ضیاءالقمر
محفلین
ای چهرهی زیبای تو رشک بتان آذری هر چند وصفت میکنم در حسن از آن زیباتری
هرگز نیاید در نظر نقشی ز رویت خوبتر شمسی ندانم یا قمر، حوری ندانم یا پری
آفاق را گردیدهام مهر بتان ورزیدهام بسیار خوبان دیدهام اما تو چیز دیگری
ای راحت و آرام جان با روی چون سرو روان زینسان مرو دامنکشان کارام جانم میبری
عزم تماشا کردهای آهنگ صحرا کردهیی جان ودل ما بردهای اینست رسم دلبری
عالم همه یغمای تو خلقی همه شیدای تو آن نرگس رعنای تو آورده کیش کافری
خسرو غریبست و گدا افتاده در شهر شما باشد که از بهر خدا سوی غریبان بنگری
حضرت امیر خسروؒ
اے میرے محبوب تیرا چہرہ اُن حسین بتوں اور مجسموں سے بھی زیادہ دلکش ہے جو آزر نے اپنے بتکدہ میں تیار کر کے رکھے ہوئے تھے۔میں تیری کتنی بھی صفات بیان کروں کم ہیں حقیقتاً تو اُن سب حسینوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔
تیرے چہرے سے زیادہ خوبصورت چہرہ مجھے ہرگز نظر نہیں آتا۔تیرے سامنے سورج ،چاند حور اور پری کی کیا حیثیت ہے۔(یعنی تو چاند اور سورج سےزیادہ روشن اور حور اور پری سے زیادہ نازک اور حسین ہے)
میں دنیا کی بہت سی اطراف میں گھوما پھرا ہوں۔میں نے بہت سے حسین لوگوں سے محبت اختیار کی ہے۔میں نے بہت سے حسین دیکھے ہیں لیکن تو کوئی اور ہی چیز ہے۔ یعنی تو دنیا بھر میں ایک منفرد اور لاثانی حسین معشوق ہے۔
اے میری جان کی راحت!اے میری جان کے آرام ۔تو اپنے چلتے پھرتے سرو قد کی طرح اپنا دامن پھیلائے اس طرح مت ٹہل کیونکہ اس طرح تو میری جان کا امن و سکون چھین کر لیے جا رہا ہے۔
تو نے ارادہ کر لیا کہ دنیا کو (عشق کا) تماشا دکھا دے۔تو نے صحرا کو چلے جانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ تو نے ہماری جان اور ہمارا دل لے لیا ہے۔کیا یہی رسم محبت ہےکیا دل چرانے کی رسم کچھ ایسی ہی ہے۔
(اے میرے محبوب) یہ سارا جہان تیری تاراج کی زد میں ہے۔تمام دنیا کی خلقت تیری شیدا ہے۔تیری ان خوبصورت نرگسی آنکھوں نے کافری مراد (معشوقوں کی سی) عادات اپنا لی ہیں ۔یعنی تو نے اپنے حسن و دلکشی کی بنا پر پوری دنیا کو لوٹ لیا ہے تیری آنکھوں نے معشوقوں کی سی ایمان لوٹنے والی عادات اپنا لی ہیں
(اے محبوب)خسرو ایک مسافر ہے اور فقیر ہے اور تمہارے شہر میں گرا پڑا ہے ۔شاید کہ اللہ کے واسطے ان مسافروں کی جانب تو ایک نظر دیکھ لے۔
هرگز نیاید در نظر نقشی ز رویت خوبتر شمسی ندانم یا قمر، حوری ندانم یا پری
آفاق را گردیدهام مهر بتان ورزیدهام بسیار خوبان دیدهام اما تو چیز دیگری
ای راحت و آرام جان با روی چون سرو روان زینسان مرو دامنکشان کارام جانم میبری
عزم تماشا کردهای آهنگ صحرا کردهیی جان ودل ما بردهای اینست رسم دلبری
عالم همه یغمای تو خلقی همه شیدای تو آن نرگس رعنای تو آورده کیش کافری
خسرو غریبست و گدا افتاده در شهر شما باشد که از بهر خدا سوی غریبان بنگری
حضرت امیر خسروؒ
اے میرے محبوب تیرا چہرہ اُن حسین بتوں اور مجسموں سے بھی زیادہ دلکش ہے جو آزر نے اپنے بتکدہ میں تیار کر کے رکھے ہوئے تھے۔میں تیری کتنی بھی صفات بیان کروں کم ہیں حقیقتاً تو اُن سب حسینوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔
تیرے چہرے سے زیادہ خوبصورت چہرہ مجھے ہرگز نظر نہیں آتا۔تیرے سامنے سورج ،چاند حور اور پری کی کیا حیثیت ہے۔(یعنی تو چاند اور سورج سےزیادہ روشن اور حور اور پری سے زیادہ نازک اور حسین ہے)
میں دنیا کی بہت سی اطراف میں گھوما پھرا ہوں۔میں نے بہت سے حسین لوگوں سے محبت اختیار کی ہے۔میں نے بہت سے حسین دیکھے ہیں لیکن تو کوئی اور ہی چیز ہے۔ یعنی تو دنیا بھر میں ایک منفرد اور لاثانی حسین معشوق ہے۔
اے میری جان کی راحت!اے میری جان کے آرام ۔تو اپنے چلتے پھرتے سرو قد کی طرح اپنا دامن پھیلائے اس طرح مت ٹہل کیونکہ اس طرح تو میری جان کا امن و سکون چھین کر لیے جا رہا ہے۔
تو نے ارادہ کر لیا کہ دنیا کو (عشق کا) تماشا دکھا دے۔تو نے صحرا کو چلے جانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ تو نے ہماری جان اور ہمارا دل لے لیا ہے۔کیا یہی رسم محبت ہےکیا دل چرانے کی رسم کچھ ایسی ہی ہے۔
(اے میرے محبوب) یہ سارا جہان تیری تاراج کی زد میں ہے۔تمام دنیا کی خلقت تیری شیدا ہے۔تیری ان خوبصورت نرگسی آنکھوں نے کافری مراد (معشوقوں کی سی) عادات اپنا لی ہیں ۔یعنی تو نے اپنے حسن و دلکشی کی بنا پر پوری دنیا کو لوٹ لیا ہے تیری آنکھوں نے معشوقوں کی سی ایمان لوٹنے والی عادات اپنا لی ہیں
(اے محبوب)خسرو ایک مسافر ہے اور فقیر ہے اور تمہارے شہر میں گرا پڑا ہے ۔شاید کہ اللہ کے واسطے ان مسافروں کی جانب تو ایک نظر دیکھ لے۔