سید رافع
محفلین
شیخ شاہ فیصل کالونی - ایک کہانی
لڑکے کی گاڑی وسیع کالے پل پر دوڑے جا رہی تھی۔
لیکن یہ وسعت اب تنگ سڑکوں میں بدلنے والی تھی۔
جونہی ریل کی پٹری کے پل کے نیچے سے گاڑی گزرتی ہےایک پیچ دار راستہ شروع ہو جاتا ہے۔
لڑکا کافی طویل فاصلہ طے کر کے پوچھتا پوچھتا شیخ شاہ فیصل کالونی کی مسجد پہنچتا ہے۔
لڑکا مسجد میں داخل ہوتا ہے اور استقبالیہ کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔
استقبالیہ پر موجود صاحب کو لڑکا اپنے آنے کا مقصد بیان کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لڑکے کو ان کی طرف بھیجا ہے۔ وہ ایک طرف بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب دسیوں دینی تنظیمات کے روح رواں تھے اور ان کو دینی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
شیخ شاہ فیصل نہ صرف شیخ بنوری ٹاون سویم کے بڑے تھے بلکہ شیخ کورنگی دویم کے بھی استاذ رہ چکے تھے۔
اب استقبالیہ پر موجود صاحب لڑکے کو ایک کمرے میں جانے کا کہتے ہیں۔
لڑکا کمرے میں داخل ہوتا ہے اور ایک جانب زمینی نشست اختیار کر لیتا ہے۔
کچھ دیر میں ایک شیخ کمرے میں داخل ہوتے ہیں ۔ لڑکا انکو نشست چھوڑ کر سلام کرتا ہے۔
اب دونوں زمینی نشست پر ہوتے ہیں۔
شیخ معذرت کرتے ہیں کہ شیخ شاہ فیصل کالونی اپنی پیرانہ سالی اور بیماری کے باعث آپ سے ملاقات نہیں کر سکتے۔
شیخ ان کے صاحبزادے تھے۔
شیخ لڑکے کا نام دریافت کرتے ہیں۔
لڑکا اپنا مکمل نام جس میں اسکے خاندان کا نام بھی شامل ہوتا ہے بتا دیتا ہے۔
اس پر شیخ صرف اپنا نام بتاتے ہیں۔ مختصر۔ جس میں نہ کوئی خاندان کا نام شامل اور نہ ہی سابقہ لاحقہ۔
یہ ایک ادب تھا جو شیخ نے سکھایا کہ اپنے نام سے بھی تمکنت نہ حاصل کرو۔
اب شیخ آنے کا مقصد دریافت کرتے ہیں۔
لڑکا دستاویز کا تذکرہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان کے والد محترم سے ملنے کو کہا تھا ۔ اس پر شیخ کہتے ہیں کہ دستاویز دکھائیں۔
لڑکا کہتا ہے کہ وہ اس وقت اس کے پاس نہیں لیکن بات سادی سی ہی اگر وہ سن لیں۔
شیخ کہتے ہیں کہ اگر مختصر ہے تو لکھ دیں میں والد گرامی کو دکھا کر جواب لے لوں گا۔
لڑکا ایک کاغذ پر مختصرا لکھ دیتا ہے کہ جب سب علماء حنفی ہیں تو کیوں نہ ان کا ایک قائد منتخب کرلیا جائے جو قوم کی رہنمائی قدیم حنفی اصولوں کے مطابق کرے۔
شیخ لڑکے سے کہتے ہیں کہ وہ دستاویز بھی پہنچا جائیں۔
یوں یہ مختصر سی ملاقات اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔
اگلے ہی دن لڑکا دستاویز بھی شیخ کو ایک لفافے میں دے جاتا ہے۔
کچھ ہفتوں بعد لڑکا پھر استقبالیہ کے صاحب کے پاس پہنچتا ہے۔ اب رمضان شروع ہو چکا ہوتا ہے۔
استقبالیہ کے صاحب بتاتے ہیں کہ شیخ موجود نہیں۔
لڑکا استقبالیہ سے نکل کر دار الاافتاء پہنچتا ہے۔
وہاں ایک صاحب سے بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس وقت رمضان ہے سو سب چھٹی پر ہیں۔لیکن آپ نے جو دستاویز بنائی ہے وہ قیمتی ہے۔
وہ صاحب مذید کہتے ہیں کہ آج کون نہیں جوکسی گروہ میں نہ ہو۔ کام کرنے کا چلن ہی گروہ بن کر کام کرنا ہو گیا ہے۔
اس بات کے بعد لڑکا وہاں سے رخصت ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا شیخ اسلامیہ کالج کے دفتر کے سامنے گاڑی روکتا ہے۔
میاں ظہوری-
لڑکے کی گاڑی وسیع کالے پل پر دوڑے جا رہی تھی۔
لیکن یہ وسعت اب تنگ سڑکوں میں بدلنے والی تھی۔
جونہی ریل کی پٹری کے پل کے نیچے سے گاڑی گزرتی ہےایک پیچ دار راستہ شروع ہو جاتا ہے۔
لڑکا کافی طویل فاصلہ طے کر کے پوچھتا پوچھتا شیخ شاہ فیصل کالونی کی مسجد پہنچتا ہے۔
لڑکا مسجد میں داخل ہوتا ہے اور استقبالیہ کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔
استقبالیہ پر موجود صاحب کو لڑکا اپنے آنے کا مقصد بیان کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لڑکے کو ان کی طرف بھیجا ہے۔ وہ ایک طرف بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب دسیوں دینی تنظیمات کے روح رواں تھے اور ان کو دینی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
شیخ شاہ فیصل نہ صرف شیخ بنوری ٹاون سویم کے بڑے تھے بلکہ شیخ کورنگی دویم کے بھی استاذ رہ چکے تھے۔
اب استقبالیہ پر موجود صاحب لڑکے کو ایک کمرے میں جانے کا کہتے ہیں۔
لڑکا کمرے میں داخل ہوتا ہے اور ایک جانب زمینی نشست اختیار کر لیتا ہے۔
کچھ دیر میں ایک شیخ کمرے میں داخل ہوتے ہیں ۔ لڑکا انکو نشست چھوڑ کر سلام کرتا ہے۔
اب دونوں زمینی نشست پر ہوتے ہیں۔
شیخ معذرت کرتے ہیں کہ شیخ شاہ فیصل کالونی اپنی پیرانہ سالی اور بیماری کے باعث آپ سے ملاقات نہیں کر سکتے۔
شیخ ان کے صاحبزادے تھے۔
شیخ لڑکے کا نام دریافت کرتے ہیں۔
لڑکا اپنا مکمل نام جس میں اسکے خاندان کا نام بھی شامل ہوتا ہے بتا دیتا ہے۔
اس پر شیخ صرف اپنا نام بتاتے ہیں۔ مختصر۔ جس میں نہ کوئی خاندان کا نام شامل اور نہ ہی سابقہ لاحقہ۔
یہ ایک ادب تھا جو شیخ نے سکھایا کہ اپنے نام سے بھی تمکنت نہ حاصل کرو۔
اب شیخ آنے کا مقصد دریافت کرتے ہیں۔
لڑکا دستاویز کا تذکرہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان کے والد محترم سے ملنے کو کہا تھا ۔ اس پر شیخ کہتے ہیں کہ دستاویز دکھائیں۔
لڑکا کہتا ہے کہ وہ اس وقت اس کے پاس نہیں لیکن بات سادی سی ہی اگر وہ سن لیں۔
شیخ کہتے ہیں کہ اگر مختصر ہے تو لکھ دیں میں والد گرامی کو دکھا کر جواب لے لوں گا۔
لڑکا ایک کاغذ پر مختصرا لکھ دیتا ہے کہ جب سب علماء حنفی ہیں تو کیوں نہ ان کا ایک قائد منتخب کرلیا جائے جو قوم کی رہنمائی قدیم حنفی اصولوں کے مطابق کرے۔
شیخ لڑکے سے کہتے ہیں کہ وہ دستاویز بھی پہنچا جائیں۔
یوں یہ مختصر سی ملاقات اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔
اگلے ہی دن لڑکا دستاویز بھی شیخ کو ایک لفافے میں دے جاتا ہے۔
کچھ ہفتوں بعد لڑکا پھر استقبالیہ کے صاحب کے پاس پہنچتا ہے۔ اب رمضان شروع ہو چکا ہوتا ہے۔
استقبالیہ کے صاحب بتاتے ہیں کہ شیخ موجود نہیں۔
لڑکا استقبالیہ سے نکل کر دار الاافتاء پہنچتا ہے۔
وہاں ایک صاحب سے بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس وقت رمضان ہے سو سب چھٹی پر ہیں۔لیکن آپ نے جو دستاویز بنائی ہے وہ قیمتی ہے۔
وہ صاحب مذید کہتے ہیں کہ آج کون نہیں جوکسی گروہ میں نہ ہو۔ کام کرنے کا چلن ہی گروہ بن کر کام کرنا ہو گیا ہے۔
اس بات کے بعد لڑکا وہاں سے رخصت ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا شیخ اسلامیہ کالج کے دفتر کے سامنے گاڑی روکتا ہے۔
میاں ظہوری-