امجد علی چیمہ
محفلین
پرانی کتابوں میں حرف " یے " کی یہ قسم اکثر نظر آتی ہے۔ مگر نئی کتابوں میں یہ بالکل غائب ہے۔ نہ یہ مکمل چھوٹی یے ہے ( ی ) ، اور نہ یہ بڑی یے ( ے ) کی طرح ہے۔ اس کا کیا نام ہے؟ اور اس کو کب کب استعمال کرتے ہیں؟
یہ (ے) ہی ہے امجد بھائی، بس فونٹ سٹائل کا ایشو ہے۔
پرانی کتابوں میں حرف " یے " کی یہ قسم اکثر نظر آتی ہے۔ مگر نئی کتابوں میں یہ بالکل غائب ہے۔ نہ یہ مکمل چھوٹی یے ہے ( ی ) ، اور نہ یہ بڑی یے ( ے ) کی طرح ہے۔ اس کا کیا نام ہے؟ اور اس کو کب کب استعمال کرتے ہیں؟
یہ نکتہ میری معلومات میں اضافہ کا سبب بن گیا۔ میں اسے محض فونٹ سٹائل سمجھتا رہا۔ شکریہ۔جگہ کی تنگی کے پیش نظر
راحل صاحب اور علی وقار صاحب، بہت شکریہ!
ماہرینِ خطاطی میں سے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ "ے" کی اس شکل کا فنِ خوش نویسی میں کیا نام ہے؟
متلاشی شاکرالقادری
اس کا کوئی مخصوص نام تو ضرور ہو گا۔ اب حرف ب ہی کو لیجیے، جیسے ہی خطاط اس کو ذرا سا لمبا کھینچتے ہیں، اس کو ایک نیا نام بھی دے دیتے ہیں، یعنی با میانہ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو حرف تو وہی ب ہی ہے۔ اسی لیے میرا یہ خیال ہے کہ زیر بحث حرف بھی اگر چہ بڑی یے ( ے ) ہی ہے، مگر شکل بدلنے کی وجہ سے خوش نویسوں نے اس نئے روپ کو نیا نام ضرور دیا ہو گا۔ اب کوئی صاحبِ علم یا استادِ فن ہی اس پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں۔
"یا" اردو میں دو طرح کی ہے ۔ چھوٹی یا (ی) جسے یائے معروف اور یائے تحتانی بھی کہا جاتا ہے اور بڑی یا (ے) جسے یائے مجہول اور یائے معکوس بھی کہا جاتا ہے ۔ اردو کے ابتدائی دور میں ان دونوں کی کتابت میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا تھا ۔ اکثر اوقات بڑی یا کو بھی "ی" لکھا جاتا تھا اور پڑھنے والا لفظ دیکھ کر سمجھ جاتا تھا کہ یہ یائے مجہول ہے ۔ اسی طرح اکثر اوقات چھوٹی یا کو "ے" لکھ کر اس کے نیچے چھوٹا سا الف لکھ دیا کرتے تھے جو اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ یہ دراصل یائے معروف ہے ۔ یائے مجہول کی جس شکل کے بارے میں آپ سوال کررہے ہیں اس کا الگ سے کوئی نام نہیں ۔ یہ تو یائے مجہول کی کتابت کا ایک طریقہ تھا جو اب مستعمل نہیں ۔ اردو خطاطی کانظامِ تسمیہ یا nomenclature اتنا وسیع اور منظم نہیں کہ اس میں ہر حرف کی ہر شکل کا الگ سے نام ہو ۔ بعض حروف کی مختلف شکلوں کے نام ہیں لیکن ہر حرف کے نہیں جیسا کہ آپ نے حرف با کے بارے میں لکھا۔ پانچ قط لمبی با کو بائے ناخنی ، سات قط والی کو بائے میانہ اور گیارہ قط لمبی کو بائے طویل کہا جاتا ہے ۔
اس موضوع پر میں نے پہلے بھی ایک لڑی میں لکھا تھا ۔ تفصیل کے لئے اس دھاگے کے تمام مراسلے دیکھ لیجئے ۔
میرا خیال ہے ایسا نہیں۔ اب تک جتنی بھی پرانی کتب دیکھی ہیں ان سب میں بڑی یے یا تو ے کی شکل میں دیکھی ہے ہر جگہ یا پھر آدھی ی کی شکل میں۔ جیسے اوپر تصویر میں تحریر دی گئی ہے ایسا کسی کتاب میں نہیں دیکھا۔ یہ بس کسی خطاط کی خطاطی لگتی ہے۔یہ بڑی ے لکھنے کا ہی ایک انداز تھا جو کاتب سطر میں جگہ کی تنگی کے پیش نظر اختیار کیا کرتے تھے کبھی کبھار ۔۔۔
کئی سال قبل، بچپن میں، ہمارے والد نے طہارت کے مسائل پر مبنی ایک کتاب لا کر دی تھی مطالعے کے لیے جس کی کتابت ہاتھ سے کی گئی تھی (کسی قدیم کتاب کا عکسی نسخہ تھا)، اس میں جا بجا "ہے" اسی صورت میں لکھا گیا تھا جیسی مثال امجد صاحب نے پیش کی ہے. مجھے تو اسی سے پتہ چلا کہ پرانے وقتوں کاتب اس انداز سے بھی لکھا کرتے تھے.میرا خیال ہے ایسا نہیں۔ اب تک جتنی بھی پرانی کتب دیکھی ہیں ان سب میں بڑی یے یا تو ے کی شکل میں دیکھی ہے ہر جگہ یا پھر آدھی ی کی شکل میں۔ جیسے اوپر تصویر میں تحریر دی گئی ہے ایسا کسی کتاب میں نہیں دیکھا۔ یہ بس کسی خطاط کی خطاطی لگتی ہے۔
مجھے تو یائے مجہول و معروف لگ رہی ہے!پرانی کتابوں میں حرف " یے " کی یہ قسم اکثر نظر آتی ہے۔ مگر نئی کتابوں میں یہ بالکل غائب ہے۔ نہ یہ مکمل چھوٹی یے ہے ( ی ) ، اور نہ یہ بڑی یے ( ے ) کی طرح ہے۔ اس کا کیا نام ہے؟
ابو ہاشم صاحب ایسا نہیں ہے ۔ پرانی کتب میں دونوں یا کو ایک ہی صورت میں لکھا جاتا تھا جیسا کہ میں نے اوپر ایک مراسلے میں ذکر کیا ۔میرا خیال ہے ایسا نہیں۔ اب تک جتنی بھی پرانی کتب دیکھی ہیں ان سب میں بڑی یے یا تو ے کی شکل میں دیکھی ہے ہر جگہ یا پھر آدھی ی کی شکل میں۔ جیسے اوپر تصویر میں تحریر دی گئی ہے ایسا کسی کتاب میں نہیں دیکھا۔ یہ بس کسی خطاط کی خطاطی لگتی ہے۔
ثبوت کے لیےاس مراسلے میں یہ تصویر دیکھئے ۔ اور کتابت کے اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لئے یہ مراسلہ دیکھئے ۔اردو کے ابتدائی دور میں ان دونوں کی کتابت میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا تھا ۔ اکثر اوقات بڑی یا کو بھی "ی" لکھا جاتا تھا اور پڑھنے والا لفظ دیکھ کر سمجھ جاتا تھا کہ یہ یائے مجہول ہے ۔ اسی طرح اکثر اوقات چھوٹی یا کو "ے" لکھ کر اس کے نیچے چھوٹا سا الف لکھ دیا کرتے تھے جو اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ یہ دراصل یائے معروف ہے ۔
یہ بڑی ے لکھنے کا ہی ایک انداز تھا جو کاتب سطر میں جگہ کی تنگی کے پیش نظر اختیار کیا کرتے تھے کبھی کبھار ۔۔۔
میرا خیال ہے ایسا نہیں۔ اب تک جتنی بھی پرانی کتب دیکھی ہیں ان سب میں بڑی یے یا تو ے کی شکل میں دیکھی ہے ہر جگہ یا پھر آدھی ی کی شکل میں۔ جیسے اوپر تصویر میں تحریر دی گئی ہے ایسا کسی کتاب میں نہیں دیکھا۔ یہ بس کسی خطاط کی خطاطی لگتی ہے۔
جی محترم ظہیر صاحب میرے لکھے کا مقصد یہ تھا کہ بڑی یے (یائے مجہول) کے لیے چھوٹی یے کی آدھی شکل کا استعمال جگہ کی تنگی کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا بلکہ ہر جگہ ہی بڑی یے کو اسی شکل (آدھی ی) میں لکھا جاتا تھا (سوائے شاید اس کے کہ کسی اشتہار میں یا کسی عنوان یا سرخی وغیرہ کے لیے دوسری شکل استعمال کر لی جاتی نمایاں کرنے کے لیے)۔ 'پرانی کتب' سے میری مراد بہت پرانی کتب نہیں تھی بلکہ جو پرانی کتب میں نے دیکھی ہیں۔ابو ہاشم صاحب ایسا نہیں ہے ۔ پرانی کتب میں دونوں یا کو ایک ہی صورت میں لکھا جاتا تھا جیسا کہ میں نے اوپر ایک مراسلے میں ذکر کیا ۔
جی بالکل ایسا ہی ہے۔امجد صاحب نے جس شکل کے بارے میں پوچھا ہے وہ کسی خطاط کی خطاطی کا اسٹائل نہیں بلکہ بعد کے دور میں یائے مجہول کو یائے معروف سے ممتاز کرنے کے لئے اس طرح لکھا جانے لگا تھا یعنی یائے مجہول کا آخری حصہ بائیں سے دائیں کو کھینچنے کے بجائے دائیں سے بائیں کو کھینچ دیا کرتے تھے ۔ یائے مجہول کی کتابت کا یہ طریقہ ایک عرصے تک مستعمل رہا اور پھر اس کی جگہ موجودہ شکل نے لے لی۔