تھا اس خوف کے مارے، اور یہ بھی جانتے ہوئے کہ بادشاہ اس کہانی پر کبھی یقین نہیں کریگا، وہ الگ الگ اطراف میں فرار ہوگئے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے۔ اور ٹگا خان اپنے پندرہ سو روپے کی کمائی کا مالک بن کر رہ گیا۔
بنوں اور افغان سرحد مطبوعہ 1876سے ایک اقتباس
تحریر : برطانوی سول سرونٹ ایس ایس تھوربرن
ترجمہ :حسنین فلک
ایک عیار ٹھگ
ا یک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے، بڑے شہر کے شور اور رش سے دور۔ بڑا بھائی ہشیار اور چالاک جوان تھا اس کا نام ٹگا خان تھا؛ اور چھوٹا بے وقوف۔ ایک دن ٹگا خان نے اپنے بھائی کو ایک بکری دی اور کہا کہ اسے بازار لے جائے۔ لہذا ، فخر محسوس کرتے ہوئے کہ اتنا بڑا منصوبہ اسے سونپا گیا ہے۔
وہ بکری کو اپنے آگے آگے لیے جارہا تھا، وہ چار یا پانچ میل گیا ہوگا تب اسے ایک دیہاتی ملا ۔اُس نے اس سے کہا کہ کہاں جارہے ہو اتنے بد نصیب کتے کے ساتھ، لیکن اس نے غصہ سے جواب دیا،’’ اوئے بیوقوف، یہ کتا نہیں بلکہ دودھ دینے والی بکری ہے‘‘۔تھوڑی دور جاکر وہ ایک اور کسان سے ملا اور وہی سوال پوچھا جو کہ پہلے والے نے پوچھا تھا اور اسی طرح جواب دیا جس طرح پہلے کو جواب دیا تھا۔ لیکن اس بار قدرے سنجیدگی سے۔ دوبارہ تھوڑے ہی فاصلے پر وہ ایک اور علاقہ کے باسی سے ملا جس نے وہی سوال پوچھا اور اس بار اس نے تھوڑا سا مشکوک ہوکر جواب دیا،’’ جناب یہ بکری ہے، اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ کتا نہیں ہے۔‘‘ اور آگے چلا گیا، اور ہرآدھے میل پر اسے اسی طرح روکا گیا۔ یہاں تک کہ وہ بیچارہ اس بات پر آمادہ ہوگیا کہ یہ ایک کتا ہے اور اسے وہیں چھوڑ دیا۔پھر وہ گھرلوٹا اور اپنے بھائی پر غصہ ہوا کہ اس طرح کا دھوکا دوبارہ اس سے نہ کرے۔
اب یہ لوگ جنہوں نے اس بیوقوف کو چھیڑا تھا، چھ بھائی تھے اور دغابازوں کا ایک مکمل گروہ تھا۔ وہ بکری حاصل کرکے خوشی خوشی گھر گئے اسے ذبح کرکے اس کی دعوت کھائی۔
ٹگا خان کو سمجھ آگئی کہ اس کے بھائی کو مجبور کیا گیا ہے اور بحیثیت طاقت و قوت والے انسان ہونے کہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کا بدلہ بھی لے گا اور سود بھی وصول کریگا۔اگلے دن وہ ایک بیمارگدھے پر سوار ہوکر بازار کی طرف روانہ ہوا اور اس گدھے کو ایسا سجایا ہوا تھا جیسے ایرانی جنگی گھوڑا۔اسی گروہ سے وہ ایک ایک کر کے ملا جنہوں نے ان سے پوچھا کہ کیوں وہ اتنے بوڑھے گدھے پر بیٹھاہے، لیکن وہ ہر ایک کو یہ جواب دیتا رہا ،’’ کہ یہ گدھا نہیں بلکہ ایک’ بوچکی‘ ہے‘‘۔
بغیر جانے کہ بوچکی کیا چیز ہوتی ہے، چھٹے بھائی نے پوچھا اور اس نے جواب دیا،’’ جناب، یہ ایک ایسا جانور ہے جو کہ ایک سو سال تک زندہ رہتا ہے اور ہر صبح ایک ڈھیلہ سونا گوبر میں نکالتا ہے۔‘‘
اب ٹگا خان نے ایسا منصوبہ بنایا تھا جس سے وہ رات تک قصبہ نہیں پہنچ سکے گا؛ اور جب آخری سوال کنندہ نے اس سے کہا کہ وہ رات ان کے گھر میں گزار لے، اور اس نے ایسا ہی کیا۔ صبح سویرے وہ آگے اپنے گدھے پر زین باندھنے کے لیے آیا اور جب اس کو محسوس ہوا کہ ابھی گوبر دیگا، اس گوبر کو اٹھایا جیسے یہ روزانہ کا حال ہو، اور سونے کا ڈھیلہ وہاں رکھا۔ وہ بھائی چپکے سے اسے دیکھ رہے تھے جیسے ٹگا خان نے توقع کی تھی۔ اس کے بازار سے گھر واپسی کے کچھ دن بعد دغابازوں کا وہ گروہ اس کے گھر آیا اور اس سے کہا کہ وہ حیران کن بوچکی اسے پانچ سو روپے میں بیچ دے۔ ٹگا خان نے بغیر کسی ناراضگی کے تھوڑی بہت اتار چڑھاؤ کے بعدپیشکس قبول کرلی۔جب دھوکے باز چلے گئے اس نے اپنی بیوی سے کہا کچھ دنوں بعد جب ان کو پتہ چلے گا کہ یہ گدھا ایک ڈھیلہ سونے کا نہیں دیتا تویہ دوبارہ واپس آئیں گے۔ جب وہ آئے تو کہنا کہ میں کچھ فاصلے پر گیا ہوں اور پھر اپنے دو کالے خرگوشوں کو مجھے بلانے کے لیے چھوڑ دینا۔‘‘ اب بیوی ایک سمجھدار عورت تھی اور اگرچہ اسے اپنے شوہر کی سازباز کا پتہ نہیں تھا لیکن وعدہ کیا کہ وہی کریگی جو ہدایات ملیں ہیں۔
ایک یا دو دن بعد، جب وہ گروہ گھرآئے، ٹگا خان خاموشی سے باہر نکل گیا اور اپنے ساتھ اپنے دو خرگوش لے گیا۔ اندر داخل ہوتے وقت اس گروہ میں سے ایک بھائی نے کہا کہ،’’ تمہارا شوہر کہاں ہے؟‘‘
اور اس نے جواب دیا،’’ وہ آج صبح مچھلی پکڑنے باہر گیا ہے میں کسی قاصد کو بھیجتی ہوں۔‘‘ لہذا اس نے ایک خرگوش کو باہر کی طرف چھوڑا اور اس سے یہ کہا ،’’ جلدی بھاگو اور میرے شوہر کو بلا لاؤ‘‘۔
ایک گھنٹے بعد ٹگا خان خرگوش کے ساتھ اندر آیا جسے وہ اپنے ساتھ بغل میں لے گیا تھا۔
’’ کیا خرگوش نے تمہیں بلایا ہے؟‘‘ گروہ میں سے ایک نے پوچھا
’’ جی ہاں، بالکل‘‘ ٹگا خان نے جواب دیا
اور آپس میں کھسر پھسر کرنے کے بعد سب سے بڑے بھائی نے پانچ سو روپے اس خرگوش کے عوض دینے کی پیش کش کی جس پر ٹگا خان راضی ہوگیا۔ پس پیسے دینے کے بعد وہ انعام کے ساتھ گھر روانہ ہوگئے۔
جب وہ چلے گئے تب ٹگا خان نے اپنی بیوی کو کہا،’’ وہ ایک یا دودن میں دوبارہ واپس آئیں گے، جب انہیں پتہ چلے گا کہ خرگوش واپس نہیں آتا اور جب وہ اسے چھوڑ دیں گے۔ میں بکری کے بچہ کو مار دونگا اور میں انہیں اس بات کا یقین دلا دونگا کہ میں نے تمہارا گلا کاٹا ہے اور پھر تمہیں زندہ کردونگا۔‘‘ پھر اس نے اپنی چھڑی اٹھائی اور اسے پردائروں میں سرخ اور سبز رنگ دیا۔
کچھ دنوں بعد جب گروہ گھر کی طرف پیش قدمی کرہا تھا، ٹگا خان نے بکری کا ایک بچہ ذبح کردیا اور اپنی بیوی کو ہدایات دیں کہ کیا کرنا ہے۔ داخل ہوتے ہی انہوں نے ٹگا خان کو گالیاں دینا شروع کیں کہ اس نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ ٹگا خان نے اس شرط پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ اسے اس کی بوچکی اور خرگوش واپس کردیں گے اور جیسے ہی تنازعہ گرم ہوا اس نے اپنی بیوی کو آواز دی کہ اس کی’چلم ‘(حقہ)دیدے۔ اس نے نہ آواز دی اور نہ چلم دیا جس پر ٹگا خان اٹھا اور اور اسکی ماں، اس کی دادی اور اس کے سارے زنانہ رشتہ داروں کو گالیاں دینا شروع کردیں اور ساتھ والے کمرے میں بھاگ کے اندر گیا۔’’واخ !! واخ !! واخ!!‘‘ کی آوازیں پورے گھر میں گونجنے لگیں،’’چیخ! چیخ!چیخ!‘‘ کی آوازیں اس عورت کے منہ سے نکلنے لگیں۔ ایک لمحہ بعد ٹگا خان اس کمرے میں آیا جہاں وہ گروہ بیٹھا تھا، اس کے ہاتھ میں خون سے رنگا ہوا چاقو تھا اور اپنی بیوی کو گھسیٹتے ہوئے لارہا تھا جس کا چہرا اور گردن خون سے رنگا ہوا تھا۔ وہ زمین پر کراہتی ہوئی گر گئی، اس کے ظالم شوہر نے نفرت سے کہا کہ،’’منحوس، میں نے پچھلے جمعہ کو تمہارا گلہ کاٹا تھا اور میں نے اب پھر ایساکیا۔ اس بار اتنی جلدی میں تمہیں زندگی میں واپس نہیں لاؤنگا۔‘‘
وہ چھ بھائی خوف سے پتھر بن چکے تھے اور ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ وہ اس طرح کچھ منٹوں تک رہے، ایک کونے میں بزدل اور ڈرے ہوئے بیٹھے تھے۔ بیوی ایک لاش کی زمین پر پڑی ہوئی تھی اور اس کا شوہر ایک جنونی قاتل کی طرح اس پر کھڑا تھا، قسمیں کھاتا، بھوں بھوں کرتا جبکہ وہ چھری اپنی داڑھی سے صاف کررہا تھا۔ جلد ہی اس کے آنسوٹپکنے لگے تب وہ زیر لب کہنے لگا،’’ میری بیچاری گلی جان، تم میری ایک اچھی بیوی ہو،‘‘ اس نے ایک کونے سے ایک چھڑی اٹھائی جس کو اس نے اس موقع کے لیے سبز اور سرخ رنگ دیا تھا، اور اپنے ہاتھ سے باندھ کر اپنے ساتھ کہنے لگا، ’’ بسم اللہ‘‘ اور اپنی بیوی کے گلے پر آگے پیچھے پھیرا جس پر اس کی بیوی ہلنے لگی اور اٹھ گئی۔
بھائیوں نے آپس میں کھس پھس کی کی یقینی طور پر اب اس میں کوئی دھوکہ یا چال نہیں تھی، اور ان میں سے ایک بولا،’’ جو ہو گیا اسے جانے دو، ہم آپ کو اس چھڑی کے عوض پانچ سو روپے دیتے ہیں۔‘‘ ٹگا خان راضی ہوگیا اور وہ چھ بھائی نہایت خوشی خوشی سے روانہ ہوئے۔ جب وہ گھر پہنچے انہوں نے دیکھا کہ انکی ماں نے ابھی تک کھانا نہیں بنایا تھا، اور ان میں سے ایک نے جوش میں آکر اس کا گلا کاٹ دیا۔ لیکن افسوس!! اس رنگدار چھڑی میں کوئی طاقت نہیں تھی اور وہ بوڑھی عورت کبھی دوبارہ زندہ نہ ہوئی۔
جو کچھ ہوا تھا اس خوف کے مارے، اور یہ بھی جانتے ہوئے کہ بادشاہ اس کہانی پر کبھی یقین نہیں کریگا، وہ الگ الگ اطراف میں فرار ہوگئے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے۔ اور ٹگا خان اپنے پندرہ سو روپے کی کمائی کا مالک بن کر رہ گیا۔