سید رافع
محفلین
شیخ المصطفی ٹرسٹ - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے کی والدہ کے ماموں زاد بھای کے گھر شادی ہے۔
شامیانہ سڑک پر لگا ہے اور گول میزوں کے اردگرد لال کپڑا پہنے کرسیاں سجیں ہیں۔
لڑکے کے ہاتھ میں مودودی صاحب کی کتاب رسائل و مسائل ہے۔ یہ کتاب شیخ گلبرگ نے اسے تحفے میں دی تھی۔
شیخ گلبرگ کی دی ہوی درجن بھر سے زاید کتابوں میں پردہ، تنقیحات اور رسائل و مسائل کی چار جلدیں اہم ہیں۔
ہر کتاب کی طرح یہ کتب سلیس اردو ادب میں لکھی گیں ہیں۔
قاری کے ذہن پر زور نہیں پڑتا اور وہ سب کچھ نفیس اردو کی وجہ سے قبول کرتا جاتا ہے۔
مودودی صاحب نے اپنی تفسیر مِیں اسلام کو ایک تحریک کا درجہ دے کر ایک فاش غلطی کی تھی۔
حالانکہ رسول عربی محض ہادی برحق تھے اور بس۔
لڑکا دولہن اور والدین کو چھوڑ کر سب سے پچھلی ٹیبل پر ایک کنارے جا بیٹھتا ہے۔
لاوڈ اسپیکر پر گانے پوری رفتار سے بج رہے ہیں۔ لڑکا کتاب کے مطالعے میں مصروف ہے۔
شیخ گلبر گ کی کتابیں پڑھ لیں گیں لیکن مودودی صاحب ماچھی گوٹ کے جلسے میں ایک اور فاش غلطی کر گے۔
انہوں نے اپنے ساتھیوں مثلا ڈاکٹر اسرار وغیرہ کو بوجہ سیاست میں آنے کی مخالفت کے ضمن میں نکلال دیا تھا۔
وہ اپنی دلیل میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی مانند ووٹ کے زور سے بادشاہ وقت بننا چاہتے تھے۔
تزکیہ نہیں حکومت اسلام کا مقصد ٹہرا۔
ہدایت نہیں حد اسلام کی پہچان بنی۔
روحانیت سے اسقدر بعد کہ سوال کرتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ کہ ہم بے حد معتقد لیکن وہ ولی اللہ نام میں کیوں لگاتے ہیں۔
یعنی انکو اس زمانے کی ماہیت کا علم نہیں تھا یا تجاہل عارفانہ تھا۔
تصوف کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کا کلام تھا کہ نہ لگا تو کچھ نہیں اور لگ گیا تو چودہ طبق روشن۔
علم تھا لیکن عشق سے ٹھنڈا نہ ہوا تھا سو پاک و ہند واطراف و اکناف میں گرم گرم ہوایں چلنی شروع ہو گیں۔
اسی اثنا میں لڑکے نے اسرار صاحب کا رومانوِی لیکن غیر ضروری پیغام تین سو سے زاید گھنٹے سنا۔
یہ شیخ المصطفی ٹرسٹ کے طرف آمد اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
یہ ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا جہاں لڑکا کی بار پہلے بھی جا چکا ہوتا ہے۔
شیخ ایک دبلے پتلے سفیدداڑھی والے تھے۔ وہ یو آے ای سے شیخ اسرار کے کہنے پر ہجرت کر آے تھے۔
انہوں نے اپنےلڑکے کی شادی ڈھای لوگوں پر مشتمل برات پر کی تھی۔
ایک ان کی زوجہ، ایک دولہا اور ایک اسکا دس سالہ چھوٹا بھای۔
شیخ لڑکے کو بیعت فارم ساین کرنے کو کہتے ہیں۔
لڑکے کو اسکا مقصد سمجھ نہیں آرہا ہوتا۔
ظہر کی نماز میں ۲ منٹ رہ گے تھے۔ شیخ کا تذبذب اور لڑکے کے سوال بڑھ رہے تھے۔
شیخ کہتے ہیں فارم ساین کر دیں جماعت نہ نکل جاے۔
لڑکا ساین کرتاہے۔
اب شیخ اسرار کی کتب کا مطالعہ اور صبح فجر کے بعد کی مجالس میں آجانا شروع ہوتاہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا گدا تکیہ لے کر شیخ ڈیفنس کے پاس پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری
لڑکے کی والدہ کے ماموں زاد بھای کے گھر شادی ہے۔
شامیانہ سڑک پر لگا ہے اور گول میزوں کے اردگرد لال کپڑا پہنے کرسیاں سجیں ہیں۔
لڑکے کے ہاتھ میں مودودی صاحب کی کتاب رسائل و مسائل ہے۔ یہ کتاب شیخ گلبرگ نے اسے تحفے میں دی تھی۔
شیخ گلبرگ کی دی ہوی درجن بھر سے زاید کتابوں میں پردہ، تنقیحات اور رسائل و مسائل کی چار جلدیں اہم ہیں۔
ہر کتاب کی طرح یہ کتب سلیس اردو ادب میں لکھی گیں ہیں۔
قاری کے ذہن پر زور نہیں پڑتا اور وہ سب کچھ نفیس اردو کی وجہ سے قبول کرتا جاتا ہے۔
مودودی صاحب نے اپنی تفسیر مِیں اسلام کو ایک تحریک کا درجہ دے کر ایک فاش غلطی کی تھی۔
حالانکہ رسول عربی محض ہادی برحق تھے اور بس۔
لڑکا دولہن اور والدین کو چھوڑ کر سب سے پچھلی ٹیبل پر ایک کنارے جا بیٹھتا ہے۔
لاوڈ اسپیکر پر گانے پوری رفتار سے بج رہے ہیں۔ لڑکا کتاب کے مطالعے میں مصروف ہے۔
شیخ گلبر گ کی کتابیں پڑھ لیں گیں لیکن مودودی صاحب ماچھی گوٹ کے جلسے میں ایک اور فاش غلطی کر گے۔
انہوں نے اپنے ساتھیوں مثلا ڈاکٹر اسرار وغیرہ کو بوجہ سیاست میں آنے کی مخالفت کے ضمن میں نکلال دیا تھا۔
وہ اپنی دلیل میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی مانند ووٹ کے زور سے بادشاہ وقت بننا چاہتے تھے۔
تزکیہ نہیں حکومت اسلام کا مقصد ٹہرا۔
ہدایت نہیں حد اسلام کی پہچان بنی۔
روحانیت سے اسقدر بعد کہ سوال کرتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ کہ ہم بے حد معتقد لیکن وہ ولی اللہ نام میں کیوں لگاتے ہیں۔
یعنی انکو اس زمانے کی ماہیت کا علم نہیں تھا یا تجاہل عارفانہ تھا۔
تصوف کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کا کلام تھا کہ نہ لگا تو کچھ نہیں اور لگ گیا تو چودہ طبق روشن۔
علم تھا لیکن عشق سے ٹھنڈا نہ ہوا تھا سو پاک و ہند واطراف و اکناف میں گرم گرم ہوایں چلنی شروع ہو گیں۔
اسی اثنا میں لڑکے نے اسرار صاحب کا رومانوِی لیکن غیر ضروری پیغام تین سو سے زاید گھنٹے سنا۔
یہ شیخ المصطفی ٹرسٹ کے طرف آمد اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
یہ ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا جہاں لڑکا کی بار پہلے بھی جا چکا ہوتا ہے۔
شیخ ایک دبلے پتلے سفیدداڑھی والے تھے۔ وہ یو آے ای سے شیخ اسرار کے کہنے پر ہجرت کر آے تھے۔
انہوں نے اپنےلڑکے کی شادی ڈھای لوگوں پر مشتمل برات پر کی تھی۔
ایک ان کی زوجہ، ایک دولہا اور ایک اسکا دس سالہ چھوٹا بھای۔
شیخ لڑکے کو بیعت فارم ساین کرنے کو کہتے ہیں۔
لڑکے کو اسکا مقصد سمجھ نہیں آرہا ہوتا۔
ظہر کی نماز میں ۲ منٹ رہ گے تھے۔ شیخ کا تذبذب اور لڑکے کے سوال بڑھ رہے تھے۔
شیخ کہتے ہیں فارم ساین کر دیں جماعت نہ نکل جاے۔
لڑکا ساین کرتاہے۔
اب شیخ اسرار کی کتب کا مطالعہ اور صبح فجر کے بعد کی مجالس میں آجانا شروع ہوتاہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا گدا تکیہ لے کر شیخ ڈیفنس کے پاس پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری