اے این ایف نے رانا ثنااللہ کو گرفتار کرلیا

فرقان احمد

محفلین
اداروں کے اندر سے صرف این آر او کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ سچائی کی نہیں۔
اداروں میں ایک گروہ اپوزیشن کے ساتھ تیسری بار ڈیل کرنا چاہتا ہے لیکن خان صاحب کا تو آپ کو پتا ہی ہے کہ "میں کوئی این آر او نہیں دوں گا"۔ :)
این آر او دینا واقعی خان صاحب کے بس میں نہیں ہے۔ وہ غلط نہیں کہتے ہیں۔ اس میں ان کی سیاسی موت چھپی ہوئی ہے۔ وہ اور کیا کہیں؟ معیشت کی حالت آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے سیاسی کھیل میں زندہ رہنے کے لیے یہی منجن فروخت کرنا ہے۔ اُن کے پیروکار اسی پر راضی ہیں۔ یہ سطحیت اور کھوکھلا پن ہی ہے کہ بار بار خالی برتن کی طرح بجتے چلے جاؤ۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
معیشت کی حالت آپ کے سامنے ہے۔
معیشت کا ان گرفتاریوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ خان صاحب نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان لوگوں کو چھوڑوں گا نہیں۔ یہ اسی وعدہ کی تکمیل ہے۔
قوم راضی تے کی کرے گا قاضی؟
67277478_2376658585744500_784059585693483008_n.jpg
 

فرقان احمد

محفلین
معیشت کا ان گرفتاریوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ خان صاحب نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان لوگوں کو چھوڑوں گا نہیں۔ یہ اسی وعدہ کی تکمیل ہے۔ اور اگر قوم اسی میں خوش ہے تو پھر کیا کرے گا قاضی؟
67277478_2376658585744500_784059585693483008_n.jpg
تو پھر، قوم کو مبارک ہو۔ سبھی گرفتار ہو گئے! اب کرنے کے لیے باقی کیا رہ گیا ہے! :)
 

جاسم محمد

محفلین
تو پھر، قوم کو مبارک ہو۔ سبھی گرفتار ہو گئے! اب کرنے کے لیے باقی کیا رہ گیا ہے! :)
ابھی جو مفرور ہیں ان کو پکڑ کر واپس لایا جائے گا۔ جو پکڑے گئے ہیں ان سے پیسے نکلوائے جائیں گے۔ اگر اس احتسابی یا انتقامی عمل سے معیشت بیٹھ جاتی ہے تو بیٹھ جائے۔ پہلا کونسا یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ ایک دفعہ قوم کو اس باجوہ / عمران ڈاکٹرائن سے بھی گزر جانا چاہئے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ابھی جو مفرور ہیں ان کو پکڑ کر واپس لایا جائے گا۔ جو پکڑے گئے ہیں ان سے پیسے نکلوائے جائیں گے۔ اگر اس احتسابی یا انتقامی عمل سے معیشت بیٹھ جاتی ہے تو بیٹھ جائے۔ پہلا کونسا یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ ایک دفعہ قوم کو اس باجوہ / عمران ڈاکٹرائن سے بھی گزر جانا چاہئے۔
اور جو اردگرد منڈلا رہے ہیں، ان کی بابت کیا خیال ہے؟ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ن لیگ کے حامی لفافوں کا دعویٰ ہے کہ رانا ثناء اللہ کے اس ہمشکل سے جعلی ویڈیو بنوا کر بطور ثبوت پیش کی جائے گی :)
 

جاسم محمد

محفلین
رانا کی وجہء شہرت اچھی نہیں ہے، تاہم حق بات کہنے میں کیا عار ہے!
کہہ دیں یہ بھی جھوٹ ہے۔ کہہ دینے میں کیا حرج ہے :)

رانا ثناء اللہ نے منشیات کا کاروبار کرنے کا اعتراف کرلیا، اے این ایف کا دعویٰ
202884_2081888_updates.jpg

انسداد منشیات فورس کی جانب سے گزشتہ روز عدالت میں چالان جمع کرایا گیا— فوٹو: فائل

اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے عدالت میں پیش کیے گئے چالان میں دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ نے تفتیشی افسر کو دیے گئے بیان میں منشیات کا کاروبار کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔

انسداد منشیات فورس کی جانب سے گزشتہ روز عدالت میں چالان جمع کرایا گیا۔

جیو نیوز نے رانا ثناء اللہ کے خلاف اے این ایف کے چالان کی کاپی حاصل کرلی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ رانا ثناء نے تفتیشی افسر کو بیان میں کہا کہ سیاست میں پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے منشیات کے کاروبار سے جڑا۔

اے این ایف کے چالان کے مطابق رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ فیصل آباد میں مقامی افغانوں سے نارکوٹکس لے کر منشیات کا کاروبار کرنے والوں کو اسمگل کرتا تھا۔

دوسری جانب لیگی رہنما رانا ثناء کے وکیل جاوید اعوان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اُن کے مؤکل پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔

واضح رہےکہ انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے رانا ثناءاللہ کو 2 جولائی کو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا اور اے این ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثناء کی گاڑی سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کی گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
سنا ہے اس کی گاڑی سے نواز برآمد ہوا تھا۔۔۔

رانا ثنااللہ کا اندرون و بیرون ملک منشیات اسمگل کرنے کا انکشاف
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1760432-ranasanaullah-1564400913-494-640x480.jpg

رانا ثنااللہ فیصل آباد میں افغانیوں سے منشیات لے کر بیرون ملک سپلائی کرتے تھے، اے این ایف چالان۔ فوٹو: فائل

لاہور: اے این ایف کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان میں رانا ثنااللہ کا اندرون و بیرون ملک منشیات اسمگل کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) رانا ثنااللہ کے خلاف اے این ایف حکام کے جمع کرائے گئے چالان کی کاپی منظر عام پر آگئی، چالان میں کہا گیا ہے کہ رانا ثنااللہ کو سکھیکی کے قریب روکا گیا اور جب منشیات سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی تو رانا ثنااللہ نے نیلا سوٹ کیس کھول دیا، رانا ثنااللہ نے ہیروئن کی موجودگی تسلیم کی اور مومی لفافے میں بند ہیروئن کھول دی۔

چالان کے متن میں کہا گیا ہے کہ رانا ثنااللہ کے گارڈز نے اے این ایف حکام سے ہاتھا پائی کی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، موقع سے ملزم رانا ثنااللہ سے نائن ایم ایم پسٹل بریٹا بھی برآمد کیا گیا، راناثنااللہ نے اقرار جرم کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ گزشتہ چند سالوں سے منشیات اسمگلنگ سے منسلک ہیں۔

چالان میں مزید کہا گیا ہے کہ رانا ثنااللہ نے بتایا کہ سیاست میں خرچے کافی زیادہ ہیں اور ان کی انکم کچھ زیادہ نہیں ہے جب کہ ان کے صوبائی وزیر قانون بننے کے بعد جرائم پیشہ افراد سے روابط بڑھے، رانا ثنااللہ فیصل آباد میں افغانیوں سے منشیات لے کر بیرون ملک سپلائی کرتے تھے، رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ ان کی گاڑی کو چیک نہیں کیا جاتا تھا اس لیے وہ اپنی ذاتی گاڑی میں منشیات اسمگل کرتے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عدالت کو فیصلہ کرنے دیجیے۔ :) صبر سے کام لیں!
عدالت کو یا فوج کو؟ :ROFLMAO:

رانا ثناء اللہ کیخلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کے دوران جج تبدیل

لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کرنے والے جج کو تبدیل کر دیا گیا۔

انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشد، رانا ثناء اللہ خان کے خلاف کیس سن رہے تھے کہ سماعت کے دوران وقفہ کردیا گیا۔

سماعت میں وقفے کے بعد جج نے عدالت میں واپس آ کر بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ان کی خدمات اس عدالت سے واپس لے لی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں کام سے روکے جانے کا نوٹیفکیشن واٹس ایپ میسج کے ذریعے مل گیا ہے۔

رانا ثناء کے وکیل نے کہا کہ اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کا کیس کمزور تھا، اسی لیے سماعت میں وقفہ کیا گیا جس پر جج مسعود ارشد نے کہا کہ وہ اللہ کو جواب دہ ہیں، کیس رانا ثناء کا ہوتا یا کسی اور کا فیصلہ میرٹ پر ہی ہونا تھا۔

عمران خان کیس ثابت نہ کرسکے تو جج بدل دیا: مسلم لیگ (ن) کا الزام
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن قبال کا جج کی تبدیلی پر کہنا تھا کہ حکومت نے دوران سماعت واٹس ایپ میسج سے جج تبدیل کرکے نظام انصاف پر حملہ کیا، جج کو اس وقت تبدیل کیا گیا جب وہ رانا ثناء کی ریلیف کی درخواست پر فیصلہ دینے والے تھے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا نظام انصاف حکومت کی مرضی کے مطابق چلے گا؟

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان، رانا ثناءاللہ کے خلاف کیس ثابت نہ کرسکے تو جج ہی تبدیل کردیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ٹرائل کورٹ ججوں کی تبدیلی کا مشکوک طریقہ کار آزاد عدلیہ پر بدترین حملہ ہے۔

لاہور کے 3 سیشن ججوں کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس
وفاقی وزارتِ قانون نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے 3 سیشن ججز کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں جن میں احتساب عدالت نمبر ایک کے جج مشتاق الہٰی، احتساب عدالت نمبر 5 کے جج نعیم ارشد اور انسداد منشیات کی عدالت کے جج مسعود ارشد شامل ہیں۔

وفاقی حکومت نے ان ججز کی خدمات 3 سال کیلئے ڈیپوٹیشن پر حاصل کی تھیں لیکن یہ مدت پوری ہونے سے قبل ہی ان کی خدمات واپس کردی گئیں اور لاہور ہائیکورٹ سےنئے ججز کی تعیناتی کیلئے نام مانگ لیے۔

احتساب عدالت نمبر ایک میں زیرسماعت مقدمات
احتساب عدالت نمبر ایک کے جج مشتاق الہیٰ سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، پیپلز پارٹی کے رہنما آصف ہاشمی اور چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے کے کیس میں ملوث میاں بیوی فاروق نول اور طیبہ گل کے خلاف نیب کیسز کی سماعت کر رہے تھے۔

احتساب عدالت نمبر 5 میں زیرسماعت مقدمات
احتساب عدالت نمبر 5 کے جج محمد نعیم ارشد رمضان شوگر ملز کیس کی سماعت کر رہے تھے، اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور قائدِ حزبِ اختلاف پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز ملزم ہیں۔

اسی عدالت میں سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف نیب کیس بھی زیرِ سماعت تھا، بطور ڈیوٹی جج وہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت بھی کر رہے تھے۔

انسداد منشیات کی خصوصی عدالت
انسدادِ منشیات کی خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشد مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ کے خلاف 15 کلو ہیروئین برآمدگی کے کیس کی سماعت کر رہے تھے کہ دورانِ سماعت ہی انہیں وٹس ایپ میسج کے ذریعے ہٹا دیا گیا۔

تاہم وزارت قانون و انصاف نے جج کی خدمات واپس لینے کا حکم وٹس ایپ سے بھیجے جانے کی تردید کی ہے۔ وزارت قانون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کسی بھی جج کو واٹس ایپ پر کوئی حکم نہیں بھیجا گیا۔

یاد رہےکہ انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے رانا ثناءاللہ کو 2 جولائی کو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا اور اے این ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثناء کی گاڑی سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کی گئی۔ رانا ثناء اللہ ان دنوں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
عدالت کو یا فوج کو؟ :ROFLMAO:

رانا ثناء اللہ کیخلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کے دوران جج تبدیل

لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کرنے والے جج کو تبدیل کر دیا گیا۔

انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشد، رانا ثناء اللہ خان کے خلاف کیس سن رہے تھے کہ سماعت کے دوران وقفہ کردیا گیا۔

سماعت میں وقفے کے بعد جج نے عدالت میں واپس آ کر بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ان کی خدمات اس عدالت سے واپس لے لی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں کام سے روکے جانے کا نوٹیفکیشن واٹس ایپ میسج کے ذریعے مل گیا ہے۔

رانا ثناء کے وکیل نے کہا کہ اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کا کیس کمزور تھا، اسی لیے سماعت میں وقفہ کیا گیا جس پر جج مسعود ارشد نے کہا کہ وہ اللہ کو جواب دہ ہیں، کیس رانا ثناء کا ہوتا یا کسی اور کا فیصلہ میرٹ پر ہی ہونا تھا۔

عمران خان کیس ثابت نہ کرسکے تو جج بدل دیا: مسلم لیگ (ن) کا الزام
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن قبال کا جج کی تبدیلی پر کہنا تھا کہ حکومت نے دوران سماعت واٹس ایپ میسج سے جج تبدیل کرکے نظام انصاف پر حملہ کیا، جج کو اس وقت تبدیل کیا گیا جب وہ رانا ثناء کی ریلیف کی درخواست پر فیصلہ دینے والے تھے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا نظام انصاف حکومت کی مرضی کے مطابق چلے گا؟

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان، رانا ثناءاللہ کے خلاف کیس ثابت نہ کرسکے تو جج ہی تبدیل کردیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ٹرائل کورٹ ججوں کی تبدیلی کا مشکوک طریقہ کار آزاد عدلیہ پر بدترین حملہ ہے۔

لاہور کے 3 سیشن ججوں کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس
وفاقی وزارتِ قانون نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے 3 سیشن ججز کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں جن میں احتساب عدالت نمبر ایک کے جج مشتاق الہٰی، احتساب عدالت نمبر 5 کے جج نعیم ارشد اور انسداد منشیات کی عدالت کے جج مسعود ارشد شامل ہیں۔

وفاقی حکومت نے ان ججز کی خدمات 3 سال کیلئے ڈیپوٹیشن پر حاصل کی تھیں لیکن یہ مدت پوری ہونے سے قبل ہی ان کی خدمات واپس کردی گئیں اور لاہور ہائیکورٹ سےنئے ججز کی تعیناتی کیلئے نام مانگ لیے۔

احتساب عدالت نمبر ایک میں زیرسماعت مقدمات
احتساب عدالت نمبر ایک کے جج مشتاق الہیٰ سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، پیپلز پارٹی کے رہنما آصف ہاشمی اور چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے کے کیس میں ملوث میاں بیوی فاروق نول اور طیبہ گل کے خلاف نیب کیسز کی سماعت کر رہے تھے۔

احتساب عدالت نمبر 5 میں زیرسماعت مقدمات
احتساب عدالت نمبر 5 کے جج محمد نعیم ارشد رمضان شوگر ملز کیس کی سماعت کر رہے تھے، اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور قائدِ حزبِ اختلاف پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز ملزم ہیں۔

اسی عدالت میں سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف نیب کیس بھی زیرِ سماعت تھا، بطور ڈیوٹی جج وہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت بھی کر رہے تھے۔

انسداد منشیات کی خصوصی عدالت
انسدادِ منشیات کی خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشد مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ کے خلاف 15 کلو ہیروئین برآمدگی کے کیس کی سماعت کر رہے تھے کہ دورانِ سماعت ہی انہیں وٹس ایپ میسج کے ذریعے ہٹا دیا گیا۔

تاہم وزارت قانون و انصاف نے جج کی خدمات واپس لینے کا حکم وٹس ایپ سے بھیجے جانے کی تردید کی ہے۔ وزارت قانون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کسی بھی جج کو واٹس ایپ پر کوئی حکم نہیں بھیجا گیا۔

یاد رہےکہ انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے رانا ثناءاللہ کو 2 جولائی کو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا اور اے این ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثناء کی گاڑی سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کی گئی۔ رانا ثناء اللہ ان دنوں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
بہتر ہو گا کہ عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد بحال رہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بہتر ہو گا کہ عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد بحال رہے۔
میڈیا کے بعد عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی دیدہ دلیری
29/08/2019 سید مجاہد علی



مسلم لیگ(ن) کے لیڈر رانا ثنا اللہ کے مقدمہ کی سماعت کے دوران وقفہ کے بعد پریزائڈنگ جج نے سماعت سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس مقدمہ میں مزید کارروائی نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کردی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ حیران کن انکشاف بھی کیا کہ انہیں یہ اطلاع واٹس ایپ پیغام کے ذریعے دی گئی ہے۔

ایک اہم سیاسی لیڈر کے خلاف جج کو تبدیل کرنے کا اچانک فیصلہ اور حیران کن طریقہ کسی چونکا دینے والے انکشاف سے کم نہ تھا۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب رانا ثنا للہ کے وکیل ان کی ضمانت کے لئے دلائل مکمل کرچکے تھے اور توقع کررہے تھے کہ عدالت انہیں منشیات کے ایک ایسے مقدمہ میں رہا کردے گی جس میں استغاثہ کے پاس کوئی خاص ثبوت و شواہد موجود نہیں ہیں۔ رانا ثنا اللہ کو منشیات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے مضحکہ خیز الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد وفاقی وزیروں نے رانا ثنا اللہ کے ’جرائم ‘ کا انکشاف کرنے کے لئے خوب زور بیان صرف کیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر اور پنجاب کے سابق وزیر قانون کو ایک عالمی سطح کا اسمگلر اور دہشت گرد وں کا سرپرست قرار دینے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ حیرت ہے کہ اس قدر ’ٹھوس مقدمہ ‘ کے باوجود حکومت کو عین مقدمہ کی سماعت کے دوران جج کو تبدیل کرکے اس تاثر کو مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف عدالتوں میں وہی جج تعینات ہوں گے جن کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہ حکومت وقت کو ’مایوس‘ نہیں کریں گے۔

رانا ثنا اللہ کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج کے سبکدوش ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ وزارت قانون و انصاف نے دو روز قبل ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے رانا ثنا اللہ کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے منشیات عدالت کے جج کے علاوہ تین احتساب ججوں کا بھی فوری طور سے تبادلہ کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ جج بھی مریم نواز اور شہباز شریف سمیت شریف خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت کررہے تھے۔ عام طور سے ایسی عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی تین سال کے لئے ہوتی ہے ۔ اس مدت میں ججوں کا تبادلہ کرنے کی روایت موجود نہیں ہے تاہم اگر کسی انتظامی ضرورت کے تحت ایسا کرنا ضروری ہو تو اس فیصلہ کی تفصیلی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔ تاہم 26 اگست کے حکم نامہ میں جن ججوں کے مقررہ وقت سے پہلے تبادلے کئے گئے ہیں ، انہیں یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ یہ فیصلہ کرنا کیوں ضروری تھا۔

یہ اقدام اگر سادہ لوحی یا کسی انتظامی مجبوری کے تحت بھی کیا گیا ہے تو بھی اس سے عدلیہ کی آزادی و خود مختاری اور عدالتی امور میں حکومت کی براہ راست مداخلت کا تاثر قائم ہوگا۔ یہ عین ممکن ہے کہ ان ججوں کی ’خود مختاری‘ سے کوئی خاص خطرہ نہ بھی موجود ہو لیکن اسی تاثر کو قوی کرنے کے لئے ججوں کے اچانک تبادلے کرتے ہوئے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ سیاسی لیڈروں کے مقدمات کی سماعت کرنے والے زیریں عدالتوں کے ججوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہو کہ کون لوگ حکومت وقت کی نظر میں گناہ گار ہیں اور ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ ملک میں قانون کی ناک ایک ایسے موم سے بنی ہوتی ہے جسے طاقت ور اور حکمران جب چاہے اپنی مرضی و منشا کے مطابق مروڑ سکتے ہیں۔ اس اقدام کا دوسرا مقصد عدلیہ کو کنٹرول میں رکھنے اور اسے حکومت وقت کی ضرورت اور مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کا پیغام دینا ہو سکتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت میڈیا کے خلاف متعدد معاملات میں کامیابی سے یہ تجربہ کرچکی ہے۔ پیمرا کے علاوہ مختلف سرکاری اداروں کو استعمال کرتے ہوئے میڈیا مالکان کو حکومتی خواہش و ضرورت کے مطابق ادارتی پالیسی بنانے پر مجبور کیا جاچکا ہے۔ ملک کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے مالکان حکومت کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی خبر یا تبصرہ سامنے لانے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ اور ان صحافیوں اور اینکرز سے ’نجات‘ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو حکومت وقت کی نظر میں ناپسندیدہ ہوں۔ اگر کوئی اینکر یا چینل اس کے باوجود کوئی انٹرویو یا رپورٹ نشر کرنے پر اصرار کرے تو بعض نادیدہ ہاتھ لائیو نشریات کو رکوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پھر کسی میں یہ پوچھنے کا حوصلہ نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں ہؤا اور کس نے کیا؟

اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ کی خبروں کے علاوہ سیاسی لیڈروں کی سرگرمیوں اور بیانات کو سختی سے سنسر یا بلیک آؤٹ کرنے کی پالیسی مسلط کروا دی گئی ہے۔ لیکن یہ کام اس خوبی سے کیا گیا ہے کہ اسے پابندی کی بجائے ’ادارتی کنٹرول‘ کا خوبصورت نام دے دیا گیا ہے۔ اسی لئے دنیا بھر کی صحافی تنظیموں اور ملکی صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے شور مچانے کے باوجود وزیراعظم اور ان کے مشیر نہایت ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کرنے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان میں میڈیا کو جو آزادی حاصل ہے وہ تو امریکہ اور برطانیہ جیسے آزاد ممالک میں بھی حاصل نہیں ہے۔

لگتا ہے کہ عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی حکومت وقت میڈیا پر قابو پانے کے تجربہ سے استفادہ کررہی ہے۔ جس طرح میڈیا مالکان اپنی مالی مجبوری یا ’قومی مفاد ‘ کی ضرورتوں کے تحت آزادانہ رائے یا خبروں کی بلا روک ٹوک ترسیل کو ’سیلف سنسر شپ‘ کہنے پر مجبور کردیے گئے ہیں اسی طرح اب زیریں عدالتوں کے ججوں کو تبادلوں کے دباؤ اور اعلیٰ عدالتوں کو قومی مفاد میں نظریہ ضرورت کے تقاضوں کے تحت وہی فیصلے کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو حکومت کے سیاسی مفادات کے لئے سود مند ہوں۔ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی کسی حجاب کے بغیر سیاسی مخالفین کو چور اچکے قرار دے کر انہیں ہر قیمت پر جیلوں میں بند کرنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اور نیب نہایت تابعداری سے اس خواہش کی تکمیل میں مصروف ہے۔ نیب نے جس تیزی سے موجودہ حکومت کے مخالفین کو حراست میں لیا ہے اور ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں، اس کی روشنی میں اب کسی کو شبہ نہیں رہا کہ یہ ادارہ خود مختار اکائی کہلانے کے باوجود سیاسی مقاصد کی تکمیل کا مؤثر ذریعہ بنا ہؤا ہے۔

کوئی ذی شعور ملک میں احتساب کا مخالف نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی کوئی محب وطن اس بات سے انکار کرے گا کہ سابقہ حکمرانوں سمیت ہر شخص کو اپنی کرپشن کا جواب دینا ہوگا اور ان کے خلاف ثبوت موجود ہوں تو انہیں اپنے کئے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ لیکن اس بنیادی اصول کو تسلیم کرنے کے بعد جب یہ امید کی جاتی ہے کہ عدالتوں کی خود مختاری اور نیب کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے تو پروپیگنڈا کا ایک سیلاب ایسی آوازوں کو بہا لے جانے کے لئے امڈا چلا آتا ہے۔ انصاف کو یقینی بنانے کے لئے اسے سیاست کی دست و برد سے محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے لیکن یہاں حکومت خود ہی آزاد ججوں اور خود مختار عدلیہ کے خلاف مدعی بن کر سامنے آرہی ہے۔ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ نیب کا الزام لگے یا عدالت سے کوئی عبوری فیصلہ آئے یا کوئی دوسرا واقعہ رونما ہو ایک کے بعد دوسرا وزیر دلائل کا انبار اٹھائے چلا آتا ہے۔

نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں سزا دینے والے جج ارشد ملک کا معاملہ اس حوالے سے مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس جج کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ، اسے جج کی معصومیت اور مریم نواز کی سیاسی چالاکی ثابت کرنے کے لئے عمران خان کی کابینہ کے ارکان پوری تندہی سے مصروف عمل ہوئے تھے گویا اس اہم قومی عہدے پر ان کی تقرری کا مقصد ہی ویڈیو زدہ ججوں کو بچانا ہو۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں دائر کی جانے والی درخواستوں کا فیصلہ کرتے ہوئے جج کو گناہگار اور منصفوں کے لئے باعث شرم قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود اس جج کے دیے گئے متنازعہ فیصلہ کو مسترد کرنے کا حکم دینے سے گریز کیا۔ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ریفر کیا گیا ہے جہاں نواز شریف کی اپیلیں نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر ہنوز تعطل کا شکار ہیں۔

اسی طرح اب پنجاب میں ججوں کے تبادلوں پر اگر لاہور ہائی کورٹ مداخلت نہیں کرتی اور وزارت قانون و انصاف سے یہ استفسار نہیں کیا جاتا کہ کس بنیاد پر اس کے زیر اختیار کام کرنے والے ججوں کو تبدیل کیا گیا ہے تو یہ طے ہوجائے گا کہ اعلیٰ عدالتیں اپنا دامن بچانے کی کوشش میں انصاف کا دامن تار تار کروانے کا سبب بن رہی ہیں۔
 
Top