سید رافع
محفلین
شیخ بیت المکرم- ایک کہانی
لڑکے کے ایک رشتے دار نے شیخ بیت المکر م سے اصلاحی تعلق قائم کیا تھا۔
شیخ مسجد میں موجود چندکچے گھروں میں سے ایک میں مقیم تھے۔
بعد از عصر ایک تخت پر بیٹھ جاتے اور لوگ اپنی اصلاح کے خطوط ان کو دیتے اور جواب حاصل کرتے یا زبانی ہی اپنی بات کر لیتے۔
لڑکا بارہا ان کے پاس گیا اور وہ تحمل سے ہر بات سمجھا دیتے تھے۔
اس بار البتہ لڑکا دستاویز کے سلسلے میں ان کے پاس پہنچا۔
شیخ نے لڑکے کی بات سن کر فرمایا کہ اگرہم یوں مل جل جائیں تو پھر دیکھیں مدینے میں کیا حال کریں یہ لوگ۔
ان کا مطلب تھا کہ دوسری طرف عقیدت اسقدر ہے کہ روضاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لوگ بوسے لیں، چادریں ملتے رہیں، مٹی اٹھا لائیں اور طرح طرح کی باتیں کریں جو وہاں کی شان سے فروتر ہوں۔
مسلمانوں کو بہرحال انصاف کے لیے کھڑے ہونے کا حکم ہے۔
محبت کی رعایت رکھتے ہوئے عمل کچھ بھی ہو بالآخر دنیا کی عدالت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔
ان کو جلد اس قابل بننا ہے کہ اقوام کے درمیان باوقار عدل اور محبت کے ساتھ کھڑے ہوں۔
شیخ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اصلاح کے لیے ایک اور صاحب بھی آتے ہیں اور انکا بھی کچھ اسی نوعیت کا پیغام ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر۔
مطلب یہ کو انہونی سعی آپ ہی نہیں کر رہے بہت سے لوگ ہیں لیکن ابھی فی الحال یہ ایک خواب ہی ہے۔
لڑکا عبارات کا تذکرہ کرتا ہے تو شیخ ایک جملے میں چوڑے چمار کا تذکرہ کرتے ہیں۔
وہ اس ڈنڈی کا اعادہ کرتے ہیں جو بعض مسلمانوں کی اصلاح کے لیے انہوں نے چھپا کر رکھی تھی۔
یہ نشست یوں تمام ہوتی ہے۔
اسکے بعد لڑکا کچھ دفعہ اور شیخ کی صحبت میں گیا اور ایک دفعہ لڑکے نے جانے کی جلدی کی تو شیخ اپنی نشست چھوڑ کر کھڑے ہو گئے اور اپنی بات کی تکمیل کی۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا دستاویز کے سلسلے میں شیخ شہزادی ہاوس کے پاس پہنچتا ہے۔
میاں ظہوری-
لڑکے کے ایک رشتے دار نے شیخ بیت المکر م سے اصلاحی تعلق قائم کیا تھا۔
شیخ مسجد میں موجود چندکچے گھروں میں سے ایک میں مقیم تھے۔
بعد از عصر ایک تخت پر بیٹھ جاتے اور لوگ اپنی اصلاح کے خطوط ان کو دیتے اور جواب حاصل کرتے یا زبانی ہی اپنی بات کر لیتے۔
لڑکا بارہا ان کے پاس گیا اور وہ تحمل سے ہر بات سمجھا دیتے تھے۔
اس بار البتہ لڑکا دستاویز کے سلسلے میں ان کے پاس پہنچا۔
شیخ نے لڑکے کی بات سن کر فرمایا کہ اگرہم یوں مل جل جائیں تو پھر دیکھیں مدینے میں کیا حال کریں یہ لوگ۔
ان کا مطلب تھا کہ دوسری طرف عقیدت اسقدر ہے کہ روضاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لوگ بوسے لیں، چادریں ملتے رہیں، مٹی اٹھا لائیں اور طرح طرح کی باتیں کریں جو وہاں کی شان سے فروتر ہوں۔
مسلمانوں کو بہرحال انصاف کے لیے کھڑے ہونے کا حکم ہے۔
محبت کی رعایت رکھتے ہوئے عمل کچھ بھی ہو بالآخر دنیا کی عدالت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔
ان کو جلد اس قابل بننا ہے کہ اقوام کے درمیان باوقار عدل اور محبت کے ساتھ کھڑے ہوں۔
شیخ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اصلاح کے لیے ایک اور صاحب بھی آتے ہیں اور انکا بھی کچھ اسی نوعیت کا پیغام ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر۔
مطلب یہ کو انہونی سعی آپ ہی نہیں کر رہے بہت سے لوگ ہیں لیکن ابھی فی الحال یہ ایک خواب ہی ہے۔
لڑکا عبارات کا تذکرہ کرتا ہے تو شیخ ایک جملے میں چوڑے چمار کا تذکرہ کرتے ہیں۔
وہ اس ڈنڈی کا اعادہ کرتے ہیں جو بعض مسلمانوں کی اصلاح کے لیے انہوں نے چھپا کر رکھی تھی۔
یہ نشست یوں تمام ہوتی ہے۔
اسکے بعد لڑکا کچھ دفعہ اور شیخ کی صحبت میں گیا اور ایک دفعہ لڑکے نے جانے کی جلدی کی تو شیخ اپنی نشست چھوڑ کر کھڑے ہو گئے اور اپنی بات کی تکمیل کی۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا دستاویز کے سلسلے میں شیخ شہزادی ہاوس کے پاس پہنچتا ہے۔
میاں ظہوری-