نیرنگ خیال
لائبریرین
تین سال قبل میں نے محمداحمد بھائی کے ایک شعر کے معانی کھولے تھے۔۔۔۔ محفل پر شاید یہ شامل نہیں ہے۔ اس لیے محفل پر شامل کر رہا ہوں۔ فیس بک کی یادوں نے اس تحریر کو سامنے لا کھڑا کیا تھا۔
ایں آلکسی بزور بازو نیستیوں توں جب ہم سست نہیں ہوتے تو تب ہم صرف سست ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے، کہ جب ہم اپنے تئیں آلکسی کی کئی سیڑھیاں دیکھ کر وہیں پر ہمت ہار جاتے ہیں کہ اب اس رتبے پر کون جائے۔ وہیں ہمیں احمد بھائی کی کوئی ایسی حرکت نظر آتی ہے کہ ہم سوچتے رہ جاتے ہیں میاں۔۔۔ جس رتبہ پر یہ حضرت ہیں، بخدا میں زندگی بھر صرف سویا رہوں تو تب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ "ایں آلکسی بزور بازو نیست"۔ احمد بھائی کی کوچہ آلکساں سے والہانہ محبت تو دیکھیے۔ کہ شاعری میں بھی گردوپیش سے بےخبر نہیں۔ فرماتے ہیں۔
فسانہ پڑھتے پڑھتے اپنے آپ سے اُلجھ گیا
عجیب کشمکش تھی میں کتاب رکھ کے سو گیا
اے ساکنانِ کوچہ! اے منتظمین آلکسی! اے وکلاء پوستیان! دیکھو! ایک نظر ادھر تو دیکھو! ہائے۔ کبھی جو مدت بعد کتاب پڑھنے کی کوشش کی، تو دیکھیے کہ کیا بنی۔ یوں تو ہم ایسے علم کا دعوا نہیں کرتے کہ حضرت نے کون سی کتاب پڑھی ہوگی۔ مگر مصرعہ ثانی سے ظاہر ہے کہ کچھوے اور خرگوش کی کہانی ہوگی۔ اور چونکہ سخن میں حضور کی برق رفتاری کی ایک دنیا معترف ہے سو یقینی طور پر خود کو خرگوش ہی دیکھا ہوگا۔ میں نے اس شعر کو کئی بار پڑھا۔ اور سخن کی وسعت دیکھیے کہ ہر بار مجھ پر اس شعر کے نئے معانی کھلے۔ پہلے میں نے سوچا کہ شاعر موضوع میں بھٹک گیا ہے۔ اور فسانہ اپنے گردوپیش کا فسانہ لگ رہا ہے۔ ایسی بیزاری روزانہ کے فسانوں پر ہی ہوتی ہے۔ جیسے کوئی آدھی بات روک کر کہے۔۔۔ اوہ یار یہ مجھے پتا ہے۔ کوئی اور بات کرو۔ اور سونے سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے۔ پھر مجھے لگا کہ شاعر چونکہ ہمارا دوست ہے سو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی صفحے پر الجھ گیا ہو کہ یہ میں پہلے پڑھ چکا ہوں یا ابھی پڑھنا باقی ہے۔ جب دل و ذہن میں یہ فیصلہ کسی انجام کو نہ پہنچ سکا اور بات تکرار سے دل و ذہن میں ہاتھا پائی کا اندیشہ ہوا تو شاعر نے کہا۔ چھوڑو یار۔ کیوں لڑتے ہو۔ آؤ! بحر خواب میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ وہی لاشعور میں فیصلہ ہوگا کہ یہ صفحہ پڑھا ہے یا نہیں۔ اور پھر جب میں خود اس نتیجے پر پہنچا تو پہلو بدل کر رہ گیا۔ اللہ اللہ۔ ایسی تاثیر۔
از قلم نیرنگ خیال
7 جنوری 2019
ایں آلکسی بزور بازو نیست
فسانہ پڑھتے پڑھتے اپنے آپ سے اُلجھ گیا
عجیب کشمکش تھی میں کتاب رکھ کے سو گیا
اے ساکنانِ کوچہ! اے منتظمین آلکسی! اے وکلاء پوستیان! دیکھو! ایک نظر ادھر تو دیکھو! ہائے۔ کبھی جو مدت بعد کتاب پڑھنے کی کوشش کی، تو دیکھیے کہ کیا بنی۔ یوں تو ہم ایسے علم کا دعوا نہیں کرتے کہ حضرت نے کون سی کتاب پڑھی ہوگی۔ مگر مصرعہ ثانی سے ظاہر ہے کہ کچھوے اور خرگوش کی کہانی ہوگی۔ اور چونکہ سخن میں حضور کی برق رفتاری کی ایک دنیا معترف ہے سو یقینی طور پر خود کو خرگوش ہی دیکھا ہوگا۔ میں نے اس شعر کو کئی بار پڑھا۔ اور سخن کی وسعت دیکھیے کہ ہر بار مجھ پر اس شعر کے نئے معانی کھلے۔ پہلے میں نے سوچا کہ شاعر موضوع میں بھٹک گیا ہے۔ اور فسانہ اپنے گردوپیش کا فسانہ لگ رہا ہے۔ ایسی بیزاری روزانہ کے فسانوں پر ہی ہوتی ہے۔ جیسے کوئی آدھی بات روک کر کہے۔۔۔ اوہ یار یہ مجھے پتا ہے۔ کوئی اور بات کرو۔ اور سونے سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے۔ پھر مجھے لگا کہ شاعر چونکہ ہمارا دوست ہے سو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی صفحے پر الجھ گیا ہو کہ یہ میں پہلے پڑھ چکا ہوں یا ابھی پڑھنا باقی ہے۔ جب دل و ذہن میں یہ فیصلہ کسی انجام کو نہ پہنچ سکا اور بات تکرار سے دل و ذہن میں ہاتھا پائی کا اندیشہ ہوا تو شاعر نے کہا۔ چھوڑو یار۔ کیوں لڑتے ہو۔ آؤ! بحر خواب میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ وہی لاشعور میں فیصلہ ہوگا کہ یہ صفحہ پڑھا ہے یا نہیں۔ اور پھر جب میں خود اس نتیجے پر پہنچا تو پہلو بدل کر رہ گیا۔ اللہ اللہ۔ ایسی تاثیر۔
از قلم نیرنگ خیال
7 جنوری 2019