ان باتوں سے تو میں 100٪ متفق ہوں
پر یہاں بات جذباتی ہونے کی نہیں ہو رہی بلکہ اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی ہو رہی ہے۔
کم ازکم میرا تو اس نظم کو پوسٹ کرنے کا یہی مطلب تھا۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور غلطیوں سے سیکھنے کا جو طریقہ دنیا بھر میں درست مانا جاتا ہے وہ ہے ان کا غیر جانبداری اور سائنسی خطوط پر تجزیہ کرنا اور آئندہ کے لئے ان سے بچنا۔ ارتکاب شدہ غلطیوں کا ماتم کرتے رہنا یا ان پر خود کو کوسنے دے دے کر ملامت کرتے رہنا شاعروں کی شاعری کو تو چار چاند لگا سکتا ہے لیکن حقیقت کی دنیا میں اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔
دنیا بھر کے ماہرینِ نفسیات اور ماہرینِ تعلیم کے نزدیک ملامت کا عمل حوصلہ شکنی پیدا کرتا ہے اور انسانی صلاحیتوں کو منفی طور پر ابھارتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک ناکام کھلاڑی کو اس کی ناقص کارکردگی پر لعنت ملامت کی جائے گی تو وہ دباؤ میں آکر اس کے اپنی صلاحیت کو بہتر بنانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے لیکن اگر اس کی ناکامی کا سائنسی انداز میں جائزہ لے کر اس کی بہتر تربیت کی طرف توجہ دی جائے گی تو وہی کھلاڑی مطلوبہ نتائج دینے کی اہلیت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
اسلامی نکتہ نظر سے اسے یوں سمجھئے کہ اسلام میں لوگوں کو خوشخبری دے کر اللہ کی طرف بلانے کی تاکید ہے حالانکہ اللہ سے بڑا جبار و قہار کوئی نہیں لیکن لوگوں کو اصلاح کی طرف لانے کے لئے نہ تو درشتی اور نہ ہی ان کی زندگیوں پر ملامت کا حکم دیا گیا بلکہ اللہ کی رحمت کا تذکرہ کر کے لوگوں کو اصلاح کی طرف لانے کا حکم دیا گیا۔
اسی طرح اللہ تعالی اس بات کو بھی پسند نہیں فرماتا کہ اس کے بندے احساس ملامت سے دوچار رہیں۔ بڑی سے بڑی غلطی کی بذریعہ توبہ معافی کا راستہ ہمیشہ کھلا دکھایا گیا ہے۔ خود کو مجرم ، قاتل اور نہ جانے کیا کیا کہنا کسی مثبت مہیج کو تو شاید ہی پیدا کر سکے البتہ ہمیں دوسروں کے سامنے احساس کمتری کا دوچار ضرور کر سکتا ہے اور دوسروں کی نظر میں ہماری عزت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اور شاید اسی لئے اسلام نے ہمیں خود کو ملامت کرنے سے منع کیا ہے۔