سنا ہے کسی زمانے میں ایک خلیفہ کشمیر کو قادیانیت کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔
کشمیر، بلوچستان اور افغانستان میں مل کر کام کرنے میں ہی فائدہ ہے جب کہ انکا اور بھارت کا "دشمن" ایک ہے۔ لیکن یہ کوئی آج سے تو ہو نہیں رہا کہ حیرت ہو۔
انگریز نے نہایت رازداری سے مرزا غلام احمد قادیانی کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین بھیروی اور دیگر چند ایجنٹوں کو مہاراجہ کے دربار سے وابستہ کرایا، تاکہ مہاراجہ پرتاب سنگھ پر نظر رکھی جاسکے۔ بھارتی قادیانی شاید قریب نہ آتے لیکن ہندووں کے مفادات جیسے کہ کشمیر کو انگریز نےقادیانی حمایت سے وابستہ کر دیا۔ ۲۵ جولائی ۱۹۳۱ء شملہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کا صدر مرزا غلام قادیانی کے بڑے بیٹے قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کو بنایا گیا۔ اس کمیٹی نے جو کیا سو کیا۔
تفصیل تو اوپر کے لنک پر دیکھیں۔ لیکن آپ اس پورے معاملے میں قادیانی دجل کو اس سے ملاحظہ فرمائیں:
قادیانی اگر اپنا شمار مسلمانوں میں کراتے تو مسلم اکثریت کی بنا پر یہ ضلع بھی پاکستان کو ملتا،
لیکن انہوںنے ریڈ کلف کمیشن کو درخواست دے کر اپنے آپ کو مسلمانوں میں شامل کرانے سے انکار کردیا، جس کی وجہ سے ضلع گورداسپور کو ضلع کی سطح پر نہیں،
بلکہ مرزا بشیر الدین محمود کے کہنے کی وجہ سے تحصیل کی سطح پر تقسیم کرایا، جس کی وجہ سے تحصیل شکر گڑھ مسلم اکثریت کا علاقہ قرار دے کر پاکستان میں شامل کی گئی اور تحصیل پٹھان کوٹ اور دوسری تحصیلوں کو بھارت کا حصہ قرار دیا گیا، جس سے بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ ملا، ورنہ اس کے پاس جموں وکشمیر میں داخل ہونے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا، چنانچہ پاکستان بن جانے کے دو ماہ بعد بھارت نے اپنی فوجیں اسی راستہ سے جموں وکشمیر میں داخل کردیں اور اس کے بڑے حصہ پر قابض ہوگیا اور ابھی تک اس کا یہ ناجائز قبضہ اور تسلُّط برقرار ہے۔