ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا ؟

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
جون ایلیا

کیا ٹوٹا ہوا دل غمگین ہوتا ہے؟ کیا غمگین ہونا ہی بے چین ہونا ہے؟ یا غمگین ٹوٹا ہوا دل مطمئن ہوتا ہے؟ کچھ کہتے ہیں دوا کھا کر سوتے رہو، کچھ ورزش اور ملک ملک گھومنے کا راگ آلاپتے ہیں اور کچھ مصروفیت میں ٹوٹے دل کا علاج بتاتے ہیں۔ کیا واقعی یہ ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑ دینے کا علاج ہے؟

علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا

کیا ایسے دل دوبارہ کسی سے محبت کے قابل رہتے ہیں؟ کیا کسی اور کی محبت انکے دل کو جوڑ سکتی ہے؟ کیا مخلوق سے محبت، بچوں سے محبت، مذہب میں جانفشانی ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑ سکتی ہے یا یہ محض دل ٹوٹنے کی تکلیف سے کچھ لمحوں کے لیے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے؟

یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بہ دستور کیے جاتے ہیں

کچھ کہتے ہیں ٹوٹے ہوے دل اللہ کی یاد سے ہی جڑ سکتے ہیں۔ کیا یہ واقعی کوئی حقیقت ہے یا محض بہلاوہ؟ کیا چلے لگا کر تبلیغی نصاب پڑھنے سے دل جڑ جائے گا؟ کیا مدنی قافلوں میں نعتیں ٹوٹے دل کا مداوا ہیں؟ کیا دینی مناظرے اور ماتم ٹوٹے دل پر مرہم رکھ پائیں گے؟ جس شخص سے دل محبت کی وجہ سے جڑا ہو اور وہ شخص زندگی سے دور ہو جائے تو اسکی عدم موجودگی کا بوجھ کمزور دل سہار نہیں پاتے اور ٹوٹ جاتے ہیں۔ کیا علاج ہے اس ٹوٹے دل کا؟ کیا مرہم ہے اس گہرے گہاو کا؟ کیا انسانیت اس علم سے محروم ہے؟ کیا یہ مرض لاعلاج ہے؟ کیا دل جڑ نہیں سکتا؟ کیا معذوری دور نہیں ہو سکتی؟

یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بہ دستور کیے جاتے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
1912 میں ملک سلطان محمود خان ٹوانہ نے قبلہ عالم سید مہر علی شاہ قدس سرہ کی خدمت میں اپنی کسی پریشانی کے متعلق عریضہ ارسال کیا اور عنوان پر یہ شعر لکھا۔


گر چارہ مرے زخم جگر کا نہیں کرتے
اچھا یہی کہہ دو کہ ہم اچھا نہیں کرتے


حضرت نے بواپسی اپنے قلم مبارک سے یہ منظوم جواب ارسال فرمایا:


اس چشم سیاہ مدھ بھری پر سحر و فتن سے
سلطاں بھی اگر الجھیں تو اچھا نہیں کرتے


بے ساختہ تھا زخم جگر نوکِ مژہ سے
پھر شکوہ ہی کیا ہے کہ وہ اچھا نہیں کرتے


کہہ دیوے بھلا کیسے کوئی میر عرب سے
"اچھا یہی کہہ دو کہ ہم اچھا نہیں کرتے"


ہے مہر و وفا طرزو ادا آل عبا کی
ہر گز نہ کہیں گے کہ ہم اچھا نہیں کرتے

کلام سید مہر علی شاہ

 
1912 میں ملک سلطان محمود خان ٹوانہ نے قبلہ عالم سید مہر علی شاہ قدس سرہ کی خدمت میں اپنی کسی پریشانی کے متعلق عریضہ ارسال کیا اور عنوان پر یہ شعر لکھا۔


گر چارہ مرے زخم جگر کا نہیں کرتے
اچھا یہی کہہ دو کہ ہم اچھا نہیں کرتے


حضرت نے بواپسی اپنے قلم مبارک سے یہ منظوم جواب ارسال فرمایا:


اس چشم سیاہ مدھ بھری پر سحر و فتن سے
سلطاں بھی اگر الجھیں تو اچھا نہیں کرتے


بے ساختہ تھا زخم جگر نوکِ مژہ سے
پھر شکوہ ہی کیا ہے کہ وہ اچھا نہیں کرتے


کہہ دیوے بھلا کیسے کوئی میر عرب سے
"اچھا یہی کہہ دو کہ ہم اچھا نہیں کرتے"


ہے مہر و وفا طرزو ادا آل عبا کی
ہر گز نہ کہیں گے کہ ہم اچھا نہیں کرتے

کلام سید مہر علی شاہ

اچھا کیا بھی نہیں، اور کہا بھی نہیں کہ اچھا نہیں کرتے!

عجیب طرفہ تماشا ہے میرے عہد کے لوگ
 

الف نظامی

لائبریرین
کتاب مرقع کلیمی از قدوۃ السالکین حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی ؒ صفحہ 80 پر درج ہے :
جو شخص پریشان دل ، پریشان حال ہو
آیت:

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ‎
ترجمہ: وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے

ہر روز سات مرتبہ پڑھے اور اپنا داہنا ہاتھ سینہ پر ملے اور مداومت کرے تسکین اور آرام حاصل ہوگا
 
کتاب مرقع کلیمی از قدوۃ السالکین حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی ؒ صفحہ 80 پر درج ہے :
جو شخص پریشان دل ، پریشان حال ہو
آیت:

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ‎
ترجمہ: وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے

ہر روز سات مرتبہ پڑھے اور اپنا داہنا ہاتھ سینہ پر ملے اور مداومت کرے تسکین اور آرام حاصل ہوگا
لکھا ہونا اور ہے آزمودہ ہونا اور ہے۔ ایسے سینکڑوں وظائف ٢۵ سالوں میں میرے اوراد میں شامل رہے۔ صرف درود ٣٠٠٠ ہزار پڑھنے سے کچھ تسکین اور جمعیت خاطر محسوس ہوئی باقی سب مشقت معلوم ہوئی۔ اور یہ بھی کبھی کبھار ہمیشہ نہیں۔ ورنہ مسجد میں ١٢٠٠٠ دفعہ درود پڑھنے سے غصہ اور اکتاہٹ ہی حاصل ہوئی۔

ہیکل، قفل اور منزل سے بھی کبھی کبھی ایک گُونا گُوں اطمینان حاصل ہوا۔ شاید مہینے میں ایک دفعہ۔

درود اکبر عین روضہ رسولﷺ کے سامنے خاص ہے۔ اس کی اس تاثیر میں حقیقت ہے۔ ورنہ گھر میں پڑھنے سے کچھ حاصل نا ہوا۔ یہ اوراد بھی عجیب شئے ہیں۔ صحیح وقت، تعداد اور مقام نا ہو تو بے فائدہ جیسے کسی تالے کی چابی کسی اور تالے کو نہیں کھولتی۔

سورہ یسین، واقعہ اور ملک پڑھنا بھی محض تکرار لگتا ہے۔ اس سے بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ یہی حال قرآن کی عمومی تلاوت ہے کہ کبھی اچھا لگتا ہے اور کبھی محض اکتاہٹ اور تکرار کی مشقت ہی حاصل ہوتی ہے۔ پورا پورا سپارہ یا قرآن ختم کر جائیں بےکلی اور بے چینی وہیں رہتی ہے۔

لاحول بھی کبھی کبھار مَوزُوں معلوم ہوتا ہے۔ ہزارہا بار پڑھنے سے معلوم ہوا کہ سخت غم میں پڑھنا مفید ہے۔ یہی حال استغفار کا ہے۔

نیت کا فقدان، ذہن کا ادھر ادھر جست لینا، نوکری اور گھر کی مشغولیات، وظائف کی جڑ ویسے بھی کاٹ دیتے ہیں۔ ایسے میں موبائل اور شوشل میڈیا پر لاتعداد مناظر تفکرات کو واضح اور مجتمع نہیں ہونے دیتے۔

سو سیکڑوں لوگوں نے لاکھوں وظائف بتائے لیکن کارگر شاید ہی کوئی چند ایک ہی ہوں کیونکہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی صاحب حال نہیں تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نیت کا فقدان، ذہن کا ادھر ادھر جست لینا، نوکری اور گھر کی مشغولیات، وظائف کی جڑ ویسے بھی کاٹ دیتے ہیں۔ ایسے میں موبائل اور شوشل میڈیا پر لاتعداد مناظر تفکرات کو واضح اور مجتمع نہیں ہونے دیتے۔
دانش مندوں کی صحبت صوفیوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہ لوگ ہر وقت تشویش اور تعلق میں رہتے ہیں اور یہ لوگ ناسودہ اور غیر مطمئن لوگ ہیں۔ جو ان کے ساتھ رہے گا وہ بھی ناسودہ رہے گا
خواجہ فضیل عیاض نے ایک مرتبہ گھر کرایہ پر لینے کے لیے خادم کو بھیجا اس سے کہا کوشش کرنا ہمسایہ دانش مند اور اسکالر وغیرہ نہ ہوں
(جوامع الکلم ملفوظات خواجہ سید محمد حسینی بندہ نواز گیسودراز ، صفحہ 142)
مناسب سمجھیں تو سوشل میڈیا کا استعمال کم کر دیں یا اس کو فلٹر کریں جس مواد سے آپ بے چینی محسوس کرتے ہیں اس کے سورس سے دوری اختیار کریں۔
۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
وظیفہ پڑھنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ کی نیت کیا ہے کس مقصد کے لیے پڑھ رہے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ اللہ تعالی کے ہر اسم کے وظیفہ کے ساتھ ایک کیفیت وابستہ ہے۔ اب اس کیفیت کو آپ برداشت کر سکیں گے یا مغلوب الحال ہو جائیں گے اس کا تعین ایک استاد ہی کر سکتا ہے۔
اگر اس راہ پر چلنا ہے تو استاد کو تلاش کیجیے بصورت دیگر مسنون اوراد اور درود شریف پڑھنا زیادہ مناسب ہے کہ اس میں نقصان کا شائبہ نہیں۔

اکثر اساتذہ زیادہ وظائف پڑھنے والوں کو وظائف ترک کرنے اور ایسی قوالی سننے کا کہتے ہیں جس سے موڈ بہتر ہو یا سورہ رحمان کی تلاوت سننا تجویز کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید صاحب کے چینل کو دیکھیے۔

دور حاظر کے اساتذہ کی فہرست:
سید سرفراز شاہ
بابا عرفان الحق
ڈاکٹر احمد رفیق اختر
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
شیعہ اور سنی دونوں کے لیے مندرجہ ذیل اقتباس میں سیکھنے کے لیے کچھ خاص ہے:

حضرت مولانا میر مقصود علی خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا قلب بھی سیاسی بصیرت سے لبریز تھا۔ جس زمانہ میں آپ ہائی اسکول پربھنی میں برسرِکار تھے ایک واعظ صاحب پربھنی پہنچے اور ایک مسجد میں ایسی تقریر کی کہ مسلمان دو حصوں میں بٹ گئے اور جھگڑے کی نوبت آگئی۔ اسی دن شام میں اس عالم کی آمد پر حاکم ضلع نے مختلف حکام اور علماء کو کھانے پر جمع کیا۔ جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے اور مختلف مسائل پر باہم گفتگو ہونے لگی تو مولانا علیہ الرحمۃ نے اس عالم سے سوال کیا کہ پچھلے ستر سال قبل یمن کے چند یہودی گھرانے ملک شام منتقل ہوئے ہیں ، کیا ان گھرانوں سے آپ کا تعلق ہے؟
اس عالم نے تاڑ لیا کہ میرا راز فاش ہوگیا۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو وہ عالم صاحب لاپتہ ہوگئے۔
مولانا علیہ الرحمۃ کی سیاسی بصیرت تھی کہ انگریز اپنے دور میں قوم میں انتشار پیدا کرنے کی خاطر جاسوس تیار کرتے اور جس قوم کا جاسوس ہوتا ، ان کے مذہب ، تہذیب ، زبان پر عبور حاصل کرتا اور ان کے مذہبی قائد کی حیثیت سے ایسی باتیں کرتا کہ آپس میں فساد ہو جائے۔
( تذکرہ حضرت محدثِ دکن صفحہ 612 )
 
آخری تدوین:
Top