ایک ہی سانس میں؟؟؟

گیت: بریتھ لیس (Breathless) پہلا حصہ
گلوکار: شنکر مہادیون
موسیقار: شنکر مہادیون
شاعر: جاوید اختر

[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=P47Tv3cANmc[/youtube]

[ame="http://www.divshare.com/download/2459785-e84"]سننے کے لیے[/ame]

کوئی جو ملا تو مجھے ایسا لگتا تھا
جیسے میری ساری دنیا میں
گیتوں کی رُت اور رنگوں کی برکھا ہے
خوشبو کی آندھی ہے
مہکی ہوئی سی اب ساری فضائیں ہیں
بہکی ہوئی سی اب ساری ہوائیں ہیں
کھوئی ہوئی سی اب ساری دشائیں ہیں
بدلی ہوئی سی اب ساری ادائیں ہیں
جاگی امنگیں ہیں
دھڑک رہا ہے دل
سانسوں میں طوفاں ہیں
ہونٹوں پہ نغمے ہیں
آنکھوں میں سپنے ہیں
سپنوں میں بیتے ہوئے
سارے وہ لمحے ہیں
جب کوئی آیا تھا
نظروں پہ چھایا تھا
دل میں سمایا تھا
کیسے میں بتاؤں تمہیں
کیسا اسے پایا تھا؟
پیارے سے چہرے پہ بکھری جو زلفیں
تو ایسا لگتا تھا
جیسے گھمرے کے پیچھے
اک اوس میں دھلا ہوا پھول کھلا ہے
جیسے بادل میں اک چاند چھپا ہے
اور جھانک رہا ہے
جیسے رات کے پردے میں
ایک سویرا ہے
روشن روشن آنکھوں میں
سپنوں کا ساغر جس میں
پریم ستاروں کی چادر جیسے جھلک رہی ہے
لہروں لہروں بات کرے وہ
جیسے موتی برسے
جیسے کہیں چاند کی پائل گونجے
جیسے کہیں شیشے کے جام گریں اور
چھن سے ہی ٹوٹے
جیسے کوئی چھپ کے ستار بجائے
جیسے کوئی چاندنی رات میں گائے
جیسے کوئی حال سے پاس بلائے
کیسی میٹھی باتیں تھیں وہ
کیسی ملاقاتیں تھیں وہ
جب میں نے جانا تھا
نظروں سے کیسے بکھرتے ہیں دل
اور آرزو پاتی ہے کیسے منزل
اور کیسے اترتا ہے چاند زمیں پر
کیسے کبھی لگتا ہے فرق
اندھیرے میں تو بس میں یہیں پر
اس نے بتایا مجھے
اور سمجھایا مجھے
ہم جو ملے ہیں ہمیں ایسے ہی ملنا تھا
گل جو کھلے ہیں انہیں ایسے ہی کھلنا تھا
جنموں کے بندھن، جنموں کے رشتے ہیں
جب بھی ہم جنم لیں تو ہم یونہی ملتے ہیں
خوابوں میں میرے جیسے شہد سے گھلنے لگے
خوابوں کی طرح جیسے آنکھ میں گھلنے لگے
خوابوں کی دنیا بھی کتنی حسیں اور کیسی رنگیں تھی
خوابوں کی دنیا جو کہنے کو تھی پر کہیں بھی نہیں تھی
خواب جو ٹوٹے میرے
آنکھ جو کھلی میری
ہوش جو آیا مجھے
میں نے دیکھا، میں نے جانا
وہ جو کبھی آیا تھا
نظروں پہ چھایا تھا
دل میں سمایا تھا
جا بھی چکا ہے اور
دل مِرا ہے اب تنہا تنہا
نہ اب کوئی ارماں ہے، نہ اب کوئی تمنا ہے
اب نہ کوئی سپنا ہے
اب جو میرے دن اور اب جو میری راتیں ہیں
ان میں صرف آنسو ہیں
ان میں صرف درد کی، رنج کی، باتیں ہیں
اور فریادیں ہیں
میرا اب کوئی نہیں
میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں
میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں
میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں

ہوووووووو۔۔۔۔۔۔!
 
بریتھ لیس (Breathless) دوسرا حصہ

گیت: بریتھ لیس (Breathless) دوسرا حصہ
گلوکار: شنکر مہادیون
موسیقار: شنکر مہادیون
شاعر: جاوید اختر


[ame="http://www.divshare.com/download/2460152-9ad"]سننے کے لیے[/ame]


میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں
میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں
میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں

اب جو میرے دن اور اب جو میری راتیں ہیں
ان میں صرف آنسو ہیں
ان میں صرف درد کی، رنج کی، باتیں ہیں
اور فریادیں ہیں
میرا اب کوئی نہیں
میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں
ڈوب گیا ہے دل غم کے اندھیرے میں
میری ساری دنیا ہے درد کے گھیرے میں
میرے سارے گیت ڈھلے آہوں میں
بن کے دیوانہ اب یہاں وہاں پھرتا ہوں
ٹھوکریں کھاتا ہوں ان راہوں میں
جہاں اسے دیکھا، جہاں اسے چاہا تھا
جہاں میں ہنسا تھا اور بعد میں رویا تھا
جہاں اسے پایا تھا، پاکے کھویا تھا
جہاں کبھی پھولوں کے، کلیوں کے سائے تھے
رنگیں رنگیں مہکی رُت نے
ہر اِک قدم پر راس رچائے تھے گلشن گلشن
دن میں اجالے تھے جگمگ جگمگ
نور تھا راتوں میں جھلمل جھلمل
جہاں میں نے خوابوں کی دیکھی تھی منزل
جہاں میری کشتی نے پایا تھا ساحل
جہاں میں نے پائی تھی پلکوں کی چھاؤں
جہاں میری بانہوں میں کل تھی کسی کی
مرمریں بانہیں
جہاں ایک چہرے سے ہٹتی نہیں تھیں میری نگاہیں
جہاں کل نرمی ہی نرمی تھی
پیار ہی پیار تھا باتوں میں
ہاتھ تھے ہاتھوں میں
جہاں کل گائے تھے پریم ترانے
جہاں کل دیکھے تھے سپنے سہانے
کسی کو سنائے تھے دل کے فسانے
جہاں کل کھائی تھیں جینے کی مرنے کی قسمیں
توڑی تھیں دنیا کی ساری رسمیں
جہاں کل برسا تھا پریت کا بادل
جہاں میں نے تھاما تھا کوئی آنچل
جہاں پہلی بار ہوا تھا میں پاگل
اب ان راہوں میں کوئی نہیں ہے
اب ہیں وہ راہیں ویراں ویراں
دل بھی ہے جیسے حیراں حیراں
جانے کہاں گیا میرے سپنوں کا میلہ
ایسے ہی خیالوں میں کھویا کھویا
گھوم رہا تھا میں کب سے اکیلا
چمکا ستارا جیسے کوئی گگن میں
گونجی صدا کوئی من آنگن میں
کسی نے پکارا مجھے
مڑ کے جو دیکھا میں نے
مل گیا کھویا ہوا دل کا سہارا مجھے
جسے میں نے چاہا تھا
جسے میں نے پوجا تھا
لوٹ کے آیا ہے
تھوڑا شرمندہ ہے، تھوڑا گھبرایا ہے
زلف پریشاں ہے، کانپتے ہونٹ اور بھیگی ہوئی آنکھیں ہیں
دیکھ رہا ہے مجھے گم صم گم صم
اس کی نظر جیسے پوچھ رہی ہو
اتنا بتادو کہیں خفا تو نہیں تم
پیار جو دیکھا پھر میری نگاہوں میں
آکے وہیں پلٹا وہ میری ان بانہوں میں
بھول گیا میرا دل جیسے ہر غم
بدل گیا جیسے دنیا کا موسم
جھومے نظارے
اور جھومے فضائیں
اور جھومے چمن
اور جھومی ہوائیں
۔۔۔۔ دکھانے لگیں ساری دشائیں
کتنی حسیں ہے کتنی سہانی
ہم دونوں کی پریم کہانی
ہم دونوں کی پریم کہانی
ہم دونوں کی پریم کہانی
 
جو لوگ یہ دونوں گیت سن سکتے ہیں، وہ ضرور سنیں۔ دونوں لاجواب ہیں۔ شنکر نے موسیقی بھی بہت اچھی دی ہے اور گایا بھی بہت اچھا ہے۔ اس کا خیال اچھوتا اور دوسرے تمام گانوں سے الگ ہے۔ پھر جاوید اختر کے بول لکھے ہوں تو کمال ہوتا ہے۔ جاوید اختر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ان کے ذہن میں کافی عرصہ سے یہ خیال آتا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ایسا گانا بنایا جائے جو کہ مسلسل ہو، اس کا باقاعدہ ربط ہو، جس کے درمیان سانس بھی منقطع نہ ہو۔ یہ خیال جاوید اختر نے کئی گلوکاروں کے سامنے رکھا، سب نے ہی تعریف کی لیکن جب ان سے ایسے گیت پر کام کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے معذرت کرلی۔ تاہم جب شنکر کے سامنے جاوید اختر نے یہ خیال رکھا تو وہ راضی ہوگئے۔
ایک عرصہ تک میں یہ سمجھتا تھا کہ واقعی یہ ایک سانس میں گایا ہے لیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ تو ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔ خیر پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب ہے۔ اور موسیقی بھی شاندار!
 

حسن علوی

محفلین
کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ یہ گانا ایک ہی سانس میں گایا گیا ھے؟

[ame="http://www.youtube.com/watch?v=P47Tv3cANmc"]http://www.youtube.com/watch?v=P47Tv3cANmc[/ame]


مجھے تو یقین نہیں آتا۔۔۔۔
 

ماوراء

محفلین
لو، میں نے بھی ایک ہی سانس میں گانا لکھ دیا۔ لیکن غلطیاں یقینا ہوں گی۔

کوئی جو ملا تو مجھے ایسا لگتا تھا جیسے
میری ساری دنیا میں گیتوں کی رت اور رنگوں کی برکھا ہے
خوشبو کی آندھی ہے
مہکی ہوئی سی اب ساری فضائیں ہیں
مہکی ہوئی سی اب ساری ہوائیں ہیں
کھوئی ہوئی سی اب ساری نشائیں ہیں
بدلی ہوئی سی اب ساری ادائیں ہیں
جاگی امنگیں ہیں، دھڑک رہا ہے دل، سانسوں میں طوفاں ہیں
ہونٹوں پہ نغمے ہیں، آنکھوں میں سپنے ہیں، سپنوں میں بیتے ہوئے سارے وہ لمحے ہیں
جب کوئی آیا، نظروں پہ چھایا تھا، دل میں سمایا تھا، کیسے میں بتاؤں تمھیں، کیسا اسے پایا تھا
پیار سے چہرے پر بکھری جو زلفیں تو ایسا لگتا تھا
جیسے گوہر کے پیچھے اک اوس میں دھلا ہوا پھول کھلا ہے
جیسے بادل میں اک چاند چھپا ہے، اور جھانک رہا ہے جیسے رات کے پردے میں
ایک سویرا ہے روشن روشن آنکھوں میں سپنوں کا ساگر جس میں پریم ستاروں کی چادر جیسے جھلک رہی ہے
لہروں لہروں بات کرے وہ جیسے موتی برسے، جیسے کہیں چاند کی پائل گونجے،
جیسے کہیں شیشے کے جام گرے اور چھن سے ٹوٹے، جیسے کوئی چپکے سے ستار بجائے،
جیسے کوئی چاندنی رات میں گائے، جیسے کوئی ہولے سے پاس بلائے
کیسے میٹھی باتیں تھیں وہ کیسی ملاقاتیں تھیں،
وہ جب میں نے جانا تھا، نظروں سے کیسے پگھلتی ہیں دل اور آرزو پاتی ہے کیسے منزل اور کیسے اترتا ہے چاند زمین پر،
کیسے کبھی لگتا ہے سرد یا گرم اندھیرے میں تو بس میں یہیں پر
اس نے بتایا مجھے، اور سمجھایا مجھے ، ہم جو ملے ہیں، ہمیں ایسے ہی ملنا تھا،
گل جو کھلنے تھے، انھیں ایسے ہی کھلنے تھے
جنموں کے بندھن، جنموں کے رشتے ہیں، جب بھی ہم جنم لیں تو ہم یونہی ملتے ہیں
خوابوں میں میرے جیسے شہد سے گھلنے لگے، خوابوں کی طرح جیسے آنکھ میں گھلنے لگے
خوابوں کی دنیا بھی کتنی حسیں اور کیسی رنگیں تھی
خوابوں کی دنیا جو کہنے کو تھی پر کہیں بھی نہیں تھی
خواب جو ٹوٹے میرے، آنکھ جو کھلی میری، ہوش جو آیا مجھے، میں نے دیکھا، میں نے جانا
وہ جو کبھی آیا تھا، نظروں پہ چھایا تھا، دل میں سمایا تھا
جا بھی چکا ہے اور دل میرا ہے اب تنہا تنہا
نہ اب کوئی ارماں ہے، نہ اب کوئی تمنا ہے، اب نہ کوئی سپنا ہے
اب جو میرے دن اور اب جو میری راتیں ہیں
ان میں صرف آنسو ہیں، ان میں صرف درد کی، رنج کی باتیں ہیں، اور فریادیں ہیں
میرا اب کوئی نہیں
میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں
میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں
میں ہوں اور کھوئے ہوئے پیار کی یادیں ہیں
 

ماوراء

محفلین
لکھ لیا، تو گوگل پر سرچ کیا کہ شاید شاعری مل جائے اور اپنی غلطیاں درست کر لوں۔
عمار نے پہلے ہی لکھا ہوا تھا، بلکہ اس کا دوسرا حصہ بھی۔ اس تھریڈ کو اسی میں منتقل کر دیا ہے۔
 

حسن علوی

محفلین
بات پرانے یا نئے کی نہیں فہیم بات یہ ھے کہ یہ ایک حیرت انگیز 'حرکت' ھے یا پھر ٹیکنالوجی کا کمال۔۔۔:)
 
نہ نہ۔۔۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ واقعی ایک سانس میں گایا ہے۔۔۔ یہ صرف ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔۔۔ ایک سانس میں گانے بیٹھ گیا تو دم ٹوٹ جائے گا بے چارہ کا۔
 
بلکہ میں نے یوٹیوب پر عرصہ پہلے ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں اس گیت کا پس منظر بتایا تھا۔۔۔ شاید جاوید اختر کا آئیڈیا تھا ایک سانس والا گیت بنانے کا اور اس نے کہا کہ میں سوچتا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایسا کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ لیکن جس گلوکار سے بھی بات کی، پہلے اس نے رضامندی ظاہر کی پر بعد میں ہاتھ نہ آیا۔ شنکر سے جب بات کی تو وہ راضی ہوا اور پھر دونوں نے مل کر اس پروجیکٹ پر کام کیا۔ شنکر مہادیون اچھا اور باصلاحیت گلوکار ہے اور پھر جاوید اختر کے لکھے بول کی تو کیا ہی بات ہے۔
 

حسن علوی

محفلین
میں نے ٹرائیاں کر ماریں ہیں عمار، چار سطروں سے آگے نہیں جا پایا۔ اس لیئے باقی لوگ بھی پرہیز ہی کریں تو بہتر ھے۔
طبیعت زیادہ خراب تو ڈاکٹر سے رجوع کریں;)
 
صرف چار سطریں؟ میں تین چار سانس میں پورا گانا گاسکتا ہوں۔۔۔۔ بلکہ گاسکتا تھا جب میں نے اس کی مشق کی تھی۔۔۔ ابھی کا نہیں پتا۔۔۔ آپ "ٹرائیاں" مارنا جاری رکھیں۔۔۔ چار سطر سے آگے بھی بڑھ جائیں گے۔ :)
 

حسن علوی

محفلین
خیر چھوڑو بھئی جانے دو اب کیا اس کام کے پیچھے اپنی توانائیاں خرچ کی جائیں کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ہمیں اس کے سوا۔ اور ویسے بھی کونسا ایوارڈ مل جائے گا یہ کارِخیر سرانجام دے کر:rolleyes:
 

حسن علوی

محفلین
اور اس کوشش میں اگر ہم اپنی ننھی سی جان سے گزر گئے تو اسکا کون ذمہ دار ھے؟ میں نے تو لائف انشورنس بھی نہیں کروائی بھائی
 

ظفری

لائبریرین
ابھی ابھی ایک اطلاع ملی کہ ظفری جی آپ کی ایک پوسٹ اس دھاگے سے حذف کر دی گئی ۔ یہاں آکے دیکھا تو واقعی حذف ہوچکی ہے ۔ بھئی ہم تو اس گانے کے بارے میں کچھ معلومات مہیا کی تھی ۔ :rolleyes: ۔۔۔ پتا نہیں کسی کو وہ پوسٹ کیوں پسند نہیں آئی ۔ ;)
 

جیا راؤ

محفلین
ارے ہم تو اب تک سمجھتے تھے کہ واقعی یہ گانا ایک سانس میں گایا گیا ہے۔:eek:

دونوں گانے بہت پیارے ہیں۔
شکریہ عمار شئیر کرنے کا۔
 
ابھی ابھی ایک اطلاع ملی کہ ظفری جی آپ کی ایک پوسٹ اس دھاگے سے حذف کر دی گئی ۔ یہاں آکے دیکھا تو واقعی حذف ہوچکی ہے ۔ بھئی ہم تو اس گانے کے بارے میں کچھ معلومات مہیا کی تھی ۔ :rolleyes: ۔۔۔ پتا نہیں کسی کو وہ پوسٹ کیوں پسند نہیں آئی ۔ ;)
کس قسم کی معلومات مہیا کردی تھیں آپ نے؟ :rolleyes:
 
Top