سیدہ شگفتہ
لائبریرین
اے باد صبا جا کے یہ عمو کو بتانا
پیاسی ہے سکینہ
اس چھوٹے سے سن میں یہ ستم میں نے اٹھائے
اللہ کسی کو نہ یتیم ایسا بنائے
خود اپنے لہو میں کوئی بچی نہ نہائے
میں تم کو بلاتی رہی تم بھی تو نہ آئے
میں بن گئی بعد عصر لعینوں کا نشانہ
پیاسی ہے سکینہ
پانی کی طلب مجھ کو کھلاتی رہی ٹھوکر
کہتا تھا لعیں دوں گا میں فوجوں کو پلا کر
جب شمر لعیں کر چکا سیراب یہ لشکر
دکھلا کے مجھے پھینک دیا پانی زمیں پر
تب سمجھی میں کیا ہوتا ہے امید دلانا
پیاسی ہے سکینہ
اک جام ہوا شامِ غریباں میں میسر
وہ کوزہ میں رکھ آئی تھی اصغر کی لحد پر
تھا مجھ سے بھی چھوٹا میرا بھیا ،میرا دلبر
شرمندہ میں ہو جاتی چچا پیاس بجھا کر
اب اپنے ہی ہاتھوں سے میری پیاس بجھانا
پیاسی ہے سکینہ
اک رسی میں ہم سب کے گلے باندھ کے اعداء
کرتے ہوئے تشہیر چلے جانب کوفہ
اور اس پہ مصیبت یہ تھی قد چھوٹا تھا میرا
اٹھتی تھیں جو پھپھیاں تو گلا کھچتا تھا میرا
گردن کا میرے زخم چچا دیکھنے آنا
پیاسی ہے سکینہ
جس روز سے اصغر کو ملا بابا کا سینہ
اس روز سے عمو نہیں سو پائی سکینہ
اس حال میں جاؤں گی میں کس طرح مدینہ
آ جائے مجھے موت ،ہے کس کام کا جینا
جاگی ہوں بہت آ کے چچا مجھ کو سلانا
پیاسی ہے سکینہ
گھر لوٹ کے جاتے ہیں ہر اک شام پرندے
قسمت میں لکھے ہیں میری زنداں کے اندھیرے
کب تک میں جیوں گی یونہی اشکوں کے سہارے
لگتا ہے کہ مر جاؤں گی اب دور وطن سے
ہو گا نہ میسر مجھے گھر لوٹ کے جانا
پیاسی ہے سکینہ
انور یہ صدا پرچم عباس سے آئی
میں بھول نہیں سکتا سکینہ میری بچی
کاٹے گئے بازو میرے ،مجبور تھا بی بی
مشکیزہ علم میں ہے لگا ،دیکھ لے اب بھی
پرچم کا، میرے کام ہے دنیا کو بتانا
پیاسی ہے سکینہ
اے باد صبا جا کے یہ عمو کو بتانا
پیاسی ہے سکینہ
پیاسی ہے سکینہ
کلام: انور کمال الہ آبادی (ممبئی انڈیا)